سیاسی مخالفین کو زیر عتاب رکھنے سے لیکر سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے تک‘ کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ سے لے کر کنبہ پروری تک‘ کچھ بھی تو نیا نہیں ہے۔ وطن عزیز کے ساتھ یہ کھلواڑ روزِ اوّل سے جاری ہے صرف کردار اور چہرے بدل رہے ہیں اور عوام کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جس معاشرے میں سب کچھ چلتا ہو پھر وہاں کچھ نہیں چلتا۔ بوئے سلطانی اور ہوسِ زر کے ماروں نے حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک کون کون سا شارٹ کٹ نہیں لگایا اور اب یہ عالم ہے کہ پورا سسٹم ہی شارٹ ہو کر رہ گیا ہے۔
ملک بھر میں سیاسی کشاکش کا کھڑکی توڑ ہفتہ کیا کم رش لے رہا تھا کہ چیمپئنز نے انتظامی بحران پیدا کرکے بھونچال کا سا سماں باندھ ڈالا۔ بھونچال بھی ایساکہ آرمی چیف کو ناصرف نوٹس لینا پڑا بلکہ بلاول بھٹو کو فون کرنے کے علاوہ کور کمانڈر کراچی کو شفاف تحقیقات کا حکم بھی دے ڈالا۔ نجانے کون سا آسیب ہے جو حکمرانوں سے ایسے فیصلے کروا دیتا ہے کہ پسپائی کے ساتھ جگ ہنسائی کا بھی باعث بنتے ہیں۔ جگ ہنسائی کا باعث بننے والے اقدامات کے پس پردہ کردار کہیں باہر سے نہیں آتے بلکہ حکمرانوں کے اردگرد‘ آگے پیچھے پھرنے والے ہی ہوتے ہیں۔ لاہور میں غداری کے مقدمے سے لے کر کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری تک جگ ہنسائی اور پسپائی سمیت کیا کچھ نہیں سمیٹا گیا۔ ندامت کے باوجود کیسے کیسے بیانیے اب بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔
ان عالی دماغ چیمپئنز کا صرف ایک ہی مشن ہے‘ عوام کی مت مار دو اور خواص کا ضمیر مار دو۔ اس کے بعد دروغ گوئی اور فرضی اعدادوشمار کے ساتھ کارکردگی اور گورننس کا ایسا ڈھول بچاؤ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ سابقہ ادوار کا موجودہ حکمرانوں سے موازنہ کریں تو یوں محسوس ہوتا ہے‘ موجودہ سرکار پر بدترین طرز حکمرانی کے سبھی ریکارڈ توڑنے کی دھن سوار ہے۔ ''نیئرز اینڈ ڈیئرز‘‘ پر مشتمل چیمپئنز نے سرکار کو بالآخر اُس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ سُبکی‘ ندامت‘ خجالت اور جگ ہنسائی سمیت نجانے کیا کچھ مقدر بنتا چلا جارہا ہے۔
سندھ پولیس کے آئی جی سمیت دیگر اعلیٰ افسران کے باوقار فیصلے نے ماضی کے سبھی الزامات اور تحفظات کا ناصرف ازالہ کر دیا‘ بلکہ سارے دھونے ہی دھو ڈالے ہیں۔ دھونس‘ دھاندلی اور بدتہذیبی کی ایک لہر لاہور پولیس میں بھی دوڑتی پھرتی نظر آتی ہے اور چند ناخوشگوار واقعات کے بعد کسی بڑے تصادم اور بحران کا خدشہ بھی لاحق ہے۔ پولیس کی جس ٹیڑھی پسلی کو ضربیں لگا کر سیدھا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کا آسان اور سیدھا کلیہ بی اے ناصر نے سٹریٹیجک ڈویلپمنٹ پلان کی صورت میں دو سال قبل بنا کر دیا تھا‘ جو منظوری کے لیے بھٹکتے بھٹکتے فائلوں کے انبار میں قبر کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔
ریفارمز کے نام پر ڈیفارمز کے جو ڈھیر لگائے جارہے ہیں‘ انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انصاف سرکار لگانے والی دوائی کھا رہی ہے اور کھانے والی لگائے چلی جارہی ہے۔ اکثر کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملاح کو جہاز اُڑانے کے لیے کاک پٹ میں بیٹھا دیا گیا ہو۔ جس طرح اپوزیشن کو کرش کرنے کی کوششیں جاری ہیں ایسی کوششیں نہ کبھی ماضی میں کامیاب ہوئیں اور نہ آئندہ ہو سکیں گی۔ اپوزیشن مکاؤ کوششوں کے حوالے سے ماضی کے چند اوراق پلٹتے ہیں۔
