تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     24-10-2020

جنوری تک

سندھ میں گزشتہ دنوں پولیس کے حوالے سے کچھ معاملات سامنے آئے تو گزرا ہوا زمانہ نظر کے سامنے گھوم گیا۔سندھ کے آئی جی مشتاق مہر‘ جن کے گزشتہ دنوں کسی وجہ سے اچانک چھٹی پر چلے جانے کی خبر آئی تھی‘ کے بارے ماضی کی اپنی کچھ یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں۔ عوام کو یاد ہو گا اور میڈیا ریکارڈ سے بھی یہ بات چیک کی جا سکتی کہ جب وہ سی پی او کراچی تھے تو انہیں سندھ کے حکمرانوں کے خلاف چلنے والے جعلی اکائونٹس کیس کے گواہاں کو ہراساں کرنے پر عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں جو کچھ سندھ میں ہوا‘ اس کی اصل کہانی کیا ہے اور تار کہاں سے ہلائے جا رہے ہیں؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ محاذ کس کی جانب سے کھولا گیا ہے۔ ابھی تو ابتدا ہے‘ دیکھتے جائیے جنوری تک بہت کچھ ہو سکتا ہے؛ تاہم اگر تحریک انصاف نے ہوش اور سمجھ سے کام لیا تو ہی وہ اپوزیشن کے تابڑ توڑ حملوں کا مقابلہ کر سکے گی وگرنہ خدشہ ہے کہ حالات اس کے قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ اگر عمران خان صاحب کی حکومت یہ جھٹکا برداشت کر گئی تو پھر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اپنے اقتدار کی پانچ سالہ مدت بھرپور طریقے سے مکمل کریں گے۔ اسی لئے مسترد شدہ اپوزیشن رہنمائوں نے جنوری تک 'مارو یا مر جائو‘ کے ایجنڈے پر عمل کرنے کا ارادہ باندھ لیا ہے۔ یہ بات میں چند دستیاب حقائق کی روشنی میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں، اس لیے اس میں کسی کو رتی بھر بھی شک نہیں رہنا چاہئے۔
چند دن پیچھے چلتے ہیں؛ سندھ پولیس میں پی ایس پی افسران اپنے آئی جی کے 'مبینہ اغوا‘ پر غصے میں بطورِ احتجاج رخصت پر چلے جاتے ہیں لیکن جس شخصیت کی بڑی سی تصویر ہر افسر کے دفتر میں نمایاں طور پر لگی ہوئی ہے‘ کیا اس کے مزار کا ا حترام ہر افسر اور ہر فرد پر واجب نہیں؟ کیا پوری قوم نے اپنی آنکھوں سے ٹی وی سکرینوں پر بار بار مزار قائد کی بے حرمتی نہیں دیکھی تھی؟ جب سب کچھ دیکھ رہے تھے تو انتظامیہ کا فرض نہیں بنتا تھا کہ اس پر قانونی کارروائی کی جاتی؟ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ اب سندھ پولیس کے سربراہ نے اپنی اور اپنے دو درجن سے زائد ساتھیوں کی جانب سے ایک ہی عبارت کی فوٹو کاپیوں پر مشتمل رخصت کی درخواستیں اس وقت تک کیلئے مؤخر کر دی ہیں جب تک کور کمانڈر کراچی کی انکوائری رپورٹ سامنے نہیں آتی۔ اس سلسلے میں رات گئے سندھ پولیس کی جانب سے جو پریس ریلیز جاری کی گئی تھی‘ اسے پڑھنے کے بعد صاف پتا چلتا ہے کہ یہ تحریر کسی دفتر سے نہیں بلکہ کسی سیا سی شخصیت کے گھر سے جاری کی گئی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق چھٹی کی درخواستیں سندھ بھر میں تعینات افسران کو وٹس ایپ کی گئیں تاکہ وہ اپنے دستخط کر کے میڈیا کو بھجوا دیں۔آئی جی سمیت سندھ پولیس کے افسران کا احتجاج کرتے ہوئے خود بخود اجتماعی رخصت پر چلے جانے کے واقعے کو کیا نام دیا جائے؟ وفاق کو تمام پولیس افسران کا ریکارڈ سامنے رکھنا ہو گا کیونکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کے بیانیے کو تقویت دینے کیلئے باقاعدہ طور پر ان کے ہمدردوں اور ساتھیوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہ ناسمجھ نہیں‘ نہ ہی کسی پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسی کے ملازم ہیں۔ سب کو علم ہے کہ رخصت یعنی چھٹی کسی بھی سرکاری ملازم کا استحقاق نہیں ہوتا۔ کوئی بھی ایسا شخص جو لازمی سروس کا حصہ ہو‘ اگر وہ اپنے فرائض کی بجا آوری سے پہلو تہی کرے تو اسے جبری ریٹائر کرتے ہوئے پنشن اور دوسری تمام مراعات واپس لے لی جاتی ہیں۔ 
خود کو فرض شناس ظاہر کرنے والے یہ لوگ اگر اتنے ہی فرض شناس ہیں تو پھر انہوں نے ابھی تک صحافی عزیز میمن شہید کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات مکمل کیوں نہیں کیں؟ اس دلیر اور فرض شناس میڈیا ورکر کی لاش آج بھی قبر سے سوال کر رہی ہے کہ میرے قاتلوں کو کیوں گرفتار نہیں کیا جا رہا؟ عزیز میمن کا قصور شاید صرف یہ تھا کہ اس نے سندھ کی حکمران جماعت کے ٹرین مارچ میں لائی گئی سندھی خواتین کے انٹرویوز نشر کیے تھے جن میں وہ تسلیم کر رہی تھیں کہ انہیں دیہاڑی کا پانچ‘ پانچ سو روپیہ دینے کا کہہ کر لایا گیا۔ وہ خواتین گلہ کر رہی تھیں: آج چار دن ہو گئے ہیں‘ ہمیں گھر بھی نہیں جانے دیتے اور نہ ہی ہمارے پیسے دیے جا رہے ہیں۔ یہ انٹرویو کیا نشر ہوا‘ سوشل میڈیا پر اس کی دھوم مچ گئی اور ساتھ ہی عزیز میمن کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں مگر اسے کوئی سکیورٹی نہ مل سکی اور آخر ایک دن اس کی لاش ملی۔
اب آ جائیں کراچی واقعے کی طرف؛ میری نظر میں تحریک انصاف نے اپنی لاابالی حرکت اور سنگین غلطی سے اپنے دو سیا سی مخالفین کو کارنر کرنے کا موقع ضائع کر دیا ہے بلکہ الٹا کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کا معاملہ اب اس کے گلے پڑ گیا ہے۔ شاید حکومت کے سیاسی مشیروں اور ترجمانوں میں سے کسی کو احساس ہی نہیں ہو سکا یا کسی نے انہیں بریف نہیں کیا کہ اس وقت ان کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ مزارِ قائد پر جیسے ہی سیاسی کارکنوں کے نعرے بازی کی وڈیو سامنے آتی ہے‘ ملک کے ہر باشعور شخص کو یہ حرکت انتہائی ناگوار گزرتی ہے اور سینکڑوں دانشوروں اور تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لینے والے بزرگ افراد کی جانب سے سوشل میڈیا پر احتجاج ریکارڈ کرانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک عام پاکستانی کے احساسات اور جذبات مجروح ہونے کا ردعمل نواز لیگ کے خلاف آ رہا تھا۔ اگر تحریک انصاف میں پختہ سیاسی ذہن کے لوگ ہوتے تو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزارِ قائد کی بے حرمتی پر عوامی جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرتے لیکن سیاسی فہم سے عاری لوگ مار کھا گئے۔ اسی طرح گوجرانوالہ میں اداروں کے خلاف میاں نواز شریف کی تقریر اور پھر کراچی میں مزارِ قائد کی بے حرمتی کو ایک اسلوب سے عوام تک یہ کہتے ہوئے پہنچایا جاتا سکتا تھا کہ میاں نواز شریف اینڈ کمپنی قومی اداروں کے بعد قوم کے معمار اور بانیٔ پاکستان کے مقدس مزار کی بے حرمتی کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی میں کوئی سمجھ دار شخص ہوتا تو وہ مزارِ قائد پر ملک بھر کے دانشوروں کے ٹویٹس اور سوشل میڈیا پر کیپٹن (ر) صفدر پر ہونے والی تنقید کو اپنے حق میں بہتر طور پر استعمال کر سکتا تھا۔ تحریک انصاف کو خود اس معاملے کی ایف آئی آر درج نہیں کرانا چاہیے تھی بلکہ اس کیلئے عوامی دبائو بڑھاتے ہوئے گیند پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی کورٹ میں پھینکنا چاہئے تھی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو پھر انہیں جس عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا‘ وہ بھی قابلِ دید ہوتا۔ اس طرح پوری اپوزیشن بیک فٹ پر جا سکتی تھی اور یہ معاملہ اپوزیشن جماعتوں کے گلے کی پھانس بن جاتا کہ مقدمہ درج کر کے کارروائی کی جاتی تو مصیبت تھی‘ نہ کی جاتی تو مصیبت تھی۔
اپوزیشن کی ذہنی استعداد کا اندازہ کیجئے کہ کیپٹن (ر)صفدر پر ایف آئی آر درج ہونے کے بعد مسلم لیگ نواز کے سوشل میڈیا سیل سے جو تحریر وائرل کی گئی اس میں سوال کیا گیا تھا ''اگر مزارِ قائد پر فوج کا بینڈ بجایا جا سکتا ہے تو کیپٹن (ر)صفدر کے نعروں پر تکلیف کیوں؟‘‘۔ کیا اب انہیں فوج کے بینڈ سے بھی تکلیف ہونے لگی ہے؟ اعتزاز احسن جیسے معروف وکیل کا بیان اور مشہور مصنف مستنصر حسین تارڑ کا مزارِ قائد کی بے حرمتی پر خون کے آنسو رلا دینے والا کھلا خط‘ دونوں سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے حوالے سے ہر پاکستانی دل گرفتہ ہے۔ اس واقعے کے بعد پوزیشن گٹھ جوڑ کے خلاف پڑھے لکھے اور ملک کے باشعور طبقات کے دلوں میں جو غصہ بڑھ رہا تھا‘ اس کا رخ اچانک اداروں کی جانب کس نے موڑا؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب جنوری تک 'سب کچھ ملیامیٹ کرنے کی سوچ رکھنے والوں‘ کے اصل عزائم تک پہنچا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved