ممکن ہے کہ ہمارے کالم کا عنوان دیکھ کر بعض احباب کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ اسلام میں تو عیدالفطر اور عیدالاضحی کے نام سے فقط دو ہی عیدوں کا تصور ہے،لہٰذانبیﷺکی ولادت اور آپ کی تشریف آوری کے دن کو عید کہنا کس طرح درست ہے۔ان احباب کی خدمت میں عرض ہے : یہ تصوردرست نہیں کہ اسلام میں فقط دوہی عیدیں ہیں، صحیح احادیثِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلام میں دو سے زائد عیدوں کاتصور موجود ہے،اس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
(۱)''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں:میں نے رسول اللہﷺکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:یومِ جمعہ عید کا دن ہے،سو اپنی عید کے دن روزہ نہ رکھو، سوائے اس کے کہ اُس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کو ملا کر رکھو‘‘ (المستدرک للحاکم:1595)۔
(۲)''حضرت عبداللہؓ بن عباس بیان کرتے ہیں:بیشک جمعہ کا دن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے عید کا دن بنایا ہے،پس جو شخص جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو وہ غسل کرکے آئے، خوشبو میسر ہو تو خوشبو لگاکر آئے اور تم پرمسواک کرنا لازم ہے‘‘(سنن ابن ماجہ:1098)۔
(۳)''حضرت ابن سباقؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺنے جمعہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:جماعتِ مسلمین!بلاشبہ آج کے دن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے عید کا دن بنایا ہے،پس تم اس دن غسل کیا کرو اور جس کے پاس کوئی خوشبو ہو تو خوشبو استعمال کرے اور مسواک کرے‘‘ (موطاامام مالک:169)۔
(۴)''حضرت نعمانؓ بن بشیر بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺ جمعہ کی نماز میں (پہلی رکعت میں ) سورۃ الاعلیٰ اور(دوسری رکعت میں) سورۃ الغاشیہ پڑھتے تھے اور اگر کبھی دو عیدیں ایک ساتھ جمع ہوجاتیں(یعنی عید الفطریاعیدالاضحی اگر جمعہ کے دن واقع ہوتیں)تو آپ نمازِ عید اور نمازِ جمعہ دونوں میں یہی دو سورتیں پڑھتے تھے‘‘ (مسند احمد:18442)۔
(۵)''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺنے ایک خطبہ جمعہ کے موقع پرفرمایا: جماعتِ مسلمین!بیشک یہ دن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے عید کا دن بنایا ہے،پس تم اس دن غسل اور مسواک کیا کرو‘‘(المعجم الکبیر:358)۔
ان تمام احادیث میں خود رسول اللہﷺنے یومِ جمعہ کو یومِ عید قرار دیا ہے،لہٰذا یہ کہنا کہ اسلام میں عیدین کے علاوہ کسی اور دن کے لیے عید کا کوئی تصور نہیں‘ درست نہیں ہے۔
(۶)''حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺنے فرمایا:میرے پاس جبریل امین آئے،اُن کے ہاتھ میں ایک چمکدار آئینہ تھا،اس میں ایک سیاہ نکتہ تھا،میں نے کہا:جبریل !یہ سیاہ نکتہ کیا ہے،کہا:یہ جمعہ کا دن ہے،اِسے آپ کا رب آپ پر فرض فرمائے گا تاکہ یہ دن آپ کے لیے اور آپ کے بعد آنے والی آپ کی اُمت کے لیے عید کا دن بنے‘‘ (مسندالبزار:7527)۔
(۷)''عمار بن ابی عمار بیان کرتے ہیں:ایک دفعہ حضرت عبد اللہؓ بن عباس نے سورہ مائدہ کی آیت 3 کی تلاوت کی تو پاس کھڑے ایک یہودی شخص نے کہا:''اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کوعید کے طور پر مناتے‘‘،آپ نے اُسے جواب دیا:''بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ کے دن نازل ہوئی ہے‘‘(سنن ترمذی:3044)۔ حضرت عبد اللہؓ بن عباس نے اس یہودی سے یہ نہیں کہا کہ ہمارے دین میں فقط عید الاضحی اور عید الفطر‘ دو ہی عیدوں کا تصور ہے، لہٰذا ہم اس دن کو بطورِ عید نہیں منا سکتے،بلکہ آپ نے اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایا : ''یہ آیت جمعہ اور عرفہ کے دن نازل ہوئی ہے اور یہ دونوں دن مسلمانوں کے لیے عید ہی کے دن ہیں‘‘۔
(۸)سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے شریعت اسلامیہ کی تکمیل اور اپنی نعمت کے اتمام کا اعلان فرمایاہے،اس آیت کے حوالے سے ایک یہودی شخص نے حضرت عمرؓ سے کہا:''امیر المومنین!آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے یومِ نزول کو عید کا دن بنا لیتے‘‘، آپؓ نے پوچھا :''تم کس آیت کی بابت بات کررہے ہو‘‘، اس نے کہا : ''(ترجمہ)آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا،(المائدہ:3)‘‘، حضرت عمرؓ نے فرمایا:جس دن اور جس جگہ یہ آیت نبی کریمﷺپر نازل ہوئی،ہم اس کو پہچانتے ہیں، آپﷺ اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے‘‘(صحیح بخاری:45)۔حضرت عمرؓ نے بھی اس یہودی کی تردید کرنے کے بجائے اس کی توثیق کرتے ہوئے اُسے یہ باور کرایا کہ یہ آیت جس دن نازل ہوئی،وہ جمعہ اورعرفہ کا دن تھا اور یہ دونوں دن مسلمانوں کے لیے عید کے دن ہیں۔
لفظِ عید''اَلْعَوْدُ‘‘سے ماخوذ ہے،اس کامعنی ہے:''لَوٹنا‘‘،عید کا دن چونکہ خوشی کا دن ہوتاہے، اس لیے نیک فال کے طور پر اس دن کو عیدکہا جاتا ہے،یعنی بار بار لوٹنے والی خوشی اور ہرخوشی کے اجتماع کو عیدکہہ دیا جاتا ہے،جیسا کہ مذکورہ بالااحادیث میں جمعہ کے دن کو عید کا دن قرار دیا گیا ہے۔ عربی کا ایک شاعر کہتا ہے:
فِی الْعِیْدِ عُدْتُّمْ وَہُوَ یَوْمُ عَرُوْبَۃَ
یَا فَرْحَتِیْ بِثَلَاثَۃِ الْاَعْیَادِ
ترجمہ:عید کے دن تم میری عیادت کے لیے آئے ہواور یہ جمعہ کا دن بھی ہے،میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے تین عیدیں ایک ساتھ حاصل ہوگئیں۔
قرآنِ مجید میں بھی عید کا ذکرآیاہے،جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اُن کی قوم نے کہا :'' آپ اپنے رب سے دعاکریں کہ وہ ہم پر آسمان سے دسترخوان نازل فرمائے‘‘،توحضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا کی:'' اے ہمارے رب!ہم پر آسمان سے خوانِ طعام نازل فرما، (تاکہ)وہ دن ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید ہوجائے اور تیری (قدرت کی)طرف سے نشانی ہوجائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق عطا فرمانے والا ہے‘‘ (المائدہ: 114)۔ اس آیتِ مبارَکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خوانِ طعام کے نزول کو عید قرار دیا اوراللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اُن کی اس دعاکاذکرفرمایا، پس معلوم ہوا کہ نزولِ نعمت یا حصولِ نعمت کے موقع کو عید سے تعبیر کرسکتے ہیں اوراس میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ نبی کریمﷺاللہ تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ہیں،آپؐ ہی کے تصدق سے ہمیں ایمان کی نعمت حاصل ہوئی،قرآن جیسی عظیم الشان کتاب ملی،زندگی بسر کرنے کاسلیقہ نصیب ہوا۔الغرض تمام تر نعمتیں آپؐ ہی کے توسل سے حاصل ہوئیں کہ آپؐ ہی وجہ تخلیق ِ کائنات ہیں،اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری خوانِ نعمت عطا ہونے والے دن کو عید کہہ سکتے ہیں اور وہ دن ان کے اگلوں پچھلوں کے لیے یومِ عید ہوسکتا ہے، تو ہم بدرجہ اَولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یومِ ولادت کو عید میلاد النبیﷺکا نام دیں اور عید منائیں،جنابِ خالد محمود خالد کے اشعار ہیں:
ایمان ملا اُن کے صدقے، قرآن ملا اُن کے صدقے
رحمٰن ملا اُن کے صدقے، وہ کیا ہے جو ہم نے پایا نہیں
جو دشمن جاں تھے اُن کو بھی، دی تم نے اماں اپنوں کی طرح
یہ عفو و کرم اللہ اللہ، یہ خُلق کسی نے پایا نہیں
آوازِ کرم دیتا ہی رہا، تھک ہار گئے لینے والے
منگتوں کی ہمیشہ لاج رکھی، محروم کبھی لوٹایا نہیں
رحمت کا بھرم بھی تم سے ہے، شفقت کا بھرم بھی تم سے ہے
ٹھکرائے ہوئے انسان کو بھی، تم نے تو کبھی ٹھکرایا نہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اورتم اپنے اوپراللہ کی نعمت کویاد کرو،جب تم باہم دشمن تھے،پس اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی،پس تم اس کی نعمت کی وجہ سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے‘‘(آل عمران:103)۔ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کے مصداق رحمت عالمﷺکی ذاتِ اقدس ہے،اس لیے کہ آپؐ ہی کے طفیل اللہ تعالیٰ نے بکھری ہوئی انسانیت کو اسلام کے رشتے سے جوڑدیا،جولوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، اپنی ذاتی خواہشات، قبائلی روایات اور خاندانی امتیازات کے تابع ہوکرصدیوں لڑتے، مرتے اور کٹتے رہے، اُنہیں ایک دوسرے کا غمخوار وہمدرد بنادیا، ان کے دلوں کی کدورتوں اور نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کردیا،رسول اللہﷺان تمام نعمتوں کا مبدأ ہیں اور آپ ہی کے تصدق سے عالم انسانیت کوتمام نعمتیں حاصل ہوئی ہیں،سو اس نعمت عظمیٰ کے حصول کے دن سے بڑھ کر خوشی اور عید کا دن کون سا ہوسکتا ہے۔
مسلمانوں کے میلادالنبیﷺمنانے کا مقصد اس کائنات میں رسول اللہﷺکی تشریف آوری پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تشکُّر کا اظہار کرنا، رسول اللہﷺکے ولادتِ باسعادت کے احوال، آپ کے نسبِ پاک اور فضائل کا بیان کرنا ہے اور یہ خود رسول اللہﷺسے ثابت ہے۔ حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺسے پیر کے روزے کی بابت پوچھاگیا، آپﷺنے فرمایا:اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن میری بعثت (اعلانِ نبوت) ہوئی یا مجھ پر (پہلی بار) وحی نازل ہوئی‘‘ (صحیح مسلم:1162)۔ اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺاپنی ولادتِ باسعادت کے شکرانے کے طور پر ہر پیر کے دن نفلی روزہ رکھا کرتے تھے،سو ولادتِ مصطفیﷺکا تشکُّر خود سنتِ مصطفی ہے۔ اس حدیث کی شرح میں ملاّ علی قاری لکھتے ہیں: ''اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ جس مقام پر اور زمانے کے جس حصے میں کوئی مبارک ومسعود واقعہ رونما ہوا ہو، تو اس کی وجہ سے اس زمان ومکان کو شرَف وبرکت حاصل ہو جاتی ہے‘‘(مرقاۃ المفاتیح، جلد:4، ص:475)۔
ایک عرب ملک میں بادشاہت کے قیام کے دن کو ''عیدُالْوَطَنی‘‘ کہا جاتا ہے اور وہاں کے علماء سمیت کسی نے بھی اسے بدعت سے تعبیر نہیں کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ تو دنیاوی معاملہ ہے جبکہ میلادالنبیﷺ کو دین کا شِعار سمجھ کر کیا جاتاہے، اس لیے اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ اپنی ولادتِ مبارَکہ اور بعثت کے دن کا تشکر روزہ رکھ کر مناتے تھے اور رسول اﷲﷺ کا فعلِ مبارک دین کا شعار ہی قرار پائے گا، کیونکہ نعمتِ بعثت کا تعلق دین ہی سے ہے۔ ہم اس پر لڑتے جھگڑتے ہیں کہ آیا نبی کریمﷺ کی ولادت کا دن عید ہے یا نہیں، جبکہ صلحاء وکاملین کے نزدیک انسان کے لیے ہر وہ دن عید کا دن ہے جس میں اس نے کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا ہو۔