حریفوں اور سیاسی مخالفین کو انتقام اور عناد کی بھٹی میں جلانے کے لیے متنازعہ قوانین اور طاقت کے استعمال کا رواج ہر دور میں عام رہا ہے۔ ایوبی دور میں ''ایبڈو‘‘ (Elected Bodies Disqualification Ordinance) کے تحت درجنوں سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر ان کی سیاست پر تاحیات پابندی لگائی جاتی رہی ہے۔ انہیں متاثرہ سیاستدانوں میں عابدہ حسین کے والد کرنل عابد حسین بھی شامل تھے جبکہ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ایوب کھوڑو بھی اسی قانون اور ریاستی جبر کا نشانہ بن کر نااہل قرار پائے‘ جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو موافق حالات اور صاف میدان میسر آسکا۔ اسی طرح چوہدری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا اور تاحال ناقابلِ فہم نمونہ ہے۔ دورِ ایوبی میں مصطفی کھر پر 35 من کپاس چوری کا مضحکہ خیز مقدمہ کچھ یوں درج کیا گیا کہ ملزم یہ کپاس اپنے سر پر اٹھا کر لے گیا ہے۔
اسی طرح ضیاء الحق کا دور کیا آیا ملک پر افتاد آن پڑی۔ نفاذِ نظامِ مصطفی کے نعرے پر اقتدار کو طول اور استحکام دینے کیلئے جو حربے آزمائے گئے‘ وہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ کیا سیاست، کیا صحافت، سبھی پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ سیاسی کارکنوں پر کوڑے برسانا اور قلعہ بند کر دینا اس دور میں حکمرانوں کا محبوب مشغلہ رہا۔ صحافت پر سنسر کی کڑی پابندیاں تو تھیں ہی صحافیوں کی کثیر تعداد کو بھی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ سید عباس اطہر، حسین نقی، خالد چوہدری اور خاور نعیم ہاشمی سمیت کئی صحافیوں کو شاہی قلعہ میں زیرِ عتاب رکھا گیا۔ کراچی سے خیبر تک منہاج برنا، احفاظ الرحمن، عبدالحمید چھاپڑا اور نثار عثمانی سمیت کارکن صحافیوں کی طویل فہرست ریکارڈ کا حصہ ہے جنہوں نے آمریت کے آہنی شکنجے میں زندگی کا مشکل ترین اور اذیت ناک وقت گزارا۔ اسی طرح میاں نواز شریف نے سیاسی مخالفین کو زیر عتاب رکھنے کی پالیسی کو ہمیشہ اپنائے رکھا۔ انسدادِ دہشتگردی کا قانون ہو یا احتسابی عمل، سبھی ادارے سیاسی مخالفین کی تاک میں ہی لگائے رکھے۔ اپنے 'نیئر اینڈ ڈیئر‘ سیف الرحمن کے ذریعے حریفوں کو برباد کرنے کے لیے کون سا حربہ اور ہتھکنڈا نہیں آزمایا۔ وہ اپنے مخالفین کو ہر صورت سرنگوں اور معتوب ہی دیکھنا پسند کرتے تھے۔ ان کی اس منتقم مزاجی میں تکبر کی جھلک بھی نظر آیا کرتی تھی۔ آصف علی زرداری اور انگریزی اخبار ''فرنٹیئر پوسٹ‘‘ کے مالک و ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی پر بنائے گئے منشیات کے کیسوں کا پسِ منظر اور قانونی حیثیت کون نہیں جانتا؟ بے نظیر دور میں بیباکی پر شیخ رشید کو طویل عرصہ پابندِ سلاسل رکھا گیا۔ شریف برادران کے خلاف مقدمات اور انتقامی کارروائیاں برابر جاری رہیں۔ کردار کشی سے لے کر ایک دوسرے کو غدار تک کہنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ یہ نمونے کے چند قابلِ ذکر کیسز بتا رہا ہوں‘ اگر ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کے انتقامی جذبے کے تحت کیے گئے اقدامات کی تفصیل میں جاؤ تو ایسے کئی کالم بھی کم پڑ سکتے ہیں۔
نواز شریف اور شہباز شریف عناد میں اس حد تک بڑھ جایا کرتے تھے کہ اکثر سرکاری افسران کے انتقامی جذبے کی آگ میں جھلس کر رہ گئے۔ سیاسی حریف کے دورِ اقتدار میں جن افسران میں کارِ سرکار انجام دئیے ان سبھی کے نام شریف برادران نے بلیک لسٹ میں ڈالے رکھے اور جب جب برسرِ اقتدار آئے ان تمام سرکاری افسران کو عناد کا نشانہ بنائے رکھا۔ مشرف دور میں اہداف کے حصول کے لیے طریقہ کار تھوڑا تبدیل کیا گیا۔ مخالفت اور مزاحمت کرنے والوں کو تائب ہونے پر زیادہ زور دیا گیا۔ کیسز، فائلیں کھول کر اور کمزوریوں سے ڈرا دھمکا کر اکثریت کو ساتھ ملا لیا گیا اور انکار کرنے والوں کو کئی طریقوں سے خوار کیا گیا۔ اس خواری میں مقدمات اور قیدوبند کی صعوبتیں بھی شامل تھیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی سیاسی حریفوں کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی‘ نہ وہ رہا‘ نہ اس کا اقتدار‘ اس جنون میں مبتلا ماضی کے سبھی حکمرانوں کا انجام کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ اکثر تو آج بھی عبرت کے چلتے پھرتے نمونے ہیں۔ ایسے میں انصاف سرکار اپنے اقتدار کے بڑے کرنسی نوٹ بڑی بے دردی سے خرچ چکی ہے اب تو بس ریزگاری ہی رہ گئی ہے اگر اسے کفایت شعاری سے نہ خرچ کیا گیا تو ہاتھ خالی رہ جائیں گے۔