تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-10-2020

فرض بھی‘ عبادت بھی!

کانپتے ہاتھوں اور نم ناک آنکھوں سے ڈائریکٹر جنرل نیب لاہور سے 35 لاکھ روپے کا چیک وصول کرتے ہوئے اس بیوہ خاتون نے آسمان کی طرف دیکھ کر اور ہاتھ اٹھا کر‘ رو رو کر جو دعائیں دیں وہ منظر احتسابی ادارے کے لاہور کے دفتر میں آئے ہوئے میڈیا ورکرز اور کئی برسوں سے اپنے دکھوں اور تکلیفوں کی گٹھڑی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہائوسنگ سوسائٹیز کے سینکڑوں متاثرین سمیت سب کو رُلا گیا۔ اس آفس میں برس ہا برس سے ڈوبی ہوئی رقوم واپس دیتے ہوئے متاثرین کو جو عزت و احترام دیا جا رہا ہے‘ اسے دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ جو لوگ ان کی کئی کئی برسوں سے ڈوبی ہوئی رقوم کے چیک پیش کر رہے ہیں‘ وہی لوگ ہیں جن کے دم پر یہ معاشرہ قائم ہے۔ ایک بیوہ خاتون اپنا چیک وصول کرنے کے بعد ڈی جی نیب سے کہنے لگی''گھر تو مجھے نہیں مل سکا‘ میرا شوہر اسی غم میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا مگر آپ نے ایک بیوہ پر جو احسان کیا ہے اس کا صلہ آپ کو خدا ہی دے گا، اب میں اپنی دو بیٹیوں کو اس رقم سے عزت سے رخصت کر سکوں گی، آپ وعدہ کریں کہ میری بیٹیوں کی شادی میں ضرور شرکت کریں گے‘‘۔ کسی بھی عوامی یا سرکاری عہدے پر براجمان اہلکار‘ چاہے اس کا عہدہ ایک عام کلرک کا ہو یا چیف سیکرٹری کا‘ وہ پولیس کا کانسٹیبل ہو یا انسپکٹر جنرل‘ ایک لائن مین ہو یا بجلی تقسیم کرنے والی کسی کمپنی کا چیف ایگزیکٹو‘ کسی ادارے کا جونیئر اہلکار ہو یا اس کا چیئرمین‘ اگر اللہ کی مخلوق کیلئے آسانیاں پیدا کرے، اپنے پاس آنے والے ہر مظلوم اور پریشان حال شخص کو پہنچنے والی تکلیف کا خلوص دل سے ازالہ کرنے کی کوشش کرے، دور دراز سے آئے ہوئے سائلین کو نرمی اور احترام سے مخاطب کرے تو یقین کیجئے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے نزدیک ایسے ہر شخص کا یہ عمل اس قدر پسندیدہ ہو گا کہ خدائے برحق ایسے شخص کو اس دنیا اور آخرت میں بلند مرتبہ عطا کرے گا اور یقینا انہیں اپنے نیک اور منتخب لوگوں کی فہرست میں شامل کر لے گا۔ ان کیلئے ہر کام میں آسانی ہو گی اور ہر دو جہاں میں وہ وہ نعمتیں اسے میسر آئیں گی کہ جن کا اس شخص نے سوچا بھی نہ ہو گا۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر
میڈیا ورکرز سمیت اہلِ لاہور گواہ ہیں کہ جعلی ہائوسنگ سوسائٹیز کے ہاتھوں لٹے پٹے لوگ جن میں زیادہ تر بوڑھے افراد اور بیوہ خواتین شامل ہوتی ہیں‘ آ ئے روز پریس کلب اور زمان پارک وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کرتے بلکہ روتے پیٹتے نظر آیا کرتے تھے۔ اب یہ سلسلہ کافی حد تک کم ہو چکا ہے کیونکہ چیئرمین نیب نے ان معاملات کو اپنی ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے۔ میں پیشہ ورانہ پابندیوں کے باعث ان ہائوسنگ سوسائٹیز کے نام نہیں لکھ سکتا وگرنہ ایک ایک کے بارے میں بتاتا‘ جنہوں نے صرف لاہور میں پچاس ہزار سے زائد خاندانوں کے اربوں روپے ہڑپ کر رکھے ہیں۔ ایسی ہی ایک ہائوسنگ سوسائٹی کے فریب میں آ کر اپنے گھر کا خواب دیکھنے والے تدریس کے پیشے سے وابستہ میاں بیوی نے اپنا پیٹ کاٹ کر پانچ مرلے کے پلاٹ کی بکنگ کراتے ہوئے تین لاکھ یکمشت ادا کئے اور پھر تنگی ترشی سے گزارہ کرتے ہوئے ہر دوسرے ماہ ایک لاکھ دس ہزار روپے اس ہائوسنگ سوسائٹی کے بینک اکائونٹ میں جمع کرائے۔ جب ان کی تمام قسطیں مکمل ہو گئیں تو انہیں ہائوسنگ سوسائٹی کی جانب سے خط موصول ہوا کہ جو جگہ ہم نے آپ کو الاٹ کی تھی‘ وہاں اب ہائوسنگ سوسائٹی نہیں بن پائے گی کیونکہ ہمیں فلاں فلاں ادارے سے اجا زت نہیں مل پائی، اب ہم فلاں علا قے میں زمین خرید رہے ہیں‘ آپ کو اب وہاں پلاٹ دیے جائیں گے۔ کب وہ زمین خریدیں گے‘ کب انہیں این او سی ملے گا‘ کب کاغذی کارروائی پوری ہو گی اور کب ان میاں بیوی جیسے سینکڑوں دوسرے لوگوں کو پلاٹ الاٹ ہو گا‘ کسی کو کچھ خبر نہیں ہوتی۔ اگلے کئی سالوں کے لئے ان سب کو دوبارہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ اگر بالفرض کوئی اپنی رقم واپس مانگنے کی جسارت کر بیٹھے تو کسی کو دھمکیاں تو کسی کو ایک سال بعد آنے کا کہہ دیا جاتا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ پچیس لاکھ ڈوبنے کے بعد تدریس کے پیشے سے وابستہ ان میاں بیوی کا کیا حال ہوا ہوگا‘ جن کی کُل جمع پونجی یہی پلاٹ تھا۔ چیئرمین نیب کے پاس جب ان متاثرین کی فریادیں‘ لاتعداد درخواستوں کی صورت پہنچیں تو ڈی جی نیب لاہور کو فوری ایکشن لینے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ ڈی جی نیب لاہور نے چیئرمین کا حکم ملتے ہی دن رات ایک کر کے ان متاثرین کو لوٹنے والے جعلی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے مالکان کو گرفتار کیا‘ وہ تمام رقم واپس دینے پر آمادہ ہو گئے اور پھر ایک سادہ سی تقریب میں ان تمام متاثرین کو عزت و احترام سے ان کی ڈوبی ہوئی رقموں کے چیک حوالے کیے گئے‘درج بالا سطور میں مَیں نے ایک ایسی ہی تقریب کا ذکر کیا ہے۔
پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک‘ جہاں بھی چلیں جائیں بدقسمتی سے آپ کو جعلی اور فراڈ قسم کی ہائوسنگ سوسائٹیزکے ہاتھوں ڈسے ہوئے چند ایک نہیں بلکہ لاکھوں لوگ ملیں گے‘ ان میں بوڑھے پنشنرز بھی ہیں اور وطن سے ہزاروں میل دور روزی کمانے کیلئے گئے ہوئے اوور سیز پاکستانی بھی۔ اپنا گھر ہر انسان کی خواہش ہے اور اپنے گھر کا تصور صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ چرند‘ پرند بھی اپنے لئے ایک الگ ٹھکانہ بنانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں‘ جہاں وہ کچھ وقت آرام سے گزار لیتے ہیں۔ اپنے گھر کا خواب دیکھنے والے ان ہائوسنگ سوسائٹیوں کے پُرکشش اشتہارات اور بروشرز دیکھنے کے بعد اپنی جمع پونجی کا ایک ایک پیسہ ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر ایک دن دفتر پر تالا دیکھنے کو ملتا ہے یا دس پندرہ کلاشنکوف بردار غنڈوں کا ایک لشکر دکھائی دیتا ہے‘ جو ڈرا دھمکا کر سب کو پلٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں‘ آپ کو ان جعلی اور فراڈ ہائوسنگ سوسائٹیز کے ڈسے ہوئے لوگ ضرور ملیں گے۔
ایک ادارے کی حیثیت سے نیب سے ملک کی سیاسی شخصیات یا افسران سمیت کاروباری افراد کو شکوے اور شکایات ہو سکتی ہیں‘ مگر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے ؛ تاہم اگر نیب کی خدمات کا احاطہ کریں تو صرف ایک ہائوسنگ سوسائٹی‘ جس کے لاہور کے مختلف علا قوں میں بیک وقت پانچ سے زیا دہ پروجیکٹ چل رہے تھے‘ سے 25 ارب روپے وصول کر کے حق داروں کے حوالے کرنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک جعلی ہائوسنگ سوسائٹی سے سوا دو ارب روپے کی پلی بارگین کر کے کئی برسوں سے ڈوبی ہوئی رقوم متاثرین کو واپس دلائی گئی ہیں اور یہ کرشمہ خدائے ذوالجلال کی رحمت، نیک نیتی اورنیب لاہور کی بے لوث اور انتھک محنت کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا۔
خدا جب اپنے بندوں کے دکھ درد سمیٹنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اپنے منتخب بندوں کو عہدے اور طاقت عطا کر دیتا ہے‘ جو فرض کو عبادت سمجھ کر بنی نوع انسان کی بھلائی کیلئے آتشِ نمرود میں کود جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق نیب اب تک پچاس ہزار سے زائد افراد‘ جو جعلی اور فراڈ ہائوسنگ سوسائٹیوں کے ہاتھوں اپنی عمر بھر کی جمع پونجی گنوا نے کے بعددردر کے دھکے کھا رہے تھے‘ کو ان کا حق واپس دلا چکا ہے۔ نیب لاہور آفس میں ان مائوں‘ بہنوں اور بزرگوں کو جب ان کے کئی کئی سال سے ڈوبے ہوئے لاکھوں روپے واپس مل رہے تھے تو وہ جذباتی مناظر الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے‘ اس کی گواہی آسمان اور وہاں موجود لوگ ہی دے سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved