تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     23-10-2020

جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے

صدموں کی ماری قوم کو اب تو شاک پروف ہو جانا چاہئے‘ مگر ہر نیا صدمہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ایسا زلزلہ برپا کرتا ہے جو ساری قوم کو ہلا اور تڑپا جاتا ہے۔ کراچی میں سوموار کی صبح جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بلاول بھٹو کا پہلا بیان یہ تھا کہ یہ ایک افسوسناک اور شرمناک واقعہ ہے۔ ہمارے مہمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر ہم بہت شرمندہ ہیں۔وزیراعلیٰ مراد علی شاہ پہلے قدرے متردّد تھے مگر بلاول بھٹو نے اپنی پریس کانفرنس میں سب کچھ کھول کر بیان کر دیا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ رات دو بجے آئی جی کے گھر کا گھیرائو کرنے والے افراد کون تھے۔ وہ انہیں صبح چار بجے نامعلوم مقام پر لے گئے اور انہیں ''حکم‘‘ دیا گیا کہ وہ کیپٹن(ر) صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج کریں۔ دبائو کے تحت ایف آئی آر درج کروائی گئی۔ دیگر مبینہ خبروں کے مطابق کراچی کے ایک ہوٹل میں اپنے میاں کیپٹن (ر) صفدر کے ساتھ قیام پذیر مریم نواز کے کمرے کا تالا صبح چار بجے توڑا گیا اور کیپٹن(ر) صفدر کو مزارِ قائد پر نعرے لگانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ یقینا مزارِ قائد کے وقار کے منافی یہ قدم انتہائی نامناسب تھا مگر یہ قابلِ ضمانت مقدمہ ایسا نہ تھا کہ اس پر آئی جی کو آدھی رات اغوا کیا جاتا اور چار بجے صبح کمرے کا تالا توڑا جاتا۔ بعض لوگوں کے نزدیک کراچی میں آنے والے اس بھونچال کا مرکز تلاش کرنا کچھ زیادہ دشوار نہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک گزشتہ ہفتے کنونشن سنٹر اسلام آباد کا منظر بہت کچھ بتانے کیلئے کافی ہے کہ جہاں ملک کا سب سے زیادہ ذمہ دار شخص منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اب میں انہیں مزہ چکھائوں گا اور ایک ''نیا شخص‘‘ بن کر دکھائوں گا۔ 
ایسی کارروائی پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوئی‘ جس میں مبینہ طور پر چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا‘ پولیس کے ادارے کو بدنام کیا گیا‘ سندھ حکومت کو بے توقیر کیا گیا‘ ملک کے دستور کا مذاق اڑایا گیا اور یہ میسج دینے کی کوشش کی گئی کہ کون سی جمہوریت‘ کون سی صوبائی حکومت‘ کون سی پولیس کی خودمختاری‘ ہم جو چاہیں گے وہ کریں گے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ مریم نواز کو چھوڑیے‘ کیا کسی عام شہری کو بھی یوں گرفتار کیا جا سکتا ہے؟ اس پر آئی جی سندھ مشتاق مہر نے چھٹی پر جانے کی درخواست دی تھی۔ اُن کے ساتھ درجنوں پولیس افسران نے بھی چھٹی پر جانے کی درخواستیں پیش کر دی تھیں۔ احتجاج کے اظہار کے لیے پولیس افسران نے نہایت مہذب اور قانونی راستہ اختیار کیا ہے۔ 
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعے کی انکوائری کروائیں اور ذمہ داروں کا تعین کروائیں۔ جنرل باجوہ صاحب نے واقعے کا فی الفور نوٹس لیا‘ بلاول بھٹو زرداری سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور واقعے کی فوری انکوائری کے لیے سندھ کے کور کمانڈر کا تعین کیا۔ آرمی چیف کے دس روز میں شفاف انکوائری کے اعلان اور سندھ حکومت کی پولیس کے ساتھ مکمل یکجہتی کے اظہار پر افسران نے چھٹی کی درخواستیں دس روز کیلئے مؤخر کر دی ہیں۔ اس نوٹس لئے جانے میں ایک بین السطور میسج بھی ہو سکتا ہے۔ 
وزیر اطلاعات شبلی فراز میرے زمانۂ طالب علمی کے فیورٹ شاعر جناب احمد فراز کے صاحبزادے ہیں۔ وہ احمد فراز کہ جو شاعری سے ہی نہیں بلکہ عملی جدوجہد کے ذریعے بھی شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کیلئے آواز بلند کرتے رہے۔ اس حوالے سے ہمیں شبلی فراز بہت عزیز ہیں۔ شبلی فراز ویسے بھی اس حکومت کا نسبتاً سنجیدہ فیس تھے مگر اپنے پیا کے ''معیارِ تنقید‘‘ پر پورا اترنے کی دوڑ میں وہ ضرورت سے زیادہ آگے بڑھتے محسوس ہوئے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا۔
اتنی بلندیوں سے تہوں میں اتر نہ جا
جب سے پی ڈی ایم کی تحریک شروع ہوئی ہے‘ جناب وزیراعظم ناراضی دیدنی ہے‘ لیکن وہ جتنے غضبناک ہوں گے اتنی ہی غلطیاں کریں گے۔ اُن کے ہر لوز بال پر اپوزیشن چھکا لگائے گی۔ وہ تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں۔ وہ غالباً ہر کسی کو اپنا مخالف بنانے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اُن کے دور میں معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ 14 لاکھ اوورسیز پاکستانی واپس پاکستان بھیج دیئے گئے ہیں۔ اب اگلے دو تین ماہ میں زرمبادلہ کی غیرمعمولی قلت کا حکومت کو سامنا کرنا پڑے گا۔ مہنگائی ناقابلِ برداشت ہے‘ غریب تو بے حد کرب میں مبتلا ہے اور سفیدپوش طبقہ بھی اپنی سفیدپوشی کا بھرم قائم رکھنے میں بُری طرح ناکام ہورہا ہے۔ جناب وزیراعظم مارکیٹ کی قوتوں سے مدد لینے‘ بیوروکریسی کو متحرک کرنے‘ گورننس کو بہتر کرنے کے بجائے ٹائیگر فورس سے مہنگائی کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ وہ فورس کہ جس کے عدم اور وجود کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ اگر مہنگائی کے خاتمے کا انحصار ٹائیگر فورس پر ہے تو اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ ناامیدی دیکھا چاہئے۔
میرے لیے یہ باعثِ حیرت ہے کہ وہ جماعت جس نے چادر اور چاردیواری کے تقدس اور آئین کی بالادستی کا پاکستان میں تصور دیا اور اُس کیلئے ہر قربانی دی اُس کے امیر جناب سراج الحق کا ان واقعات کی مذمت میں ابھی تک کوئی بیان نہیں آیا۔ 
جہاں تک اپوزیشن کے گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں کا تعلق ہے‘ دونوں نہایت کامیاب رہے ہیں۔ سیاست اور خطابت میں ایک چیز نہایت اہم ہوتی ہے وہ ہے کہ رکنا کہاں ہے؟ میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے تاسیسی اجلاس میں اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تھی اب اس کے بعد اُنہیں ایک باوقار خاموشی اور ''تھپکی‘‘ کا انداز اختیار کرنا چاہئے تھا۔ ضروری نہیں کہ میاں صاحب کے نظری بیانیے سے اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی متفق ہوں بلکہ میری معلومات کے مطابق اکثر جماعتیں متفق نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ مسلم لیگ (ن) کے اپنے بہت سے قائدین میاں صاحب کے جارحانہ بیانیے سے اتفاق نہیں کرتے۔ اُن سب کے خیال میں پی ڈی ایم کی توپوں کا رخ صرف اور صرف پی ٹی آئی کی ناکام حکومت کے خلاف ہونا چاہئے اور اس میں کوئی ابہام نہیں رہنا چاہئے۔ پی ڈی ایم کے قائدین کو باہمی مشاورت سے اپنے واضح اہداف اور لائحہ عمل قوم کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ گزشتہ ہفتے لاہور میں میرے ساتھ ملاقات میں مولانا فضل الرحمن نے بتایا تھا کہ وہ واپس اسلام آباد جا کر مشاورت سے پی ڈی ایم کے قائدین کیلئے ضابطۂ اخلاق مرتب کریں گے جس کی پابندی سب پر لازم ہو گی۔ میاں نواز شریف بھی جوش چھوڑ کر ہوش کا دامن تھام لیں اور جو بھی ضابطۂ اخلاق مرتب ہو س کی دل و جان سے پیروی کریں۔
چاہئے تو یہ تھا کہ کراچی کے حساس واقعے پر وزیراعظم فی الفور نوٹس لیتے اور وفاق کی ایک اہم اکائی سے معلوم کرتے کہ کیا واقعہ ہوا اور اس پر ایک شفاف انکوائری کا اہتمام کرتے۔ مگر وہ پارٹی پالیٹکس سے اوپر نہیں اُٹھ سکے اور آرمی چیف کو انکوائری کا حکم دینا پڑا۔ وہ کوئی بادشاہ یا شہنشاہ نہیں‘ ایک منتخب وزیراعظم ہیں۔ جمہوریت میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں انیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہے‘ دو چار ووٹوں کی اکثریت سے حکومت بنتی اور ٹوٹ جاتی ہے۔ اگرچہ بہت سا پانی سروں کے اوپر سے گزر چکا ہے مگر اب بھی حالات کو سنبھالا جا سکتا ہے اور ماضی کی ناکامیوں سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ آرمی چیف کی مقرر کردہ انکوائری ٹیم کی رپورٹ پر من و عن عمل ہونا چاہئے اور نہ صرف ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہئے بلکہ ہمیشہ کیلئے پولیس کی خودمختاری کا لائحہ عمل بھی طے پا جانا چاہئے۔
اس وقت جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved