غذا اور غذائیت کی قلت کا بحران ہر دور میں نمایاں رہا ہے مگر اب یہ معاملہ خطرناک حد کو چھو چکا ہے۔ آج کئی خطے خوراک کے حوالے سے شدید بحران سے دوچار ہیں۔ صحتِ عامہ کے مسائل، کمزوری، اہلیت کی کمی، بیروزگاری، آمدن میں کمی، مہنگائی اور خوراک کی قلت کا ایک منحوس چکر ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ آج بھوک ایک بنیادی مسئلے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں افلاس کی سطح غیر معمولی ہے مگر پھر بھی خوراک کی شدید قلت کے مسئلے نے ابھی تک یہاں خطرناک انداز سے سر نہیں اٹھایا۔ شمالی افریقا، جنوبی امریکا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے بہت سے ممالک میں خوراک کی قلت سنگین بحران بن کر ابھری ہے اور زندگی کا حُسن غارت کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خوراک کا بحران انسانیت کو ڈکارتا جارہا ہے۔ اقتصادی تعاون و ترقی کے جرمن وزیر گرڈ مُلر کہتے ہیں کہ بھوک قتل کے مترادف ہے جس کی روک تھام کیلئے پوری دنیا کو ایک ہو جانا چاہیے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس (GHI) کے مطابق غذا کی غیر معمولی قلت ختم کرنے کی بیشتر کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ شمالی امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور روس کے چند علاقوں کے سوا دنیا بھر میں غذائی قلت اب تک ایک بڑا مسئلہ ہے۔
غذا اور غذائیت کی کمزوری سے بچے کمزور رہ جاتے ہیں۔ جسم کی ساخت بھی پوری طرح پروان نہیں چڑھتی اور اس کے نتیجے میں وہ کام کرنے کیلئے مطلوب سکت سے بھی محروم رہتے ہیں۔ جسم کی کمزوری سے اعتماد میں شدید کمی واقع ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں تعلیمی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ صحت سے متعلق پیچیدگیاں بہت سے بچوں کو سکول سے دور رکھتی ہیں۔ وہ تعلیم کی کمی کے باعث عملی زندگی کیلئے مطلوب مہارتیں بھی ڈھنگ سے حاصل نہیں کر پاتے۔ ہنگر انڈیکس کے مطابق اس وقت 40 ممالک غذائی قلت کے حوالے سے بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اِن میں 11 ممالک کا بحران غیر معمولی یا پریشان کن حد تک شدت اختیار کرچکا ہے جبکہ 14 میں یہ بحران اب تک اعتدال کے ساتھ ہے یعنی زیادہ پریشان و بدحواس ہونے کی ضرورت نہیں۔ جی ایچ آئی کے مطابق 2030ء تک کم و بیش 37 ممالک شدید غذائی قلت سے دوچار ہوں گے۔ اس وقت دنیا بھر میں 14کروڑ 40 لاکھ بچے غذا کی شدید قلت سے دوچار ہیں جس کے نتیجے میں اُن کی صحت کا معیار گر رہا ہے اور جسم میں کمزوریاں اور پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ 4 کروڑ 70 لاکھ بچوں میں اوسط سے کچھ اوپری سطح کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ 2018ء میں پانچ سال سے کم عمر کے 53 لاکھ بچے غذا اور غذائیت کی کمی کے باعث موت کا شکار ہوئے۔ دنیا بھر میں بچوں کی 15 فیصد اموات کا تعلق غذا اور غذائیت کی کمی سے ہے۔ اس سے بچوں کے جسم میں جو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں‘ وہ مرتے دم تک ساتھ رہتی ہیں۔ جسم کی کمزوری زندگی بھر ہر قدم پر الجھنیں پیدا کرتی رہتی ہے مثلاً مناسب خوراک نہ ملنے سے بہت سے بچوں کا قد نہیں بڑھ پاتا۔ اقوامِ متحدہ سمیت کئی عالمی ادارے دنیا بھر میں خوراک کی قلت سے دوچار ممالک کی مدد کیلئے کام کر رہے ہیں۔ شمالی افریقا میں زیادہ کام ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس حوالے سے کی جانے والی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں‘ جبوتی، انگولا، جارجیا، میانمار، ایتھوپیا، گھانا، نکارا گوا، ویتنام اور موزمبیق میں خوراک کی قلت دور کرنے سے متعلق کوششیں غیر معمولی حد تک کامیاب رہی ہیں۔ پھر بھی دنیا بھر میں ہر آٹھ میں سے ایک فرد خوراک کی قلت کا شکار ہے۔ یہ تعداد 87 کروڑ بنتی ہے۔
کم و بیش ایک ارب 40 کروڑ افراد شدید افلاس کا شکار ہیں۔ ان میں سے ایک ارب دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ افلاس کے باعث وہ بہتر زندگی بسر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ افلاس ہی کے ہاتھوں وہ بھوک کا بھی شکار رہتے ہیں۔ خوراک کا تعلق اصلاً ماحول سے ہے۔ معیاری زندگی بسر کرنے کیلئے لازم ہے کہ ماحول بہتر حالت میں رہے تاکہ خوراک کی پیداوار ضرورت سے ہم آہنگ رکھنے میں آسانی ہو۔ دنیا بھر میں غذائی اجناس کا ضیاع روکنے میں البتہ اب تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ بہت سے ممالک میں تیار کھانے بھی بڑے پیمانے پر ضائع ہوتے ہیں۔
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ خوراک کا معاملہ سنگین شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ پیچیدہ سیاسی حالات معاشی بحرانوں کو جنم دے رہے ہیں۔ یہ کیفیت اس امر کی متقاضی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک خوراک سے متعلق معاملات کو محفوظ رکھنے یعنی فوڈ سکیورٹی یقینی بنانے پر متوجہ ہوں۔ دنیا بھر میں خوراک سے متعلق عادتیں تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ بہت سی اشیا کی تیاری میں پانی غیر معمولی حد تک استعمال ہوتا ہے جبکہ بعض اشیا کی تیاری میں پانی برائے نام استعمال ہوتا ہے۔ سبزیاں اگانے کیلئے پانی سب سے کم تناسب سے درکار ہوتا ہے جبکہ ہر طرح کا گوشت تیار کرنے کیلئے پانی بہت بڑے پیمانے پر درکار ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین تحقیق کے ذریعے ایسی فصلیں تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کم رقبے پر اور کم پانی کی مدد سے غیر معمولی پیداوار دیں۔ غریب ممالک کیلئے ایسی فصلیں انتہائی کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔
غذائی امور کے ماہرین اس نکتے پر بھی زور دے رہے ہیں کہ دنیا بھر میں لوگوں کو سبزی اور پھل زیادہ کھانے پر مائل کیا جائے۔ ایسی صورت میں بیف، مٹن اور چکن پر انحصار کم ہوگا اور پانی کے کم استعمال سے بھی بہت بڑے پیمانے پر خوراک حاصل کی جاسکے گی۔ دنیا کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اُس کے پیشِ نظر لازم ہے کہ کم پانی سے تیار ہونے والی غذائی اجناس تیار کی جائیں۔ یہی سبب ہے کہ اب دنیا بھر میں سبزیوں کو خوراک کا لازمی حصہ بنانے کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ بھوک یعنی خوراک کی نمایاں کمی اپنے ساتھ بہت سی پیچیدگیاں لاتی ہے۔ یہ پیچیدگیاں زندگی بھر کا روگ ہوتی ہیں۔ غذا اور غذائیت کی کمی سے جسم کمزور پڑ جاتا ہے، اُس میں پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ کمزور جسم انسان کو بھرپور اعتماد کی منزل تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ اعتماد اگر غیر معمولی سطح پر نہ ہو تو تعلیم کے حصول کی شدید خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ تعلیم کی کمزوری تربیت کی کمزوری پر منتج ہوتی ہے یعنی انسان عملی زندگی کیلئے درکار اہلیت اور مہارت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اعتماد کی کمی کے نتیجے میں تعلیم و تربیت میں رہ جانے والی کمزوری سے انسان معاشی جدوجہد کے معاملے میں بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔ کمزور جسم انسان کو بہتر معاشی جدوجہد کے قابل بننے سے روکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غریب طبقے میں مثالی قسم کے پروفیشنلز تیار کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔
پاکستان کا شمار اب ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں غریبوں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی محنت کی کمائی کا معقول حصہ خوراک کا انتظام کرنے پر صرف ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں اشیائے خور و نوش مہنگی ہیں اور لوگوں کی عادتیں بھی بہت بگڑی ہوئی ہیں۔ کھانے پینے کی بہت سی اشیا اِس خطے کے عمومی مزاج کے مطابق نہیں مگر پھر بھی اُن میں خواہ مخواہ یعنی غیر محسوس طور پر خاصی دلچسپی لی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں گھر کا بجٹ بگڑتا ہے۔ سستی اور معیاری خوراک کے حوالے سے ذہن سازی لازم ہے تاکہ سب کچھ کھانے پینے پر صرف نہ ہو جائے اور زندگی کا معیار ہر اعتبار سے بلند کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی جاسکے۔ پاکستان کی آبادی میں تیزی سے رونما ہونے والے اضافے کے پیش نظر یہ بھی لازم ہے کہ گوشت وغیرہ پر انحصار کم کرکے لوگ سبزیوں اور پھلوں میں زیادہ دلچسپی لیں۔ ہمیں اب وہ فصلیں اگانا ہیں جن کیلئے پانی برائے نام درکار ہوتا ہے۔ فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے حکومت کو نمایاں طور پر متحرک ہونا چاہیے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ جو کچھ ملک میں اُگایا جاسکتا ہے وہ کسی بھی طور درآمد نہ کرنا پڑے۔