12اکتوبر 2020ء کو سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر نے خلوص و محبت کا اظہار فرمایا اور ہمیں ایک عَشائیے میں شرکت کی دعوت دی۔ اس میں حکمراں جماعت کے وزرائے کرام شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شفقت محمود، ڈاکٹر پیر نور الحق قادری، پرویز خٹک، علی محمد خان، بابر اعوان صاحبان اور دیگر عمائدین کے ساتھ راقم الحروف، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی اور پروفیسر ساجد میر بھی شریک تھے۔ عَشائیے کے بعد ایک مخصوص نشست ہوئی، اس میں راقم الحروف کے ساتھ مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا محمد حنیف جالندھری، پروفیسر ساجد میر اور جنابِ شفقت محمود شامل تھے۔ اس نشست میں ہونے والی گفتگو کا ایک حصہ جنابِ شفقت محمود سے متعلق تھا، اس پر بعد میں اظہارِ خیال کروں گا اور دوسرا حصہ میزبان اور سپیکر قومی اسمبلی جنابِ اسد قیصر کے ساتھ تھا۔ ہم نے ان سے کہا: ''پارلیمنٹ نے آپ کی سپیکر شپ میں ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ایک ہی رات میں متعدد بل پاس کر کے انہیں ایکٹ کی شکل دی، ان میں ایک ایکٹ وقف جائیدادوں سے متعلق تھا، اس کی زد میں دینی مدارس و جامعات، مساجد اور دیگر ادارے آتے ہیں، اس کی بابت وسیع مشاورت ہونا چاہیے تھی، انتہائی عجلت میں جو ایکٹ پاس کیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہمیں تحفظات ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا: ''بعض ترمیمات آئی ہوئی تھیں، لیکن چونکہ حزبِ اختلاف نے واک آئوٹ کر دیا تھا، اس لیے وہ ترمیمات پیش نہ ہو سکیں‘‘۔ میں نے کہا: ''آپ کسی سرکاری ممبر کے ذریعے ان ترمیمات کو پیش کرا دیتے، ایسا ہوتا رہا ہے کہ سوالات کے وقفے میں اگر سوال کرنے والا ممبر موجود نہیں ہے، تو کسی اور ممبر سے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ سوال پڑھ لے، البتہ اُسے ضمنی سوالات کی اجازت نہیں دی جاتی‘‘۔ انہوں نے کہا: ''بل میں ترمیم کے حوالے سے ایسا نہیں ہو سکتا‘‘؛ تاہم انہوں نے وعدہ کیا: ''آپ حضرات جو ترمیم تجویز کریں گے، ہم اُسے پارلیمنٹ سے پاس پیش کر دیں گے‘‘۔ یہ اُن کی طرف سے ایک اچھا ردِّعمل اور خیر سگالی کا اظہار تھا۔ اس پر ہم نے اُن کا شکریہ ادا کیا، کیونکہ ہم بھی نیک نیتی سے مسئلے کا حل چاہتے ہیں، انتشار نہیں چاہتے۔ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کا مستقبل قریب میں اجلاس متوقع ہے، اس میں اس پر تفصیلی غور ہوگا اور حتمی تجاویز مرتب کر کے جناب سپیکر قومی اسمبلی کی خدمت میں پیش کریں گے، امید ہے وہ اپنے وعدے کو وفا کریں گے، سرِ دست ہم چند امور کی نشاندہی کر رہے ہیں:
پارلیمنٹ نے ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے منجملہ دیگر قوانین کے ''وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے ملحقات کیلئے ''وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020ئ‘‘ پاس کیا ہے، اس کا تعارف درج ذیل ہے: (دفعہ نمبر1): ''یہ ایکٹ ''وفاقی دارالحکومت اسلام آباد‘‘ کی حدود میں وقف جائیداد ایکٹ 2020ء کہلائے گا، اس کا دائرۂ کار وفاقی دارالحکومت کی حدود تک محدود ہوگا اور یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا‘‘۔ ظاہر ہے کہ آگے چل کر چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے بھی اس کی متابعت میں ایسے ہی ایکٹ بنیں گے۔ اس ایکٹ کی بعض دفعات پر دیندار طبقات، مساجد و مدارس کے منتظمین اور دیگر اداروں کو تحفظات ہیں۔
اس کی دفعہ 3 میں کہا گیا ہے: (۱) ''چیف کمشنر اسلام آباد و وفاقی دارالحکومت علاقہ جات (آئی سی ٹی) کیلئے ناظمِ اعلیٰ اوقاف کا تقرر کرے گا اور بذریعہ حکم ایسی تمام وقف املاک جو آئی سی ٹی کی علاقائی حدود کے اندر واقع ہیں، بشمول اس سے متعلق تمام حقوق، اثاثہ جات، قرضہ جات، واجبات اور ذمہ داریاں اس کے زیر اختیار دے سکتا ہے، (۲) کسی شخص کا ناظم اعلیٰ کے طور پر تقرر نہیں کیا جائے گا تاوقتیکہ وہ ایک مسلمان ہو اور ایسی قابلیت کا حامل ہو جیسا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صراحت کی گئی ہو، (۳) ناظمِ اعلیٰ، اوقاف آئی سی ٹی: ناظمِ اعلیٰ کے نام سے ایک واحد کارپوریٹ ادارہ ہوگا جو دوامی تسلسل اور مخصوص مہر کا حامل ہوگا اور وہ اپنے کارپوریٹ کے نام سے مقدمہ دائر کر سکے گا اور اس کے خلاف بھی مقدمہ ہو سکے گا، (۴) ناظمِ اعلیٰ، وفاقی حکومت کی نگرانی میں اپنے فرائض سر انجام دے گا‘‘۔
مندرجہ بالا دفعہ تین (۲) میں ناظمِ اعلیٰ کی مطلوبہ کوالیفکیشن میں اُس کا مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایکٹ صرف مسلمانوں کے اوقاف سے متعلق ہے اور غیر مسلموں کے اوقاف پر ان قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا اور نہ اُن پر ایسی پابندیاں عائد ہوں گی جو اس قانون کا تقاضا ہیں؟
مذکورہ ایکٹ میں دفعہ 21 کی شق 2 کے تحت ناظمِ اعلیٰ کے دائرۂ اختیار کے بارے میں درج ہے: ''ناظمِ اعلیٰ اوقاف کسی ایسی وقف جائیداد کے بارے میں‘ جسے انتظامیہ نے اپنے کنٹرول میں نہیں لیا یا اُس کا ایسا ارادہ نہیں، وقف کے اہتمام، کنٹرول اور دیکھ بھال کے بارے میں ایسی ہدایات جاری کر سکتا ہے جنہیں وہ ضروری سمجھے، بشمول ایسے خطابات، خطبات اور لیکچرز پر پابندی کے بارے میں جو پاکستان کی خودمختاری اور یکجہتی کے بارے میں متعصبانہ ہوں یا مختلف مذہبی فرقوں یا گروہوںکے بارے میں نفرت انگیزی کے جذبات پر مبنی ہوں، اسی طرح ایسے شخص کو اپنے خطابات یا لیکچرز کے ذریعے جماعتی سیاست میں ملوث ہونے سے روک سکتا ہے، اوقاف کا ناظم ایسے احکامات اور ہدایات کی تعمیل کرائے گا‘‘۔
اس میں محکمۂ اوقاف کے ایک افسر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ از خود یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا کوئی خطبہ، خطاب یا لیکچر ملکی خود مختاری اور سالمیت کے منافی ہے، مذہبی اور گروہی فرقہ واریت پر مبنی ہے اور اس سے جماعتی سیاست کا تاثر ملتا ہے، یہ تو اس کے ہاتھ میں ایسا ہتھیار آ جائے گا کہ جسے جب چاہے جائز و ناجائز استعمال کرتا پھرے، وہ اپنے اس عمل کے بارے میں خود کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ علماء اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین پر مشتمل ایسا بااختیار کمیشن ہو، جس کے پاس یہ افسر شکایت درج کرے اور اپنی شکایت کے ساتھ ثبوت و شواہد بھی پیش کرے، وہ کمیشن متعلقہ عالم یا خطیب کا موقف سن کر فیصلہ کرے۔ قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کی بیشتر تعلیمات ایسی ہیں‘ جنہیں سن کر کوئی شخص از خود رائے قائم کر سکتا ہے کہ اس سے فلاں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
مذکورہ بالا ایکٹ کی دفعہ 9 بعنوان ''متفرق معلومات‘‘ میں کہا گیا ہے: ''دفعہ 9 کے تحت واقف یا ناظمِ وقف رپورٹنگ اتھارٹی کو ''اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ نمبر 7 مجریہ 2010‘‘ کے تحت بیان کردہ طریقۂ کار کے مطابق اپنے ذرائع کو واضح کرے گا‘‘۔ اندیشہ ہے کہ اس کی رُو سے دینی اداروں کو عطیات دینا ایک مشکل امر بن جائے گا اور رفاہی اداروں کے لنگر خانے‘ جن کی وزیراعظم تحسین کرتے ہیں‘ بند ہو جائیں گے یا یہ قانون ایسا ذریعہ بن جائے گا کہ Pick & Choose کے ذریعے جسے چاہیں گے‘ ہدف بنائیں گے۔
اسلامی قانون اور جدید فلسفۂ قانون یہ ہے کہ آپ بے قصور ہیں تاوقتیکہ آپ کا قصور ثابت نہ ہو جائے، منی لانڈرنگ کے قانون کا وقف پر مبنی دینی مدارس و جامعات، مساجد اور رفاہی اداروں پراطلاق بے چینی کا سبب بنے سکتا ہے یوں حکومت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں بے اعتمادی پیدا ہو گی۔ ہاں! کسی کے بارے میں آپ کے پاس منی لانڈرنگ کے ثبوت و شواہد ہوں، تو ضرور ایکشن لیں اور عدالت سے رجوع کریں، قانون کو رو بہ عمل لائیں۔ میرپور آزاد کشمیر کے علاقے چکسواری میں آستانۂ عالیہ فیض پور شریف ہے، اس کے سجادہ نشین پیر محمد حبیب الرحمن محبوبی نے بریڈ فورڈ میں ایک عالی شان مسجد اوردینی ادارہ ''الصفہ اسلامک سنٹر‘‘ بنایا ہے، جو برطانیہ کے ایک دو بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ اُن کے پاس برطانوی اداروں کے ذمہ داران آئے اور پوچھا: ''آپ اتنے مالی وسائل کہاں سے لائے ہیں‘‘، انہوں نے جواب دیا: ''ہم برسرِ عام چندے کی اپیل نہیں کرتے، نہ کسی کے پاس جاکر چندہ مانگتے ہیں، یہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ نہیں ہے، لوگ خود آ کر دیتے ہیں، ہم عطیات بینک میں جمع کرتے ہیں اور بینک اکائونٹ سے نکال کر استعمال کرتے ہیں‘‘۔ وہ مطمئن ہوکر چلے گئے، مگر ہمارے ہاں نوکر شاہی کا مزاج مختلف ہے، ڈرانا دھمکانا ان کا مشغلہ ہے، اسی لیے بدعنوانیاں جنم لیتی ہیں۔
مذکورہ ایکٹ میں کہا گیا ہے: ''چیف کمشنر اسلام آباد خود کو حاصل اختیارات کے تحت ایک حکم نامہ جاری کرے گا، جس کے تحت وفاقی دارالحکومت کے لیے ایک چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف مقرر کرے گا، جو وفاقی دارالحکومت میں قائم وقف جائیدادوں کے تمام حقوق، اثاثہ جات، اس پر واجب الادا قرض اور اس کی ذمہ داریوں اور فرائض سے متعلق ہوگا۔ دفعہ نمبر 5: (۱) چیف کمشنر کی منظوری سے چیف ایڈمنسٹریٹر وقتاً فوقتاً وفاقی دارالحکومت کیلئے مختلف عہدوں اور گریڈز کیلئے افسران کا تقرر کرے گا جو اُس درجے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور الائونسز کے مساوی ہوگا۔ (۲) اس ایکٹ کے تحت تمام ملازمین ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 21 مجریہ 1860 کے مطابق سرکاری ملازم شمار ہوں گے۔ وقف منیجر، خواہ وہ واقف ہو یاکوئی اور یا اُس کا نامزد نمائندہ، ایسی وقف جائیداد کو چیف ایڈمنسٹریٹر کے پاس مجوزہ طریقۂ کار کے مطابق رجسٹرڈ کرے گا۔ اس ایکٹ میں چیف کمشنر اسلام آباد کو ہر وقف کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں، جبکہ شریعت میں وقف کا متولی ہونے کا پہلا اختیار واقف کو حاصل ہے، بشرطیکہ وہ دیندار اور متدیّن ہو،خائن نہ ہو، اگر اس کی خیانت ثابت ہو اور تولیت کا کام اچھی طرح انجام نہ دیتا ہو تو اُسے معزول کر کے دوسرے شخص کو متولی بنایا جائے، تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ''واقف نے خود کو متولی مقرر کیا تو یہ بالاجماع جائز ہے اور اس طرح اگر واقف نے کسی کو وقف کا منتظم (متولی) مقرر کرنے کی شرط عائد نہ کی ہو تو امام ابویوسف کے نزدیک واقف ہی کیلئے ولایت ثابت ہوگی،یہی ظاہرِ مذھب ہے، بحوالہ النھرالفائق، (رد المحتار علی الدر المختار، ج:6، ص:491)‘‘۔ وقف کی شرائط اور مصارف متعین کرنے کا اختیاربھی واقف کو حاصل ہے، مسلّمہ فقہی اصول ہے: ''واقف کی مقرر کردہ شرائط نصِ شارع کی طرح نافذ ہوتی ہیں، بشرطیکہ اُن میں کوئی بات خلافِ شرع نہ ہو‘‘۔
وقف کا دائرۂ اختیار اتنا وسیع کرنے سے پہلے محکمۂ اوقاف کے بارے میں ایک مطالعاتی کمیشن قائم کرنا چاہیے، حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ محکمۂ اوقاف کے زیرِ انتظام کئی مساجد میں تعمیر ومرمت،رنگ روغن،کارپیٹنگ اور الیکٹریفکیشن وغیرہ لوگوں کے چندے سے کی جاتی ہے،بلکہ بعض جگہ اوقاف کے ملازمین ڈیوٹی نہیں دیتے، لوگ پرائیویٹ طور پر امام وخطیب مقرر کرتے ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت نئے اداروں کا قیام بھی انتہائی دشوار ہوجائے گا۔