تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     24-10-2020

اے صاحبِ اولاد!

سچ یہ کہ انسان کس کا قصور گردانے۔کس کو ذمے دار ٹھہرائے اور کس پر فردِ جرم عائد کرے۔ہر ایک اپنی جگہ سچا ہے ۔ 
یہ کافی سال پہلے کی بات ہے ۔میں بہت دن سے اپنے جلد ساز سہیل کی طرف جانے کا ارادہ کر رہا تھا۔کتابیں تیاری کے مرحلے میں تھیں اور ان کی بروقت تیاری میری ضرورت تھی۔کبھی کبھار ان اڈوں پر چکر لگانا فائدہ مند ہوتا ہے اور چھوٹی موٹی چیزوں اور غلطیوں کی بھی نشان دہی ہوتی رہتی ہے۔لیکن اس دن میں سہیل کے جِلد سازی کے کارخانے پر پہنچ کر شدید تکلیف میں تھا۔کم و بیش سات، آٹھ ،نو سال کے تین بچے اڈے پر کام کر رہے تھے اور انہیں میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ایک بچہ چھپے ہوئے کاغذ جنہیں فرمے کہا جاتا ہے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے موڑ رہا تھا۔ دوسرا کٹنگ مشین سے نکلی ہوئی کترنیں سمیٹ رہا تھا۔ایک اور بچہ سلائی شدہ کتابوں کے بنڈل اٹھا کر ترتیب سے جوڑ رہا تھا۔سہیل بہت مدت سے ہمارا جلد سازی کا کام کرتا تھا۔ اچھا اور صاف ستھرا محنتی کاری گر تھا۔پہلے کسی ٹھیکے دار کے پاس کام کرتا تھا۔ کچھ پیسے اکٹھے ہوئے تو بلال گنج لاہور کے قریب کچا رشید روڈ پر اپنا کام شروع کردیا اور کاری گر بٹھا لیے۔میرے پاس وہ بہت مدت سے آتا جاتا تھا اور مجھے اس کی اچھی طبیعت کی وجہ سے اس سے مل کر خوشی ہوتی تھی‘ لیکن وہ تکلیف کا دن تھا۔تینوں چھوٹے بچوں کو اڈے پر کام کرتے دیکھ کرمجھے سہیل پر شدید غصہ آرہا تھا۔'' سہیل ! یہ کیا ہے.یہ کون بچے ہیں؟‘‘ سہیل کو میرے غصّے کا اندازہ کرنے میں کوئی دیر نہیں لگی۔ ''یہ ساتھ والے محلے کے بچے ہیں‘ دو سگے بھائی ہیں اور ایک بچہ دوسرے گھر کا ہے‘ میرے پاس کام سیکھنے آئے ہیں‘‘۔ 
'' کام سیکھنے ‘‘ ؟ میرا پارہ اور چڑھ گیا۔ عمر دیکھی ہے تم نے ان کی؟ یہ ان کے سکول اور مدرسے جانے کی عمر ہے‘ اس میں تم انہیں کام سکھا رہے ہو۔ ان کی عمریں دیکھو اور یہ کام دیکھو جو کتنی محنت مانگتا ہے۔ ان کی کھیلنے کی عمروں میں تم ان سے اڈوں پر کام کروا رہے ہو ‘‘۔ کام روک کر کاری گر میری اونچی آواز کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ وہ تین بچے بھی قدرے سہم کر میری طرف دیکھنے لگے ۔مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا.مجھے سہیل سے علیحدگی میں بات کرنی چاہیے تھی۔ ''میں دفتر جارہا ہوں تم بھی فارغ ہوکر وہاں میری بات سنو‘‘۔ میں نے بمشکل آواز نیچی کی اور وہاں سے نکل آیا۔
کچھ دیر بعد سہیل میرے دفتر میں سامنے آکر بیٹھ گیا'' آپ میری بات پہلے سن لیں ‘‘ اس نے دھیمی آواز میں کہا '' یہ بچے مزدور ماں باپ کے بچے ہیں۔ دو بچوں کا باپ کرامت دہاڑی دار مزدور ہے اور ماں گھروں میں صفائی کرتی ہے۔ ان کے سات بچے ہیں۔ ماں باپ کی کمائی سے گھر کا کرایہ اور مہینے کا خرچہ ہی پورا نہیں ہوتا۔ دو بڑے بچے گاڑیوں کی ورکشاپ میں کام کرتے ہیں۔ یہ دو میرے پاس ہیں۔ باقی ان سے چھوٹے ہیں۔ ان کے ماں باپ کتنے ہی مہینوں سے میرے پاس چکر لگا رہے تھے کہ ان بچوں کو اپنے پاس رکھ لو‘ کام سکھاؤ اور کچھ نہ کچھ شام کو دے بھی دیا کرو۔میں ایک بچے کو شام گھر جاتے ہوئے پچاس روپے دیتا ہوں۔ آگے چل کر کام سیکھ جائیں گے تو پیسے بڑھ جائیں گے۔ ان کے ماں باپ مطمئن ہیں۔ سارا کنبہ کام کرتا ہے تو گھر کا چولہا جلتا ہے۔ ایک اور بچہ جان محمد کا بیٹا ہے جو لکڑی کے آرے پر ملازم ہے۔ اس کے حالات بھی بہت خراب ہیں۔ اس نے بھی بار بار مجھ سے کہا تو میں نے اس کا بچہ بھی کام سیکھنے پر لگا دیا‘ کچھ نہ کچھ اس کو بھی شام کو دیتا ہوں‘‘۔ 
''سہیل یہ ان کے لکھنے پڑھنے کی عمر ہے۔ کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔ کیسے ماں باپ ہیں جو بچوں کے سکول نہ جانے سے خوش ہیں۔ تم کیوں نہیں کہتے ان کے ماں باپ سے ؟ ‘‘ وہ چپ بیٹھا رہا۔کچھ دیر میرے پرسکون ہونے کا انتظار کرنے کے بعد مزید دھیمی آواز میں بولا''سات سال۔ میں سات سال کا تھا جب ٹھیکے دار ظہور کے اڈے پر بیٹھنا شروع کیا تھا۔ اب میری عمر بیالیس سال ہے۔ میرے باپ کو فالج ہوگیا تھا اور ہم پانچ بہن بھائیوں کی کمائی سے سبزی بھی آتی تھی اور اس کی دوا بھی۔ سکول کیسے جاتا اور فیس کہاں سے لاتا؟ ماں باپ کو بھی سکول نہیں چاہیے تھا، بہن بھائیوں کو بھی نہیں تو پھر مجھے کیوں چاہیے ہوتا؟ جان محمد آرے سے اٹھ کر اپنے بچے کو سکول کیسے داخل کرے اور کیوں کرے؟کیا پڑھ لکھ جائے گا وہ؟ اور کیا کمالے گا میٹرک کرکے ۔میٹرک کی عمر تک پہنچتے پہنچتے یہاں اچھا کاری گری پانچ چھ سو روپے کی دہاڑی بنا لیتا ہے‘ اور پھر یہ بھی تو ہے کہ اگر سبھی لکھ پڑھ جائیں گے تو کاری گر کون بنے گا؟ فرمے کون موڑے گا؟ سلائی کیا پی ایچ ڈی ڈاکٹر آکر کیا کریں گے ؟۔ ‘‘ 
اس کی عملی اور معاشی دلیل کے سامنے میری علمی اور اخلاقی دلیلیں ڈھیر ہوئی پڑی تھیں۔ میں سہیل سے کیا بات کرتا۔ اسے ان ملکوں کے بارے میں کیا بتاتا جہاں یہی سب کچھ تھا اور اب انہوں نے بچوں کی مشقت کا سرے سے خاتمہ کردیا ہے۔جہاں اب یہ سب کام مشینوں سے ہورہے تھے اوریہ بات بھی کافی سال پہلے کی ہے جب جلد سازی میں یہ مشینیں پاکستان میں نہ ہونے کے برابر تھیں۔میں اسے اپنے ملک ،اپنے ماحول، اپنے مسائل میں عملی تجویز کیا دیتا۔میں نے کرامت اور جان محمد کا تصور کیا۔ کرامت اینٹوں کی ڈھیری سر پر اٹھا کر اسّی ڈنڈوں والی سیڑھی چڑھ رہا تھا اور جان محمدلکڑی کے جان لیوا برادے سے بچاؤ کے لیے، ڈھاٹا باندھے، آرے کی کان پھاڑ دینے والی چنگھاڑ میں لکڑی چیر رہا تھا۔ انہیں اپنے جگر پاروں کے سکول یا مدرسے نہ جانے کا غم نہیں تھا۔ یہ اطمینان ضرور تھا کہ وہ کام سیکھ رہے ہیں اور ایک دن اچھے کاری گر بن کر اچھا کمائیں گے۔ اس دن جب کرامت اور جان محمد ہاتھ پاؤں سمیٹ کر گھر آبیٹھیں گے۔اگر ان کے بچوں کو اڈے سے اٹھا دیا گیا تو یہ ان کے نزدیک ظلم سے کم نہیں ہوگا۔ کوئی بھی قانون جو ان کے خیال میں بچوں کے کام میں رکاوٹ بنے گا ۔ان کے خیال میں بچے کی جوانی ان کے بڑھاپے کے ساتھ جڑی ہے اور انہیں کام سے اٹھانا ان کے نزدیک دونوں کا مستقبل خراب کرنے کے مترادف ہے۔
تین زاویے الگ الگ تھے۔تینوں کا مرکز یہی بچے تھے۔میں انہیں کسی اور طرح دیکھتا تھا ۔سہیل کسی اور طرح، اور ماں باپ کسی اور طرح۔ہم میں سے ٹھیک کون تھا ؟ اور ہم میں سے کون تھا جو کاغذی صورت حال کو نہیں عملی زندگی کو پہچان رہا تھا؟کون جانے۔ آپ اسے جہالت کا نام دے لیں، معاشرے کی بے حسی کہہ لیں یا اس کا عنوان بے بسی رکھ دیں۔سچ یہ ہے کہ کہنے اور لکھنے سے کیا ہوتا ہے جب تک عملی حل پیش نہ کیا جائے۔ آپ بچوں کا مشقت کا دن منا لیں ، ذرا سا دل بھر آئے تو کچھ لکھ کر ہلکا کرلیں اور پھر انہی بھیک مانگتے، شیشے صاف کرتے اور پنکچر لگاتے بچوں کے درمیان سال گزار دیں ۔ کیا فرق پڑتا ہے ؟ 
پھر فرق کیسے پڑسکتا ہے ؟ حکومت کی طرف کیا دیکھیں ۔اس کی طرف دیکھنے سے پہلے کون سا کچھ ہوسکا ۔ ہاں ،بڑے بڑے دل والے ، بڑے بڑے مخیر انسان ہمارے یہاں موجود ہیں ۔ یتیم بچوں کی سرپرستی کرکے انہیں سنبھالنے ، عزتِ نفس ، تعلیم ، چھت اور روٹی دینے والے ۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں ۔ ان ورکشاپوں، ان کارخانوں، ان مکینکوں، ان جلد سازوں، ان پنکچر لگانے والوں، ان گھریلو ملازموں کو رکھنے والوں اور ان بھک منگوں کے پاس جائیں۔ ان بچوں کو اس کڑکتی زندگی سے نکالیں۔ ان کے ماں باپ کو وہ خرچہ دیں جو انہیں یہ بچے روزیا ماہانہ کما کر دیتے ہیں ۔ انہیں سکولوں ، مدرسوں میں تعلیم دلائیں۔کیا یہ کام بہت مشکل ہے ۔ کیا یہ کام بہت ہی مشکل ہے ؟
ہے کوئی اپنے بچے کو اس زندگی سے نجات دلانے والا؟ ہے کوئی صاحب ِ اولاد ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved