تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     23-10-2020

کوئی پروا نہیں

بے شک حرکت میں ہی زندگی ہے لیکن اگر یہ مثبت ہو تو ہی‘ وگرنہ پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو کچھ ہمارے ہاں ہوتا رہتا ہے۔کیسے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں ہم بھی کہ بس دائرے میں گول گول گھومتے رہتے ہیں۔ ہرکسی کے اپنے مفادات کہ جن کا تحفظ بہرصورت مقدم ٹھہرے۔اِس کے لیے چاہے سب کچھ ہی کیوں نہ اُلٹ پلٹ کرنا پڑے، کوئی پروا نہیں۔ ہرکسی کی اپنی منطق اور اپنی انائیں جن کی تسکین کسی بھی صورت لازم قرار پائے چاہے اِس کے لیے پورے نظام کو ہی کیوں نہ لپیٹنا پڑے، کوئی پروا نہیں۔کس راستے پر چل نکلے ہیں کہ ہمیں خود بھی معلوم نہیں آخر ہم کرنا کیا چاہتے ہیں۔سچی بات ہے کہ اب تو اِیسی باتوں پر سرکھپانا توانائیوں کو ضائع کرنے جیسا محسوس ہوتا ہے۔ یوں بھی ہمارے ہاں تو یہ سب کچھ دہائیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ دیکھئے تو عام آدمی کن مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے لیکن مجال ہے جو ذمہ داران کے رویوں سے محسوس ہورہا ہو کہ اُنہیں عوام کی مصیبتوں کا رتی برابر بھی خیال ہے۔ خیال ہے تو بس یہ کہ کسی بھی صورت مخالفین کا ناطقہ بند ہونا چاہیے۔فریقین ہرروز تھوک کے حساب سے پریس کانفرنسیں کرتے ہیں لیکن گفتگو بس چند ایک گنے چنے نکات کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے جن میں اب دلچسپی بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ تو نیا سامنے آئے ‘کچھ ایسا کہ جس میں عام آدمی کو اپنے مسائل حل ہوتے دکھائی دیں۔
پرانے تو جو کچھ کرتے رہے‘ وہ اپنی جگہ لیکن جو نئے آئے ہیں اُنہوں نے بھی اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔نئے آنے والے تمام مسائل کا ذمہ دارپرانوں کو قرار دینے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔پرانے والے مسائل کی جڑ نئے آنے والوں کو قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اِس تمام چکر میں عوام گھن چکربنے ہوئے ہیں؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ مسائل کے لیے ذمہ داری کا زیادہ بوجھ بہرحال حکومت کو ہی اُٹھانا پڑتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اِس وقت حکومت بری طرح پھنسی ہوئی ہے جسے دھچکوں پر دھچکے لگ رہے ہیں۔ اِسے نیا جھٹکا چندروز پہلے سندھ میں پیدا ہونے والی ڈرامائی صورتحال سے لگا۔ سندھ میں آنے والے بھونچال کے جھٹکے وقتی طور پر تو تھم گئے ہیں لیکن زمین اب بھی گھومتی محسوس ہو رہی ہے۔ اندازہ تو یہی ہے کہ اب کہ اگر دوبارہ زلزلہ آتا ہے تو اُس کی شدت 20اکتوبر کو آنے والے بھونچال کی سی نہیں ہوگی۔ ایک موقع پر تو محسوس ہورہا تھا کہ سندھ میں بہت بڑا انتظامی بحران پیدا ہوجائے گا لیکن بات سنبھال لی گئی۔ اب دس دنوں تک حقائق سامنے لانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بڑی حد تک واضح ہوگئی ہیں۔ ایسی عجیب سی صورتحال ہے کہ جس پر سوائے حیرت کے‘ کچھ نہیں کیاجاسکتا ہے۔ اندازہ تو یہی ہے کہ اب آنے والے دنوں میں کم ا ز کم سندھ والے معاملے پر کوئی بڑی ہلچل نہیں ہوگی کیونکہ جو کچھ ہونا تھا‘ وہ ہو چکا۔ یوں بھی عسکری قیادت کی طرف سے تمام معاملے کی تحقیقات کرائے جانے کی یقین دہانی کے بعد اب انتظار کرنا ہی مناسب ہوگا۔ یقینا اعلیٰ عسکری قیادت نے معاملے کو بہت عقل مندی سے سنبھالا ہے وگرنہ صورتحال خراب تر ہوجاتی۔ 
یہ اچھی بات ہے کہ معاملہ بات صرف احتجاجاً چھٹیوں پر جانے کی اجازت طلب کرنے تک ہی محدود رہا اور پھر یہ معاملہ بھی بلاول بھٹوزرداری کی مداخلت پر التوا میں چلا گیا۔ ادارے کے سربراہ کی طرف سے چھٹی کی درخواست آنے کے بعد صوبے کے 36پولیس افسران نے چھٹیوں کی درخواستیں بھیجی تھیں۔ اِن میں سے 20تو کراچی میں خدمات سر انجام دے رہے تھے اور باقی صوبے کے دوسرے شہروں میں تعینات تھے۔ اِس واقعہ کا پس منظر غالباً بہت اہم نہیں‘ پھر کیوں اتنا بکھیڑا ہوا۔ معاملہ صرف کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمہ درج ہونے اور اُنہیں گرفتار کرنے کا تھا۔ معلوم نہیں ایسی کون سی مصیبت آن پڑی کہ ہنگامی بنیادوں پر ایک مفرور شخص کی مدعیت میں مقدمہ درج کرانا پڑا اور پھر گرفتاری کے لیے انوکھا راستہ اختیار کیا گیا‘ ایسا راستہ جس کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوسکتے تھے۔ 
بحران تو ٹل گیا ہے لیکن سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اِس بکھیڑے سے حاصل حصول کیا ہوا؟سوائے اِس کے کہ تمام صورتحال سے اُن کو ہی سب سے زیادہ فائدہ پہنچا جنہیں پردۂ سکرین سے ہٹانے کے لیے تمام داؤ پیچ آزمائے جارہے ہیں۔ سوائے اِس کے کہ اپوزیشن کے بیانیے کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔ سوائے اِس کے کہ حکومت مزید بیک فٹ پر چلی گئی۔ حکومتی دفاع کاروں کے لیے حکومت کا دفاع کرنا پہلے ہی مشکل ہورہا تھا‘ اب یہ مزید مشکل ہوگیا ہے۔ دیکھا جائے تو صورتحال کی خرابی میں بلاسوچے سمجھے کیے جانے والے حکومتی اقدامات اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں۔ ابھی تو بغاوت کے مقدمے کے آفٹرشاکس ہی نہیں تھم سکے تھے۔ آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ سابق وزرائے اعظم اور موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت متعدد افراد کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیے جانے کے پیچھے کیا حکمت کار فرما تھی؟ ایسا مقدمہ جس نے جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا۔ بعد میں سوائے سبکی کے کیا حاصل ہوا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں مقدمہ درج کرانے والا بھی ایک مقدمے میں مفرور تھا اور تھانہ شاہدرہ میں بھی ایک مفرور کی مدعیت میں ہی بغاوت کا مقدمہ درج ہوا۔اب کم از کم گوجرانوالہ جلسے کے منتظمین کے خلاف درج ہونے والے مقدمے میں یہ روایت توڑ دی گئی ہے۔ اُمید واثق ہے کہ آئندہ بھی اندراجِ مقدمہ کے لیے کم از کم کسی مفرور کی خدمات حاصل کرنے سے گریز کیا جائے گا۔ اِس کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنے حوالے سے پیدا ہونے والے اِس تاثر کو بھی زائل کرنا ہوگا کہ شاید وہ اشتعال میں اپنے حواس کھوتی جارہی ہے‘ شاید وہ اپوزیشن کے جلسوں کا بہت زیادہ دباؤ محسوس کررہی ہے جس کے باعث دھڑا دھڑ مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔ حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ اِس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے جسے کم کیے بغیر وہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔ 
اِن تمام حالات میں ہر طرف عجیب سی یاسیت چھاتی چلی جا رہی ہے جس نے ہر کسی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہر طرف مایوسی کی باتیں‘ جن میں اُمید کی کوئی رمق تک دکھائی نہیں دیتی۔ اب کہنے کو لاکھ یہ کہا جاتا رہے کہ اُمید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے لیکن جب وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتا جارہا ہو تو اُمیدیں بھی دم توڑنے لگتی ہیں۔ بدقسمتی سے آج ہم ایک مرتبہ پھر بحرانی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ صورتحال تو یہ ہوچکی کہ مارا بھی جاتا ہے اور رونے بھی نہیں دیا جاتا۔خوف اور جبر کی سی فضا رہی سہی صلاحیتیں بھی سلب کرتی جا رہی ہے۔ کہنے کو جمہوریت ہے لیکن سیکھنے‘ سکھانے کی ہمارے اندر صلاحیت نہیں کہ ماضی کے تجربات سے ہی کچھ استفادہ کر لیا جائے۔ بجائے اِ س کے کہ قومی مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں ہوتی دکھائی دیں‘ قوم کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ اب دیکھنے والوں کو نیا عمران خان دکھائی دے گا۔ گویا ابھی تک قوم پرانا عمران خان ہی دیکھ رہی تھی۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن کو اب کوئی رعایت نہیں ملے گی۔گویا پہلے اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ہولا رکھا جا رہا تھا۔اللہ کے بندو! کچھ بھی کرو‘ بدعنوانوں کو اُلٹا لٹکا دو‘ اُن کے پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئو‘ بھلے اب ایک کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھر بھی نہ دو لیکن ادویات کی قیمتیں ہی کچھ کم کردو‘ آٹے، چینی کا بحران کسی طرح حل کردو‘ بجلی کے نرخوں میں بتدریج ہونے والے اضافہ کا سلسلہ ہی تھم جائے تو کچھ سکون میسر آئے۔ چلو اتنا بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم یہ تاثر ہی زائل کردو کہ حکومت کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں رہا‘ حکومت کو کوئی پروا نہیں کہ عام آدمی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کیسی کیسی مصیبتیں جھیل رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved