غلام قادر کہنے لگا کہ تمہیں بہرحال عمران خان کے وژن اور دور رس اثرات کی حامل اس کی مرغیوں والی تجویز کی داد دینا پڑے گی۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: وہ کیسے؟ قادر کہنے لگا: دیکھیں! عمران خان صاحب نے گزشتہ سال کے آغاز میں ہی آپ لوگوں کو مرغیاں پالنے کا صائب مشورہ دے دیا تھا۔ آپ لوگوں نے ان کا مشورہ جاننے اور اس پر عمل کرنے کے بجائے ان کی اس تجویز کا ٹھٹھہ اڑانا شروع کر دیا اور الٹی سیدھی باتیں بنانا شروع کر دیں۔ اب آپ اپنی اس غلطی کو بھگتیں۔ پنجابی کی ایک بڑی مشہور کہاوت ہے کہ آملہ کھانے کا اثر اور سیانے کی بات کا نتیجہ، ظاہر ہونے میں تھوڑا وقت لگتا ہے‘ سو خان صاحب کی بات کا نتیجہ نکلنے میں تھوڑی دیر تو لگی ہے لیکن نتیجہ ایسا نکلا ہے کہ لوگوں کی باں باں نکل گئی ہے۔ ان کے مشورے کے دور رس نتائج اب جا کر ظاہر ہوئے ہیں۔ میں نے کہا: مُلّے (میں قادر کو اسی نام سے پکارتا ہوں) بات کو گھمانے پھرانے کے بجائے سیدھی طرح بتائو کہ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ وہ کہنے لگا: خان صاحب نے آپ کو قبل از وقت ہی کہہ دیا تھا کہ آپ لوگ مرغیاں پال لیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد انڈوں کے ریٹ بڑھ جائیں گے اور جو لوگ ان کا مشورہ مان کر یہ کاروبار کر لیں گے ان کے پوبارہ ہو جائیں گے اور جو مذاق اڑائیں گے ان کے کڑاکے نکل جائیں گے‘ لیکن آپ جیسے فارغ العقل قسم کے دانشوروں نے اس مشورے پر عمل کرنے کے بجائے مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ اب نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ انڈے نوے روپے درجن سے ایک سو نوے روپے درجن ہو گئے ہیں یعنی ان کی قیمت دوگنا سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
اگر آپ لوگوں نے بروقت مرغیاں پال لی ہوتیں تو آپ کے وارے نیارے ہو سکتے تھے۔ صرف دس مرغیاں اور ایک مرغا رکھ لیتے تو ایک مہینے میں تین سو انڈے حاصل ہو جاتے۔ آپ ان تین سو انڈوں کی قیمت لگائیں تو وہ موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق چار ہزار سات سو پچاس روپے بنتی ہے۔ یہ صرف دس مرغیوں کا حساب ہے۔ زیادہ رکھتے تو زیادہ کما سکتے تھے۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ میں نے کہا: یہ بتا کہ انڈوں کی قیمت میں سو فیصد اضافے سے جو مہنگائی ہوئی ہے اور انڈہ غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے اس کے عوامی سطح پر جو منفی اثرات پیدا ہوئے ہیں اس کے بارے میں تم کیا کہو گے؟ وہ ہنسا اور کہنے لگا: تم بھی کمال کرتے ہو، اللہ کے بندے یہ مارکیٹ اکانومی ہے۔ اس میں کسی کو نفع ہوتا ہے اور کسی کو نقصان ہوتا ہے۔ کاروبار میں یہ تو ہو گا۔ اب ایسا تو نہیں کہ عوام کو ریلیف اور سستے انڈے فراہم کرنے کے چکر میں بے چارہ مرغیاں پالنے والا اپنی مرغیوں کے ساتھ ساتھ غریبوں کو بھی پالنے کی ذمہ داری اٹھا لے۔ ویسے بھی عمران خان صاحب نے مرغیاں پالنے کا مشورہ ان لوگوں کو ہی دیا تھا جو اب انڈے مہنگے ہونے پر شور و غوغا کر رہے ہیں۔
میں نے کہا: مُلّے مذاق اپنی جگہ لیکن یہ بتا کہ آخر ان انڈوں کے ساتھ ہوئی کیا ہے؟ یہ غریب آدمی کے لیے پروٹین حاصل کرنے کا ایک آسان ذریعہ تھا، چلیں آٹھ روپے میں ایک انڈہ مل جاتا تھا اب اس کی قیمت سولہ روپے ہو گئی ہے۔ آخر چند دن میں کیا ہوا کہ اتنی لوٹ پڑ گئی ہے؟ اگر مرغیاں خوراک ڈالروں میں کھاتی تھیں تو اب تو ڈالر کا ریٹ بھی تھوڑا نیچے آ گیا ہے۔ فیڈ کا ریٹ بھی اس تناسب سے نہیں بڑھا جس تناسب سے انڈوں کی قیمت بڑھ گئی ہے تو یہ ہو کیا رہا ہے؟ ضروریات زندگی میں اشیائے خورونوش کی رینکنگ کریں تو پہلے نمبر پر ہمارے ہاں آٹا آتا ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ہر امیر، غریب استعمال کرتا ہے اور اس سے مفر کسی صورت ممکن نہیں۔ غریب بھی کچھ اور کھائے یا نہ کھائے آٹا تو ضرور استعمال کرے گا کہ روٹی ہماری بنیادی غذا ہے۔ اب اس کا ریٹ دیکھیں‘ چالیس بیالیس روپے کلو سے پچھتر اسی روپے کے درمیان فروخت ہو رہا ہے۔ چینی بھی انہی ضروری اشیائے خوردنی میں شامل ہے۔ اس کی قیمت بھی پچاس روپے سے سو روپے ہو گئی ہے۔ سبزیوں کی بھی بھلی پوچھیں۔ ٹماٹر دو سو روپے سے واپس پلٹا ہے۔ ادرک لہسن کی قیمت سینکڑوں روپے کلو ہو چکی ہے‘ حتیٰ کہ پیاز بھی سو روپے کے لگ بھگ بک رہا ہے۔ مفت میں سبزی کے ساتھ ملنے والا دھنیا ڈیڑھ سو روپے کلو سے زیادہ پر فروخت ہو رہا ہے۔ دھنیے کی بے قدری کے بارے میں تو کئی کہاوتیں ہیں کہ 'تم وہاں دھنیا لینے گئے تھے‘ وغیرہ وغیرہ۔ بعض دالیں دو سو روپے کلو سے اوپر چلی گئی ہیں۔ ایسے میں انڈے کی قیمت دوگنا ہو گئی ہے تو ایسے ہی ہے جیسے سیلاب کے ریلے میں بڑی بڑی عمارتیں بہہ جائیں تو ایک آدھ چارپائی کے بہہ جانے پر نہ کسی کو فکر ہوتی ہے اور نہ ہی نظر جاتی ہے۔
قادر کہنے لگا:تمہاری باتیں ٹھیک ہیں لیکن ہمارے پی ٹی آئی کے دوست آج بھی ان تمام باتوں کی ذمہ داری گزشتہ حکومت پر ڈال رہے ہیں۔ گنے کی گزشتہ فصل اسی حکومت کے دور میں کاشت ہوئی، ایک سو اسی روپے فی من پر فروخت ہوئی اور مل مالک نے اسی ریٹ پر گنا خرید کر اس سے چینی بنائی۔ سب کچھ حسب سابق والی قیمتوں پر خریدا گیا لیکن قیمت فروخت دوگنا ہو چکی ہے۔ گندم سرکار نے بھی اور بیوپاری نے بھی چودہ سو روپے من کے سرکاری ریٹ پر خریدی لیکن ابھی خریداری بھی بند نہیں ہوئی تھی کہ گندم کی قیمت چودہ سو روپے من سے بڑھ کر دو ہزار روپے فی من سے بھی اوپر چلی گئی۔ اب اس کی قیمت اڑھائی ہزار روپے من کے لگ بھگ ہے اور آٹے کی قیمت تین ہزار روپے من کے لگ بھگ ہے بلکہ اس سے بھی اوپر ہے۔ جس کسی انصافیے سے ان باتوں کا ذکر کریں وہ اس کا سارا ملبہ گزشتہ حکومت پر ڈال دیتا ہے۔ دو سال سے حکومت کر رہے ہیں۔ اس دوران دو عدد فصلیں ان کی حکومت کے دور میں کاشت ہو کر مارکیٹ میں آ چکی ہیں لیکن اس کا سارا ملبہ وہ گزشتہ حکومتوں پر ڈال رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اگر میں فون کر کے طارق محمود سے انڈوں کی قیمت میں اضافے کا سبب دریافت کروں تو مجھے یقین ہے کہ وہ کہے گا کہ یہ ان مرغیوں کی سازش ہے جن کی عمر دو سال سے زیادہ ہے اور جو میاں نواز شریف کے دور میں پیدا ہوئی تھیں۔ یہ ساری کی ساری مرغیاں موجودہ حکومت کے خلاف ایک سازش کے تحت مہنگے انڈے دے رہی ہیں تاکہ عمران خان کی حکومت کو ناکام بنایا جا سکے۔ جب تک شریف خاندان کی ذاتی وفادار بیوروکریسی اور ان مرغیوں سے قوم کی جان نہیں چھوٹتی تب تک یہ مسائل پیش آتے رہیں گے‘ لیکن آپ فکر نہ کریں‘ ایک دو سال میں ان بوڑھی سازشی مرغیوں سے اور دس بارہ سال میں سرکار سے زیادہ میاں صاحبان کی وفادار بیوروکریسی سے جان چھوٹ جائے گی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
قادر کہنے لگا: ان انڈوں کی قیمت کے باعث مارکیٹ میں بہت سے لطیفے بھی گردش کر رہے ہیں جن میں سے اکثر ایسے نہیں کہ شرفا کو سنائے جا سکیں۔ اس میں سب سے مہذب لطیفہ یہ چل رہا ہے کہ تحریک انصاف کے زمانے میں انصاف کا یہ عالم ہے کہ اب انڈہ خریدنے والا بھی تقریباً اسی تکلیف سے گزر رہا ہے جس سے مرغی انڈہ دیتے ہوئے گزرتی ہے یعنی انڈہ دینے اور خریدنے والے یکساں مصیبت کا شکار ہیں۔ اب حکومت اس سے بڑھ کر اور کیا انصاف کرے؟ حکومت نے تو انصاف کی اخیر کر دی ہے۔