پاکستانی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ اوور سیز پاکستانیوں کی طرف دیکھا جاتا رہا ہے۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی بیرونی ممالک سے ڈالروں کی بارش شروع ہو جائے گی لیکن حقائق ایک سو اسی ڈگری کے زاویے سے بدل گئے۔ اسی طرح دیا میربھاشا ڈیم کے لیے وزیراعظم نے اپیل کی لیکن بیرونِ ملک موجود پاکستانیوں نے اتنے ڈالرز بھی نہیں بھیجے کہ ڈیم فنڈ کے لیے بیرونِ ملک آنے جانے کے اخراجات ہی پورے ہو جاتے۔ اس فنڈ میں زیادہ رقم افواجِ پاکستان، سرکاری ملازمین اور بینک سٹاف کی تنخواہوں میں کٹوتی سے جمع ہوئی۔ اس پروجیکٹ نے پاکستانیوں سے متعلق ڈونیشن دینے کے بھرم کو نقصان پہنچایا لیکن فائدہ یہ ہوا کہ حکومت کو اندازہ ہو گیا کہ جب تک کوئی مالی مفاد نہیں دیا جائے گا‘ اوور سیز پاکستانیوں سے ڈالرز نہیں منگوائے جا سکتے۔ حتیٰ کہ دوست ممالک اگر ہمیں ڈالر دیتے ہیں تو اس کے بدلے وہ اپنے مفادات بھی حاصل کرتے ہیں۔ سعودی عرب نے تین بلین ڈالرز دیے اور ہمیں ملائیشین سمٹ میں جانے سے روک دیا۔ آئی ایم ایف نے قرض دیا اور سی پیک معاہدوں کی تفصیلات مانگ لیں۔ امریکا نے یو اے ای کے ذریعے امداد دی اور سی پیک میں سست روی کی صورت حال پیدا کر دی گئی۔ چین نے قرض دیا تو شرح سود اپنی مرضی کی متعین کی۔
معاشیات کی مشہور کہاوت ہے کہThere is no such thing as a free lunch۔ دنیا اسی اصول کے تحت چل رہی ہے۔ کچھ لینے اور کچھ دینے کی بنیاد پر ہی مطلوبہ مفادات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اب روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سکیم اس کی عملی صورت ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو بیرونِ ملک سے پاکستان میں اکائونٹ کھلوانے اور وہیں سے آپریٹ کرنے کی سہولت مہیا کرنا قابل ستائش ہے۔ اس سہولت سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی مکمل ڈیجیٹل اورآن لائن طریقہ کار کے ذریعے اپنااکائونٹ کھول سکیں گے اورانہیں بینک کی شاخ، سفارت خانے یاقونصل خانے جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ اکائونٹ فارن کرنسی اور ملکی کرنسی‘ دونوں میں کھولا جا سکتا ہے۔ فکسڈ ڈیپازٹس پر عمومی شرح سود سے دو گنا زیادہ منافع فراہم کرنا ایک پُرکشش آفر ہے۔ اس وقت زیادہ تر ممالک میں شرح سود یا تو صفر ہے یا صفر اعشاریہ پانچ فیصد جبکہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے تحت تقریباً دس سے گیارہ فیصد تک منافع دیا جائے گا۔ یہ ایک طرح سے بمپر آفر ہے جو شاید دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں نہیں دی جا رہی۔ اب اس سکیم سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے پاس اپنا پیسہ پاکستانی بینکوں میں رکھنے کی سہولت ہوگی بلکہ اس سے نہ صرف انہیں فائدہ ہو گا بلکہ ملک کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ اس آفر کے بعد یہ امکانات بھی کم ہیں کہ اکاؤنٹ ہولڈرز بہت جلد پیسہ نکلوا لیں گے کیونکہ بیٹھے بٹھائے اس سے بہتر منافع ان کو کہیں بھی نہیں مل سکے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت کم و بیش 90 لاکھ پاکستانی بیرونِ ملک مقیم ہیں اور وہ سالانہ اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے اندازاً 23 بلین ڈالر ترسیلاتِ زر کی صورت میں پاکستان بھیجتے ہیں۔
حکومت پاکستان اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف اداروں کو سکوک بانڈز جاری کرتی رہتی ہے جس پر منافع غیر ملکیوں کو منتقل ہوتا ہے جبکہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ سکیم سے منافع پاکستانیوں کے اکائونٹس میں ہی منتقل ہو گا۔ اگر کسی وجہ سے وہ فکسڈ ڈیپازٹ کیش بھی کرواتے ہیں تو نوے فیصد سے زیادہ چانسز ہیں کہ وہ پاکستان میں ہی کوئی جائیداد خریدیں گے یا یہ رقم کسی کاروبار میں لگا دیں گے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ گھر کا پیسہ ایک جیب سے نکل کر دوسرے کی جیب میں منتقل ہو جائے گا لیکن گھر سے باہر نہیں جائے گا۔ اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ اس سکیم کے تحت تقریباً ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالرز پاکستان کو حاصل ہو چکے ہیں، یہ تقریباً ایک ماہ کی کارکردگی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے کم و بیش چھ ارب ڈالر کا قرضہ لینے کے لیے سخت ترین شرائط قبول کی تھیں۔ اب امید کی جا رہی ہے کہ چند ماہ میں روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں رقم سات بلین ڈالرز سے تجاوز کر جائے گی۔ ماضی میں زرمبادلہ کا توازن برقرار رکھنے کے لیے بیرونی ممالک، امداد، فنڈز اور قرضوں پر انحصار کیا جاتا رہا ہے جس سے وقتی طور پر تو کچھ سہارا مل جاتا ہے مگر لانگ ٹرم میں زیادہ تر نقصان ہی ہوتا ہے، اب چونکہ امداد، فنڈز یا قرضوں کی طرح ان رقوم پر کوئی بھاری شرائط نہیں ہوں گی تو حکومت پالیسی سازی میں بھی خود مختار ہو گی جبکہ جبکہ معیشت کا پہیہ بھی رواں رہے گا۔یہ یقینی طور پر درست سمت کا انتخاب ہے جس کے مستقبل قریب میں کافی ثمرات ظاہر ہوں گے۔
دوسری طرف ریکوڈک معاملے پر پاکستان کو سٹے مل جانا بھی خوش آئند اور محنت کا ثمر ہے۔ پچھلے سال یورو بانڈز جاری کرنے میں ریکوڈک کا چھ ارب ڈالر جرمانہ سب سے بڑی رکاوٹ بنا رہا۔ شکوک و شبہات نے بیرونِ ملک سرمایہ کاروں کو کنفیوز کیے رکھا۔ جس کا خمیازہ پاکستانیوں نے مہنگائی کی شکل میں بھگتا۔ اس سال سٹے ملنے کے بعد سے حکومت برق رفتاری دکھا رہی ہے کیونکہ بیرونی سرمایہ کاروں کے پاس فنڈز کی کثرت ہے اور کورونا کی وجہ سے سرمایہ کاری کی آپشنز بھی محدود ہو گئی ہیں۔ ان حالات میں اچھے ریٹ پر بانڈز جاری کیے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بین الاقوامی اقتصادی ایڈوائزر ز ہائر کرنے کے لیے اشتہار دے دیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ بہت جلد یورو بانڈ جاری کر دیے جائیں گے۔ یہ کام جتنا جلد ہو جائے‘ بہتر ہے، کیونکہ ریکوڈک پر سٹے اگلی سماعت میں ختم بھی ہو سکتا ہے۔
اس وقت خوش خبری یہ بھی ہے کہ پاکستان میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہو رہا ہے۔ اس وقت ڈالر گزشتہ پانچ ماہ کی کم ترین سطح پر ہے اور 162روپے پر پہنچ چکا ہے۔اس کی اہم وجہ ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہے۔ مسلسل تین ماہ سے دو بلین ڈالرز سے زیادہ ترسیلات موصول ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ بیرونِ ملک موجود پاکستانیوں کا عمران خان کی حکومت پر اعتمادمضبوط ہو رہا ہے۔ پچھلے چند ماہ ایف اے ٹی ایف کے بل کی تیاری اور منظوری کی خبر زیر گردش تھی‘ جس کی وجہ سے ہنڈی کا استعمال بتدریج کم ہوا اور آفیشل چینلز کے ذریعے رقوم پاکستان بھیجی گئیں۔ اسی طرح ایک طرف حکومت نے درآمدات پر بے پناہ ٹیکس لگا کر ان کا رجحان کم کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف ہمسایہ ممالک میں کورونا کے وار کی شدت سے پاکستانی درآمدات انتہائی نچلی سطح پر چلی گئیں اور ٹیکسٹائل کی برآمدات بڑھ گئیں‘ نتیجتاً ڈالر وافر مقدار میں میسر آئے۔
اگر ٹیکس ریونیو کی بات کریں تو نئے مالی سال کے پہلے کوارٹر (سہ ماہی) کا ٹیکس ٹارگٹ نہ صرف حاصل کر لیا گیا ہے بلکہ بجٹ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ بلا واسطہ ٹیکسز میں ہوشربا اضافے کو بتایا جا رہا ہے لیکن مثبت عمل یہ ہے کہ جو ٹیکس عوام دے رہے ہیں‘ وہ سرکاری خزانے میں جمع بھی ہو رہا ہے۔ لاک ڈائون ختم ہو جانے کے بعد تقریباً تمام کاروباری سرگرمیاں مکمل بحال ہو چکی ہیں اور عوام نے خریداری بھی معمول سے زیادہ کی ہے۔ خیر وجہ کوئی بھی ہو‘ اچھی خبر کانوں کو بھلی لگتی ہے۔ موسم کی تبدیلی کی طرح یہ خبریں بھی حالات میں بہتری کی نوید سنا رہی ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ مستقل مزاجی سے انہی پیرا میٹرز پر معیشت کو لے کر چلے۔ گو کہ یہ مشکل وقت ہے لیکن درست فیصلے کرنے کا اہم ترین وقت بھی یہی ہے۔