تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     17-06-2013

کیا میاں نواز شریف نئی عبارت لکھیں گے؟

میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے نئے دور میں کیا ہند،پاک تعلقات میں کوئی اہم پیش رفت ہوگی؟ یہ سوال آج کل مجھ سے پاکستان کا ہر لیڈر اور ٹی وی اینکر پوچھتا ہے۔ میاں نواز شریف دراصل پاکستان کے دائیں بازو اور قوم پرست عناصر کے رہنما مانے جاتے ہیں۔ہم یہ کہہ دیں توکوئی حرج نہیں کہ وہ پاکستان کی بی جے پی کے لیڈر ہیں۔انہوں نے ہی افغانستان میں طالبان کو آگے بڑھایا تھا اور انہوںنے ہی ہندوستان کے لیے جوابی ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔ ان کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں ہی کارگل جنگ ہوئی تھی۔ ان کے اقتدار کا تختہ پلٹنے سے پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ فوج کے ساتھ کسی پاکستانی لیڈرکے سب سے زیادہ گہرے تعلقات ہیں تو وہ میاں نواز ہیں ۔ میاں نواز نے پہل کی تھی جس کی وجہ سے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی پاکستان گئے تھے۔ اٹل جی نہ صرف ’’مینارِپاکستان ‘‘پر گئے بلکہ انہوں نے اعلان بھی کیا کہ ہندوستان، پاکستان کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ان کے اس اعلان سے پاکستان میں پہلی بار یہ اعتمادپیداہوا کہ ہندوستان، پاکستان کو ختم نہیں کرنا چاہتا۔ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کی اصل بنیاد یہی ہے ۔ہرپاکستانی کے دماغ میں یہ بات ٹھونس ٹھونس کر بھر دی گئی ہے کہ ہندوستان کے رہنماؤں نے 1947ء کی تقسیم ابھی تک قبول نہیں کی ہے۔ اگر ہندوستان حملہ کرے گا تو پاکستانیوں کو کون بچائے گا؟ ظاہر ہے کہ فوج بچائے گی۔ پاکستان کی جمہوریت پر فوج اسی لیے بھاری پڑتی ہے۔ اسی لیے رہنماؤں کے میٹھے میٹھے اعلانات کے باوجود دونوں ممالک میں تعلقات بہتر نہیں ہوتے۔ کیا فوج اس بار بھی بھاری پڑے گی؟ شاید نہیں۔گزشتہ پانچ برسوں میں آصف زرداری کی حکومت اتنی کمزور رہی کہ فوج چاہتی تواسے نگل جاتی‘لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں پاکستانی فوج اپنے دائرے میں رہی۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ بلوچ قوم پرست‘ اکبر بگتی کا قتل، لال مسجد سانحہ، کراچی بحری اڈے کا گھراؤ، اسامہ بن لادن کا قتل وغیرہ وہ واقعات ہیں جنہوں نے پاکستانی فوج کا دبدبہ کم کر دیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ پانچ سال تک ایک جمہوری حکومت مسلسل چلتی رہی۔ ایسا پاکستان میں پہلی بار ہواہے۔اب جبکہ میاں نواز نے واضح اکثریت کے ساتھ اپنی حکومت بنا لی ہے جو زرداری کی مخلوط حکومت سے زیادہ مضبوط ہے۔فوج اس پر ہاتھ کیوں ڈالے گی؟ اور پھر نئے جنرل کی تقرری جلد ہی خود میاں نواز کریں گے۔ میاں نواز پنجابی ہیں ،وہ کوئی سندھی یا بلوچ یا پٹھان نہیں ہیں۔ وہ اس پنجاب کی آواز ہیں جو سب صوبوں سے بڑا ہے۔ اکیلے پنجاب کی آبادی پورے پاکستان سے زیادہ ہے۔پنجاب کو ہی ہندوستان سے سب سے زیادہ خطرہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہی ہندوستان کی سرحد پر واقع ہے۔ دوسرے صوبوں کے کئی عوامی لیڈروں نے مجھ سے کہا کہ وہ ہندوستان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ ہندوستان کے ساتھ پوری خوداعتمادی کے سا تھ کوئی بات چیت کر سکتا ہے تو وہ میاں نواز ہی ہیں۔ یہ میاں نوازکی خوداعتمادی ہی تھی کہ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اگر انہیں بلایا نہیں گیا تو بھی وہ ہندوستان جائیں گے اور انہوں نے اپنی تقریبِ حلف برداری میں ہندوستانی وزیراعظم کو بھی آنے کی دعوت دی تھی۔ ہندوستان کی طرف سے گرمجوشی کی کمی کا مطلب یہاں یہ لیا جارہا ہے کہ اب میاں نواز کو اپنا ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے۔ شاید اسی لیے انہوں نے حلف کے بعد کی اپنی تقریر میں ہندوستان کا ذکر تک نہیں کیا ۔میں نے جب یہاں وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسروں سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ وہ جب پارلیمنٹ میں اپنا پالیسی سازبیان دیں گے تب شاید تفصیل سے بولیں گے ۔خود میاں نواز نے پہلی ملاقات میں مجھ سے کہا تھا کہ جنگوں اور اختلافات کے دن لد گئے۔اب ہم دونوں ملکوں کو مل کر نئے ایشیا کی تعمیر میں لگ جانا چاہیے۔ اصل میں میاں نواز نے ایٹم بم بنا کر پاکستان کے دل سے یہ خوف دور کرنے کی کوشش کی تھی کہ ہندوستان اسے کھا جائے گا۔ایٹم بم کے باوجود کارگل جنگ ہوگئی کیونکہ فوج نے سوچا کہ یہ آخری موقع ہے کہ ڈنڈے کے زور پر کشمیر کو کھینچ لیا جائے۔پاکستانی ایٹم بم نے اب میاں نواز کے اس اعتماد کو مضبوط کیا ہے کہ ہندوستان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ساتھ ہی کارگل جیسی جنگ چھیڑنی ہی بے کار ہے۔ پاکستانی عوام کے دل سے ہندوستان کا خوف نکلتے نکلتے ہی نکلے گا۔فوج اور آئی ایس آئی کا رویہ آسانی سے نہیںبدلے گا پھر بھی میاں نواز کے وزیر اعظم بننے سے پاکستانی ذہانت کی پیش رفت ذرا تیز ہوگی۔ یوں بھی پاکستان اپنے اندرونی مسائل میں بری طرح الجھا ہوا ہے کہ اسے ہندوستان سے جنگ چھیڑنے کی فرصت ہی نہیں۔الیکشن کے دوران ہندوستان مخالف مہم تقریباً ہوئی ہی نہیں۔اپنے پہلے خطاب میں میاں نواز نے پاکستان کو مسائل کا جنگل کہا اور یہ بھی کہہ دیا کہ وہ پاکستان کے عوام کو کوئی سبزباغ نہیں دکھائیں گے۔ان کی ساری توجہ مہنگائی، بجلی بحران، کرپشن اور دہشت گردی جیسے مسائل پرمرکوزہے۔ ایسی حالت میں کیا وہ ہندوستان سے مخالفت چاہیں گے یا اس کے ساتھ کاروباری تعلقات وغیرہ بڑھانا چاہیں گے؟ ان کی پارٹی کی حکومت صرف پنجاب صوبے میں ہی بنی ہے۔دیگر صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا بھی ان کی ترجیحی پالیسی میں شامل ہے۔ وہ ہندوستان سے نبردآزماہوں گے یا اپنی سیاسی الجھنیں حل کریں گے؟ میاں نوازکی یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ پارلیمنٹ اور دیگر صوبوں میں اس وقت ان کے جتنے بھی مخالف ہیں، ان میں سے ہندوستان کے خلاف دشمنی کی وکالت کرنیوالی کوئی بھی اہم پارٹی یا لیڈر نہیں ہیں۔یعنی ان پر ہندوستان سے تعلقات بگاڑنے کا دباؤ بہت کم رہے گا۔پاکستانی پارلیمنٹ میں ایک بھی لفظ ہندوستان کے خلاف نہیں بولا گیا۔ پاکستان کے تقریباً تمام لیڈروں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ اگر میاں نواز ہندوستان سے تعلقات کی استواری کی سمت میں کوئی اہم پیش رفت کریں گے تو وہ اس کی حمایت کریں گے لیکن تقریبا ہر لیڈر اور ذی شعور فرد نے یہ بھی پوچھا کہ آپ کی حکومت کیا اس لائق ہے کہ وہ کوئی پہل کر سکے؟ (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved