تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     24-10-2020

پیپلز پارٹی جم گئی؟

کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد کیپٹن (ر) صفدر کی ڈرامائی انداز میں گرفتاری اور رہائی جیسے بظاہر معمولی واقعے نے پیپلز پارٹی جیسی مفاہمت پسند جماعت کو بھی سیاسی مزاحمت کی راہ دکھا کر بدعنوانی کے مقدمات اور سندھ کی صوبائی حکومت کھو جانے کے نفسیاتی خوف سے نجات دلا کر نئی زندگی بخش دی ہے۔ صوبائی اسمبلی میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی تازہ تقریر اسی سرشاری کی کلاسیک مثال تھی۔ اگر یہ ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آتا تو باغِ جناح کے عظیم الشان جلسے کے باوجود بلاول بھٹو زرداری اور ان کی جماعت اس قدر آسانی کے ساتھ اُس نادیدہ دبائو سے باہر نکلنے میں کامیاب نہ ہوتے جس نے پچھلے بارہ سالوں سے اس کے سیاسی ارتقا کو منجمد کر رکھا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کو خوف و ترغیب کے جس میکانزم کے ذریعے سنبھالا گیا تھا‘ اس کے مہلک اثرات نے انہیں عوامی حمایت کے سرچشمے سے توانائی لینے کے بجائے لیلائے اقتدار کے ساتھ ہم آغوش رہنے کا خُوگر بنا دیا تھا لیکن اربابِ بست و کشادکی حالیہ پیش دستی نے نہ صرف سندھ حکومت کو آنکھیں دکھانے کا حوصلہ دیا بلکہ پولیس جیسی پیش پا افتادہ فورس کو بھی اپنی کھوئی ہوئی ڈومین واپس لینے کی ہمت عطا کر دی۔ لگتا ہے کہ اب پیپلز پارٹی نے بدعنوانی کے مقدمات کی مہیب گونج اور ایک مہمل سے اقتدار کی فسوں کاریوں کا حصار توڑ کے اُس پرانی ڈگر پہ واپس پلٹنے کا تہیہ کر لیا ہے جسے وہ مدت سے فراموش کر چکی تھی۔ بلاشبہ اس کایا کلپ کا محرکِ اوّل کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کا واقعہ بنا جس نے جمہوریت کی علامت جماعت کو پھر سے راہروِ شوق بنا دیا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہی چھوٹا سا واقعہ سندھ کی سیاست کو ایسے نئے افق سے روشناس کرائے گا جس کی جہتیں اب خوف کے طلسم ہوشرباکی تمام زنجیریں توڑ سکتی ہیں۔
نوازشریف کے داماد کی صوبائی اتھارٹی سے ماورا گرفتاری پہ پیپلز پارٹی کے موقف نے نہ صرف اس کے اندرسوئی ہوئی جمہوری آرزوئوں کو جگایا بلکہ اِس پیش قدمی نے ملک بھر میں اس کی ڈوبتی ہوئی ساکھ کو بھی تقویت پہنچائی ہے۔ سندھ میں اگر سیاسی کلچر کے مفاہیم بدلے تو کراچی اور حیدرآباد کی اجڑی ہوئی سیاست کی راکھ سے پیپلز پارٹی کے لئے امید کی ایک نئی صبح نمودار ہو سکتی ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ مزارِ قائد پہ نعرہ بازی کی پاداش میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری دونوں بڑی جماعتوں کے مابین باہمی اعتماد کے رشتوں کو توڑنے کی خاطر چلی جانے والی سیاسی چال تھی لیکن عملاً یہ مبینہ چال پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو باہم مربوط رہنے کا سبق پڑھا گئی۔ غیر روایتی انداز میں کی جانے والی کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری پہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا واضح موقف اور اس مقدمے سے سندھ حکومت کی اعلانیہ لا تعلقی نے اپوزیشن کی مزاحمتی تحریک کو زیادہ پُراثر بنا دیا؛ تاہم سیاست کے ان ہنگاموں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، یونانی کہتے تھے کہ سیاست زندگی نہیں بلکہ نقشِ زندگی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے‘ یہ ناگوار کشمکش قیامِ پاکستان سے مقتدر اور مقہور کے تعلقات میں پیدا ہونے والی کھنڈت کو بہت جلد سیاسی توازن میں ڈھال دے گی۔ 
اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ہمارے سیاست دانوں نے ستّر سالوں پہ محیط طویل اور جاں گسل جدوجہد کے ذریعے عوامی حاکمیت کے اُس تصور کو زندہ رکھا جس کی آرزو ہمارے سماجی شعورکے اندر کبھی پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ صدیوں کی غلامی کے باعث عام لوگوں میں بنیادی آزادیوں کا ادراک اور سیاسی حقوق کا شعور مفقود تھا، اس لئے ضروری اور مفید چیزوں کو لوگ ادنیٰ اور حقیر سمجھتے ہیں اور ان چیزوں کی تعریف کرتے ہیں جو غیر معمولی اور حیرت انگیز ہوں؛ چنانچہ عوام کے دل و دماغ میں سیاسی حقوق کے احساس کو بیدار کرنے کے لئے ہماری سیاسی لیڈرشپ کو سات دہائیوں تک جمہور کی بالادستی کی بحث کو زندہ رکھنے کی خاطر بے پناہ قربانیاں دینا پڑیں۔ 
ہماری قومی سیاست کا ارتقا سیاسیات کے طالب علموں کے لئے تحقیق و جستجو کا نہایت دلچسپ موضوع بن سکتا ہے۔ جس طرح اس ملک کی سیاسی لیڈر شپ نے شہریوں کے سیاسی حقوق کی جنگ میں زندگیاں کھپا دیں، قوم کی اکثریت کو سیاسی حقوق کا شعور اور لیڈر شپ کی قربانیوں کا احساس تک نہ تھا‘ اسی طرح آج ہماری مقتدرہ جس ففتھ جنریشن وار فیئر کی دہائی دیتی ہے‘ اس کا عوام تو کجا یہاں کے تعلیم یافتہ طبقات کو بھی ادراک حاصل نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ایک تو انگریزوں سے آزادی کی تحریک نہایت برق رفتاری کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچی‘ دوسرے، اس جدوجہد کے دوران سیاسی حقوق اور سماجی شعور کی آبیاری کے برعکس ہندو، مسلم منافرت کی لہروں نے فرقہ وارانہ تعصبات کو گہرا کرکے سماج کے اندر سیاسی ارتقا کی افزائش روک دی، اس لئے مملکت کے حصول کے بعد ہمارے سیاستدانوں کو انتظامی ڈھانچے کے اندر تقسیمِ اختیارات اور شہریوں کے بنیادی و سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر آئینی نظام کی تشکیل کے لیے خاطرخواہ عوامی حمایت نہ مل سکی۔ عوام کی اکثریت بلکہ خواص بھی‘ سیاسی نظام کے ارتقا کی اہمیت سے ناواقف اور جمود پرور آمریتوں کی حمایت میں عافیت تلاش کرتے رہے؛ چنانچہ قائد اعظم کی وفات کے بعد ابتدائی دور کے سیاستدانوں خاص کر قائد ملت لیاقت علی خاں، حسین شہید سہروردی، ایوب کھوڑو، چوہدری محمد علی اور ممتاز دولتانہ سمیت کئی عظیم لیڈر سیاسی نظام کی استواری میں ناکام رہے۔ یہ ذولفقارعلی بھٹو تھے جنہوں نے اپنی کرشماتی شخصیت کے بل بوتے پر آزادی اور مساوات کے نعروں کو قبولیتِ عامہ دینے میں کامیابی پائی لیکن بوجوہ بھٹو صاحب کی جدوجہد سے جڑا ذہنی ارتقا کا یہ سفر بھی رائیگاں گیا، بلکہ ان کے بعد آنے والے سیاستدانوں نے طاقت کے مراکز کے ساتھ سودے بازیوں میں الجھ کے جمہور کے سیاسی حقوق کی بحالی کی جدوجہد کی رخ گردانی میں بقا تلاش کر لی، اس لئے وہ اپنی ساکھ اور منزلِ مقصود‘ دونوں گنوا بیٹھے۔
اب سوشل میڈیا کے اس پُرزور اور پیچیدہ عہد میں سماجی رابطوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مباحثوں نے عوام کے اندر سیاسی حقوق کے بارے میں آگاہی بڑھا دی۔ اسی لئے نوازشریف سیمت نئی ابھرتی ہوئی سیاسی قیادت کو سویلین بالادستی کے حصول کی جدوجہد میں بے پناہ عوامی حمایت ملی ہے جس نے موجودہ سیاستدانوں کے لئے مقصدکا حصول آسان بنا دیا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ذمہ دار ادارے قوم کو بدستور ففتھ جنریشن وارفیئر کے خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں لیکن عام آدمی تو کجا‘ خواص بھی اس جنگ کی حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے، لہٰذا اس مہیب جنگ کے نظر نہ آنے والی ہتھیاروں نے مملکت کے ڈھانچے میں گہری دراڑیں ڈال دی ہیں۔
تاریخ کے ابتدائی دنوں میں نسلِ انسانی نے معاشروں کو تاراج کرنے والے ڈاکوئوں اور لٹیروں کی سرکوبی کے لئے قومی لشکر تشکیل دیے دوسرے مرحلے میں قیامِ امن کی خاطر انسان نے مملکتوں کے تابع منظم فوجیں تشکیل دے کر انہیں تیر وتلواراور گھوڑوں سے کمک فراہم کی۔ تیسری نسل (جنریشن) کو اپنی بالادستی قائم رکھنے کی خاطر بندوقیں، توپیں اور ٹینک استعمال کرنا پڑے۔ چوتھی نسل نے مملکت کے خلاف جارحیت کو روکنے کیلئے بری، بحری اور فضائی فورسز استعمال کیں مگر اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی بھی مچی۔اسی لیے اب جنگ کی حکمت قدرے تبدیل ہو گئی ہے۔ اب پانچویں نسل (ففتھ جنریشن) میں دشمن کے دفاعی نظام کو کمزور کرنے کی خاطر پہلے فوج اور عوام کے درمیان بداعتمادی پیدا کی جاتی ہے، دوسرے مرحلے میں تفریق کو بڑھاوا دیا جاتا ہے،اور پھر تصادم کی آگ بھڑکا کر انہیں اندر سے توڑ دیا جاتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں سب سے مہیب طریقۂ جنگ یہی ہے، ہمارے سامنے عراق،شام، سوڈان اور لیبیا کو اسی ففتھ جنریشن وار اسٹر یٹیجی کے ذریعے اندر سے منقسم کیا گیا ‘بعد ازاں بیرونی جارحیت سے برباد کر دیا گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved