پاکستان میں نجانے کیوں نظامِ تعلیم میں بہتری کے سارے اقدامات نصابِ تعلیم میں تبدیلی کے خوشنما مسودے پر آکر رُک جاتے ہیں۔ کچھ ماہرین تربیتِ اساتذہ کے پروگراموں کی افادیت پر زور دیتے ہیں۔ نصاب اور تربیتِ اساتذہ دونوں اہم ہیں لیکن ایک بنیادی جزو جو کسی بھی نظامِ تعلیم کو بگاڑنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور جسے اکثرنظر انداز کیا جاتا ہے وہ ہمارا امتحانی نظام ہے جس کے تقاضے کمرۂ جماعت کی تدریس پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہر نئی حکومت نصابِ تعلیم کے حوالے سے تبدیلیوں کا اعلان کرتی ہے جو بدلتے ہوئے تعلیمی تقاضوں اور طلباء کی ضروریات کے حوالے سے ایک مثبت اقدام ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اس مثبت اقدام کے ثمرات سے اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم ایک فرسودہ نظام ہے جو ماضی میں منجمد ہو چکا ہے۔ اس امتحانی نظام کی بنیادیں معروف ماہرِ نفسیات سکنر (Skinner) کے اس ماڈل پر استوا ر ہیں جس کے تحت تعلیم کا عمل بھی ایک عام عادت کی تشکیل کی طرح ہے جس میں تقلید (Immitation) اور تکرار (Repitition) دو بنیادی اجزاء ہیں۔ بعد میں آنے والے نفسیات دانوں نے تعلیم کے اس ماڈل سے اس بنیاد پر اختلاف کیا کہ تعلیم کاعمل اتنا سادہ نہیں کہ اسے تقلید اور تکرار تک محدود کر دیا جائے۔ اس کے برعکس یہ ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے جس کی منزل طالبِ علم کی ہمہ جہت نشوونما (Holistic Development) ہے۔ نظامِ تعلیم کے تجزیے میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہمارا علم کا تصور کیا ہے۔ کیا ہم علم کوجامد سمجھتے ہیں یا ایک حرکی تصور (Dynamic Concept) ۔پاکستان کے بیشتر سکولوں میں علم کو ایک جامد شے سمجھا جاتا ہے‘اور تعلیم کا مقصد صرف یہی لیا جاتا ہے کہ اس جامد شے کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کیا جائے ۔اس سارے نظام میں ایک طرف علم کو جامد چیز تصور کیا جاتا ہے اور دوسری طرف طلباء کو خالی برتن (Empty Vessels) سمجھا جاتا ہے ۔ یوں استاد کا واحد مقصد جامد علم کو ان خالی برتنوں میں منتقل کر ناہے ۔
دنیا تعلیم کے اس فرسودہ تصور سے کہیں آگے نکل گئی ہے لیکن ہم ابھی تک تاریخ کے اسی گُم گشتہ لمحے میں رُکے ہوئے ہیں۔ ہمارے نظامِ امتحان کا بنیادی نکتہ یادداشت ہے جو طالبِ علم اس جامد علم کا رٹا لگا لے وہ امتحان میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوجاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں امتحان میں نمایاں کامیابی کے لیے مضمون کی سمجھ بوجھ کے بجائے اچھی یادداشت کا ہونا ضروری ہے۔اس سارے نظام میں سمجھ بوجھ ،غوروفکر اور تنقیدی سوچ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس فرسودہ نظام ِ امتحان کے اثرات تعلیمی عمل میں شریک سب کرداروں پر مرتب ہوتے ہیں۔امتحان کے دنوں میں بچوں سے زیادہ والدین اضطراب کا شکار ہوتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ بچوں سے زیادہ یہ والدین کا امتحان ہے۔سب کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے: امتحان میں اچھے گریڈکا حصول ۔اسی طرح طلباء امتحان میں اچھے گریڈ لینے کیلئے ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔وہ اصل ٹیکسٹ کو سمجھنے اور اس کے مفہوم پر غور کرنے کے بجائے ساری توجہ اسے یاد کرنے پر صرف کرتے ہیں۔
اس فرسودہ نظامِ تعلیم کا دباؤ اساتذہ پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اچھا استاد اسے سمجھا جاتا ہے جس کی کلاس میں زیادہ A گریڈز آئیں۔چونکہ امتحانی نظام رٹے کی بنیاد پر استوار ہے اس لیے اچھا نتیجہ حاصل کرنے کیلئے استاد بھی اس فرسودہ نظام کے تقاضوں کے مطابق طلباء کو امتحان کی تیاری اس طرح کراتا ہے کہ وہ امتحان میں سوالات کے جوابات فرفرلکھ سکیں۔ یوں کمرۂ جماعت میں غوروفکراور تخلیقی و تنقیدی سوچ کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
اساتذہ کے علاوہ سکول کے پرنسپل کی بھی اولین ترجیح سکول کا اچھا نتیجہ ہوتا ہے‘ لہٰذا ان کی پوری توجہ اور کوشش پراڈکٹ پر ہوتی ہے اور پراسیس کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ منفی مقابلے (Negative Compitition) کی دھند میں انفرادی سوچ ،تنقیدی طرز ِ فکر،اور آزادیٔ اظہار کے خواب دم توڑ دیتے ہیں۔ سکول اپنے آپ کو بہترین سکول ثابت کرنے کیلئے کئی طرح کے دائو پیچ استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طورپر منتخب شدہ ابواب کی تدریس کروانا جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکاہے ۔ نویں جماعت کا نصاب آٹھویں جماعت میں پڑھانا یعنی پڑھائی کے بو جھ کو بڑھا دینا اور دسویں کے طلبہ کو رگڑا دینا تاکہ بہتر گریڈ حاصل کر سکیں۔ ایک اور حربہ بورڈ کے امتحان سے پہلے کمزور طلبہ کو خارج کردینے کا بھی اختیار کیا جاتاہے ۔ ایسے طلباء جن کے امتحان میں ناکام ہونے یا پھر کم نمبرلینے کا خدشہ ہو‘ انہیں سکول کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اخلا قی یاقانونی لحاظ سے یہ عمل کیسا ہے‘یہ ایک علیحدہ معاملہ ہے مگر سو فیصد نتائج اور زیادہ سے زیادہ اے گریڈ حاصل کرنے کی یہ کامیاب اور موثر تکنیک ہے ۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارے امتحانی نظام میں زیادہ تر کِس طرح کے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ امتحانی پرچوں کا جائزہ لیں تو زیادہ تر سوالات کا تعلق معلومات کی فراہمی سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ امتحانی پرچوں میں زیادہ تر سوالات Whatکی کیٹگری میں آتے ہیں۔ Why اور How کے سوالات ہمارے امتحانی پرچوں میں خال خال ہی نظر آئیں گے۔ اس لحاظ سے ہمارے طالب علم‘ علم کے پہلے درجے یعنی معلومات کو یاد رکھنے تک محدود رہتے ہیں۔
امتحانی نظام میں کامیاب ہونے کے لیے طلباء کو تنقیدی سوچ (Critical Thinking) کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی اس لیے کہ ہمارا نظامِ امتحان جو ہمارے تعلیمی نظام کا اہم جزو ہے طلباء کو اندھی تقلید (Conformity) کا عادی بنا دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طلباء جب تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو معاشرے میں کولہو کے بیل کی طرح شریک ہو جاتے ہیں جن کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے اور وہ ساری عمر زندگی کی رہٹ پر ایک ہی ڈھب میں گزار دیتے ہیں۔ انھیں معاشرے میں اردگرد پھیلی نا انصافیاں نظر نہیں آتیں کیونکہ ان کی آنکھوں پر اندھی تقلید کی پٹی بندھی ہوتی ہے۔نہ ہی وہ کسی نا انصافی پر سوال اُٹھاتے ہیں کیونکہ ان میں سوال پوچھنے کی صلاحیت کو سکول کے ابتدائی دنوں میں ہی ختم کر دیا جا تا ہے۔ یوں تعلیم جو کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانے کا مؤثر ہتھیار سمجھی جاتی ہے وہ ایک بے اثر شے بن کر رہ جاتی ہے۔اگر ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں تبدیلی لانی ہے تو اپنے فرسودہ نظامِ تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ امتحانی پرچوں میں سوالات کی تیاری اور اور تعلیمِ اساتذہ میں Assessment کے حوالے سے ٹریننگ اہم امتحانی نظام میں جوہری تبدیلی کے لیے تعلیمی بورڈز اور تربیتِ اساتذہ کے پیشہ ورانہ اداروں میں اشتراکِ عمل ضروری ہے ۔ اس کے لیے تعلیمی سیمینارز ، کانفرنسیں اور ورکشاپس اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ نظام ِامتحان میں ہنگامی بنیاد پر بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کیونکہ ہم پہلے ہی تعلیمی میدان میں جنوبی ایشیا کے ممالک سے پیچھے رہ چکے ہیں۔ اکیسویں صدی سخت مقابلے اورمسابقت کی صدی ہے‘ جہاں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے جن مہارتوں کی ضرورت ہے ان میں تنقیدی سوچ (Critical Thinking) اور تخلیقی صلاحیت (Creativity) سرِ فہرست ہیں۔آج کا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا نظامِ تعلیم اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے؟ ایک ایسا نظام تعلیم جس کا فرسودہ نظامِ امتحان تا حال سوچ کی زیریں سطح (Lower Order Thinking) کے گرد گھوم رہا ہے ۔