ہم جنگل میں رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں‘ ایک جنگل ایسا بھی ہے جو ہم سب میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہے۔ اِس جنگل کی انوکھی شان ہے۔ اِس میں کئی شیر ہیں جو دُم دبائے بھاگے پھرتے ہیں اور کئی بکریاں ہیں جن کی دیدہ دلیری دیکھ کر بڑے بڑے عفریت نما جانور کانپ اٹھتے ہیں۔ یہ جنگل اس اعتبار سے انوکھا ہے کہ اس میں حقیقی جنگل والے اصول زیادہ لاگو نہیں ہوتے۔ اس جنگل میں بسنے والوں کی اپنی ہی ایک دنیا ہے جس میں سب کچھ بہت انوکھا اور حیرت انگیز ہے۔ یہ جنگل ہم سب کے ذہنوں میں بسا ہوا ہے۔ جی ہاں! ہم اپنے ذہنوں میں یہ جنگل اٹھائے پھرتے ہیں۔ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ذہن کے جنگل میں بھٹکنے والے جانور دراصل ہمارے خیالات ہیں۔ ہم اپنے خیالات کو جیسا ماحول فراہم کرتے ہیں‘ وہ ویسے ہی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر کوئی خیال شیر کا سا ہے اور ہم اُسے بکری بناکر رکھیں تو وہ بکری کی طرح رہے گا اور اگر کسی خیال نے بکری کی حیثیت سے جنم لیا ہے لیکن ہم توجہ دیں تو وہ شیر کا کردار ادا کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔
یہ کس طور ممکن ہے؟ یہ بالکل ممکن ہے! شرط صرف یہ ہے کہ آپ ایسا کرنا چاہیں۔ اگر ہم یہ طے کرلیں کہ اپنے ذہن کے جنگل کو اُسی حالت میں رکھیں گے جس حالت میں قدرت اُسے دیکھنا چاہتی ہے تو پھر کچھ بھی ناممکن نہیں۔ بہت کچھ ہم پر منحصر ہے۔ قدرت نے ہمیں روئے ارض پر ایسا مجبور خلق نہیں کیا‘ جیسا ہم خود کو سمجھتے ہیں۔ بہت کچھ ہے‘ جو ہمارے ہاتھ میں ہے اور سوچنا تو خیر مکمل طور پر ہماری مرضی کا عمل ہے۔ ہم اپنی سوچ کو صورتحال یا حالات کے مطابق بلند کرسکتے ہیں۔ ہاں! یہ کام غیر معمولی توجہ اور محنت چاہتا ہے۔ ولیم ایل مکنائٹ 1907ء میں منیسوٹا مائننگ اینڈ مینوفیکچرنگ کمپنی (3M) سے اسسٹنٹ بک کیپر کے طور پر وابستہ ہوئے۔ انہوں غیر معمولی لیاقت اور محنت کی بنیاد پر تیزی سے ترقی کی اور 1929ء میں کمپنی کے صدر اور 1949ء میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین مقرر کیے گئے۔ انہوں نے کاروباری نظم و نسق سے متعلق لافانی فلسفہ دیا اور ادارے کی انتظامیہ کو اس بات کی تحریک دی کہ وہ ملازمین کی صلاحیتوں پر بھروسا کرتے ہوئے انہیں زیادہ سے زیادہ اختیارات سونپے اور تمام ملازمین کو نئے تصورات کے تحت کام کرنے کی آزادی دے۔ ولیم مکنائٹ نے 1924ء میں 3M کے سی ای او کی حیثیت سے کہا تھا ''اگر آپ لوگوں کے گرد باڑ لگائیں تو آپ کو بھیڑیں ملیں گی! اگر لوگوں سے کچھ درکار ہے یعنی آپ اُن سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا چاہتے ہیں تو اُنہیں فکر و عمل کی آزادی دیجیے، ان کے لیے عمل کی گنجائش پیدا کیجیے تاکہ وہ اپنے آپ کو ثابت کرنے کی تحریک پاسکیں‘‘۔ جو کچھ ولیم مکنائٹ نے کہا وہ کم و بیش ایک صدی بعد بھی زندہ ہے۔ انہوں نے کاروباری نظم و نسق کا ایک بنیادی اصول بہت عمدگی سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی کاروباری ادارہ پروان چڑھتا ہے تو اختیارات اور ذمہ داریاں تقسیم کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ملازمین کو بہتر کارکردگی کی تحریک دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ آزادی دینا پڑتی ہے۔ یہ معاملہ غیر معمولی تحمل اور رواداری کا متقاضی ہوا کرتا ہے۔ جن میں کچھ کرنے کا جذبہ ہو بھی ہو اور لیاقت بھی پائی جائے وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے پسندیدہ ڈھنگ سے کام کرنے کی اجازت اور آزادی دی جائے۔
غور طلب ہے کہ جب لوگ کام کریں گے تو کچھ غلطیاں بھی ہوں گی۔ ان غلطیوں سے سیکھنے کی صورت میں کارکردگی کا گراف بلند ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اصلاً اچھا ہے یعنی نیت بھی خراب نہیں اور کارکردگی بھی بُری نہیں تو اُس کی کسی بھی غلطی سے ادارے کو بہت بڑا نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ کسی بھی ادارے کو برباد کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب بھی کوئی ملازم غلطی کرے تو اُسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جائے اور سزا بھی دی جائے۔ جب بھی کسی ادارے میں کسی ملازم کو غلطی پر سزا دی جاتی ہے تو دوسرے ملازمین کچھ نیا کرنے سے کتراتے ہیں اور یوں معاملات جمود کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کی حقیقی ترقی اس بات پر منحصر ہے کہ ملازمین کی واضح اکثریت کچھ نیا کرنے کی سوچ رکھتی ہو اور لگن بھی۔
آج کی دنیا میں وہی کاروباری ادارے تیزی سے اور زیادہ پنپتے ہیں جو اپنے ملازمین کو کام کرنے کی بھرپور آزادی دیتے ہیں اور اُن کے کام میں پیدا ہونے والے تنوع کو سراہتے ہیں۔ مغربی دنیا میں کام کرنے کا کلچر تبدیل ہوچکا ہے۔ ملازمین کو زیادہ سے زیادہ آزادی اور اختیارات دینے پر زور ہے کیونکہ اِسی صورت وہ نیا سوچنے کے ساتھ ساتھ اُس پر عمل بھی کرسکتے ہیں۔ کاروباری نظم و نسق کے ماہرین اب آجرین کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ملازمین کو کام کرنے کی آزادی بھی دیں اور چھوٹی موٹی غلطیوں کے ارتکاب پر اُنہیں تنقید کا نشانہ بنانے یا سزا دینے سے گریز بھی کریں۔ بڑے ادارے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جب بھی ملازمین کچھ نیا کریں تو اُنہیں سراہا جائے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اُس کی کارکردگی کو سراہا جائے، اُسے دوسروں سے الگ شناخت کا حامل قرار دیا جائے۔ ادارے کی انتظامیہ جنہیں سراہتی ہے اُن کی کارکردگی کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے۔ وہ کچھ نیا کرنے کا ذہن بھی بناتے ہیں اور جو کچھ سوچتے ہیں اُس پر عمل کر گزرتے ہیں۔
آج کی دنیا میں سوچنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ مشکل یوں کہ ہر شعبے میں سوچنے والوں کی تعداد غیر معمولی ہے اور آسان اس لیے کہ کچھ نیا اور انوکھا سوچنے کی تحریک دینے والے وسائل کی کمی نہیں۔ اگر کوئی طے کرلے کہ وہ معیاری انداز سے سوچے گا تو اُسے سوچنے کی تحریک اور گنجائش دینے والے وسائل اس قدر ہیں کہ وہ جہاں تک جانا چاہے‘ جاسکتا ہے۔ فی زمانہ بہت سے شعبوں میں غیر معمولی پیشرفت ہوئی ہے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ پیشرفت چند معاشروں تک مرتکز ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ معاشرے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ ان معاشروں وہ سب کچھ نہیں کیا گیا جو آگے بڑھنے کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ کاروباری دنیا صرف اور صرف خیالات کی بنیاد پر چلتی ہے۔ ذہن جس طور کام کرے گا اُسی تناسب سے ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ ہر کاروباری ادارہ اُسی وقت تک قائم رہتا ہے جب تک وہ کچھ نہ کچھ نیا کرتا رہتا ہے۔ جدت اور تنوع کا بازار گرم نہ رکھا جاسکے تو معاملات پلٹ جاتے ہیں۔ آج کی دنیا مقابلے کی ہے۔ فی زمانہ صلاحیتوں کا اظہار کچھ زیادہ مشکل نہیں مگر دوسروں سے ہٹ کر‘ مختلف انداز سے کچھ کر دکھانا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ دوسروں سے بہتر اور مختلف ثابت ہونے کے لیے لازم ہے کہ نیا سوچا جائے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب لوگوں کو سوچنے اور اُس پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے۔
جب کسی کی صلاحیت پر بھروسا کیا جاتا ہے اور اُس کی سوچ کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تب وہ اپنی تمام صلاحیتیوں اور توانائی کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر آزادی نہ ملے تو لوگ اصلاً شیر ہوتے ہوئے بھی بکری کی سی حیثیت کے حامل ہوتے جاتے ہیں۔ سوچنے کی راہ نہ دیے جانے پر لوگ اپنے کام میں مطلوب حد تک دلچسپی نہیں لیتے۔ یوں اُن میں کام کرنے کی لگن دم توڑتی چلی جاتی ہے۔
کسی بھی بڑے کام کے لیے لوگوں کو تحریک دینا لازم ہے۔ تحریک دینے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ عظیم فلسفی لاؤ زے نے ''تاؤ تے چِنگ‘‘ میں لکھا ہے ''لوگوں سے سیکھو‘ لوگوں کے ساتھ منصوبے بناؤ۔ جو کچھ اُن کے پاس ہے اُس سے ابتدا کرو اور جو کچھ وہ جانتے ہیں اُس کی بنیاد پر اپنی کامیابی تعمیر کرو۔ جب کام مکمل ہوچکے گا اور کامیابی مل جائے گی تب لوگ خاصے پُرمسرّت انداز سے اور فخریہ طور پر بتائیں گے کہ اِس کامیابی میں اُن کا بھی حصہ ہے بلکہ وہ تو شاید یہ بھی کہیں کہ یہ سب ہم نے کیا‘‘۔