تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-10-2020

مقابلہ برابر رہا!

حالیہ تاریخ میں عمران خان دنیا کے شاید واحد حکمران ہیں جو ابھی تک اپنے آپ کو اپوزیشن لیڈر ہی سمجھ رہے ہیں۔ ان کو گزشتہ دو سال کی وزارت عظمیٰ کے باوجود ابھی تک یہ یقین نہیں آیا کہ وہ مملکت خداداد پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور ان کا تعلق اب ملک کی اپوزیشن پارٹی سے نہیں حکمران پارٹی سے ہے۔ دنیا بھر کے حکمران مسند اقتدار پر بیٹھتے ہیں تو ان کا رویہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ بحیثیت حکمران ہمہ وقت عوام کی بہتری، فلاح و بہبود اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ وہ اس دوران کوشش کرتے ہیں کہ اپوزیشن کو ٹھنڈا کیے رکھیں اور اپنی ساری صلاحیتیں مثبت اور تعمیری کاموں میں صرف کریں‘ لیکن ادھر حال یہ ہے کہ خان صاحب اور ان کی ساری ٹیم سپین کے بل فائٹرز کی طرح ہمہ وقت سرخ کپڑا ہاتھ میں پکڑے اپوزیشن کے سامنے لہراتی رہتے ہیں۔ انگریزی میں ایسی صورتحال کیلئے Red rag to a bull کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔
خان صاحب کی ساری توجہ اپوزیشن کی واٹ لگانے پر لگی ہوئی ہے۔ ان کی ساری تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں۔ وہ ہر تقریر میں اپوزیشن کو بالعموم اور نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو بالخصوص رگڑا لگانے کے زبانی کلامی دعووں کے علاوہ اور کوئی بات کم ہی کرتے ہیں۔ یہ رویہ کسی بھی سنجیدہ حکمران کا نہیں ہو سکتا‘ لیکن یہ بات صرف خان صاحب پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ ان کی ساری پارٹی، ساری کابینہ اور ان کے مشیر اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر شہزاد اکبر تو لگتا ہے صرف نواز شریف اینڈ کمپنی کا مکو ٹھپنے کی غرض سے مشیر کے عہدے پر فائز کیے گئے ہیں۔ یہ اور بات کہ عملی طور پر ان کی کارکردگی ابھی تک صفر بٹا صفر سے ایک انچ آگے نہیں بڑھی۔
خان صاحب کو تقریر کرنے کا بے پناہ شوق ہے اور کیوں نہ ہو؟ وہ اس مقام پر اپنی گفتگو اور تقریر کے زور پر ہی پہنچے ہیں۔ ہم ایسوں نے ان کی زبانی کلامی گفتگو سے متاثر ہو کر ہی ان کو اس مقام تک پہنچایا ہے اور ان کے دل میں یہ چیز راسخ ہو چکی ہے کہ وہ دنیا کا ہر کام اپنی زبانی کلامی والی گفتگو اور تقریر سے کر سکتے ہیں۔ ویسے یہ بات درست ہے کہ اگر دنیا بھر کے مسائل کا حل صرف اور صرف تقاریر ہوتیں تو خان صاحب دنیا کے کامیاب ترین حکمران ہوتے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ بقول شاہ جی ہمیں چاہیے تھاکہ آئین میں ترمیم کرکے دو عدد وزرائے اعظم کی گنجائش نکالتے۔ ایک وزیراعظم ملک کے مسائل حل کرتا، عوام کی تکلیفیں دور کرتا اور نظام حکومت کو بہتر انداز میں چلاتا اور دوسرا وزیراعظم عوام سے خطاب کرتا، اقوام متحدہ میں تقاریر کرتا اور غیرملکی میڈیا کو انٹرویو دیتا۔ اس دوسرے وزیراعظم کے لیے ظاہر ہے عمران خان سے بہتر انتخاب ممکن ہی نہیں تھا؛ البتہ پہلے وزیراعظم کی تلاش و جستجو ایک مشکل کام ہوتا۔
خان صاحب نے میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کو رگڑا لگانے کے شوق میں پوری قوم کو رگڑا لگا دیا ہے۔ خان صاحب کے ملک چلانے کے لیے جو منصوبے تھے ان میں معاشی پہلو تو بڑا آسان تھا کہ وہ دس ارب روپے روزانہ والی کرپشن بند کر دیں گے، دو سو ارب ڈالر سوئس بینکوں سے نکلوائیں گے۔ آٹھ دس ارب ڈالر نواز شریف اور زرداری سے وصول کریں گے۔ بیرون ملک پاکستانی ڈالروں کی برسات کر دیں گے یوں ملک کا سارے کا سارا بجٹ ٹیکس فری ہو گا اور نہ صرف بجٹ ٹیکس فری ہو گا بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سارے قرضے ان کے منہ پر مار کر عالمی معاشی اداروں کی غلامی سے نجات حاصل کی جائے گی‘ لیکن صورتحال یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کے بقول گزشتہ دو برسوں میں صرف غیرملکی قرضوں کی مقدار سترہ ارب ڈالر مزید بڑھ گئی ہے۔ لَئو کر لَئو گل!
خان صاحب کا سارا زور صرف اپوزیشن کو برا بھلا کہنے، ان کی طبیعت صاف کرنے اور محض اعلانات کرنے میں لگ رہا ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ آنے والی سردیوں میں گیس کا بحران شدت اختیار کر جائے گا۔ کبھی فرماتے ہیں آلودگی کے باعث دسمبر تک کورونا کی شدت بڑھ جائے گی۔ کبھی گل افشانی فرماتے ہیں کہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ آگے بہت سخت اور مشکل وقت آنے والا ہے۔ کبھی حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ ایشیا میں سب سے سستا پٹرول ہم نے کیا۔ اسے غائب کس نے کروایا؟ کبھی کہتے ہیں کہ لاک ڈان اشرافیہ نے کروایا۔ ہر چوتھے دن اعلان فرماتے ہیں کہ ملک میں ساری خرابیوں کی جڑ مافیاز ہیں۔ اللہ کے بندے! یہ ساری باتیں تو ہم کو معلوم ہیں۔ بطور وزیراعظم آپ نے ہمیں اطلاعات فراہم نہیں کرنی، ہمیں خبریں نہیں سنانی، ہمیں اپنی مستقبل بینی کی بے پایاں قوت سے مرعوب نہیں کرنا بلکہ ان مسائل کا حل نکالنا ہے۔ آپ اس ریاست کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ لیکن ہو کیا رہا ہے؟
خان صاحب کو ابھی تک، یعنی دو سال گزرنے کے باوجود یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ملک تقریروں سے نہیں چلتے۔ اقتصادیات اسحق ڈار کو برا بھلا کہنے سے درست نہیں ہوتیں۔ مہنگائی نواز شریف کے لتے لینے سے کم نہیں ہوتی۔ برآمدات گزشتہ حکمرانوں کے کرپشن کے قصے بیان کرنے سے نہیں بڑھتیں۔ ڈالر کی قیمت دعوے کرنے سے کم نہیں ہوتی۔ ایک کروڑ نوکریاں منہ پر ہاتھ پھیر کر مخالفین کو جیل میں ڈالنے کے اعلان سے پیدا نہیں ہوتیں۔ پچاس لاکھ گھر دھڑادھڑ ریفرنس بنا کرنہیں بنائے جا سکتے۔ اس کیلئے ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنا ہوگا اور وہ بائیس سال سے کی جانے والی پرانی تقریروں کو تسلسل سے دہرانے سے بہتر نہیں ہوگی۔ برآمدات بڑھانا ہوں گی، بجلی کی قیمت کم کرنا ہوگی کہ اس کے بغیر آپ کی مصنوعات عالمی منڈی میں دوسرے ملکوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ زراعت پر توجہ دینی ہوگی اور نااہل دوستوں سے، نالائق مشیروں سے اور فارغ قسم کے وزیروں سے جان چھڑوانی ہوگی۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ خواہش کے باوجود مجھے یہ سب کچھ محال نظر آتا ہے کہ پوت کے پائوں پالنے میں ہی پہچانے جاتے ہیں۔ اور ہمیں تو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے پورے دو سال ہو گئے ہیں۔ اگر کچھ ہونا ہوتا تو کم از کم اس کی ابتدا دکھائی دے رہی ہوتی۔
خان صاحب کی ساری صلاحیتیں (واقعی یہ ہیں بھی سہی؟) ابھی تک مخالفین کو رگڑا لگانے میں صرف ہو رہی ہیں اور اس میں عوام مارے جا رہے ہیں۔ سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی صابو کو بخار ہو گیا۔ ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے بتایاکہ ملیریا ہے۔ پوچھا: کیسے ہوا؟ ڈاکٹر نے کہا کہ مچھر کے کاٹنے سے۔ اب کیا تھا۔ گائوں کے سارے نوجوان لاٹھی، بلم، برچھی، کلہاڑی اور کرپانیں لے کر مچھروں کو تلف کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ دن کو مچھر کہاں ملتے؟ شام کے وقت واپس آ رہے تھے کہ اچانک سریندر سنگھ نے دیکھا کہ ایک مچھر بلونت سنگھ کے کان کے اوپر بھنبھنا رہا ہے۔ اس نے منہ پر انگلی رکھ کر سب کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا اور گاؤں کے سب سے بہترین لاٹھی چلانے والے بلبیر سنگھ کو انگلی کے اشارے سے ہدف دکھایا۔ بلبیر نے دونوں پائوں جوڑ کر لاٹھی گھمائی اور پوری قوت سے مچھر کو مار دی۔ راوی مچھر کی ہلاکت کے بارے میں خاموش ہے؛ تاہم، سریندر سنگھ کا دعویٰ تھا کہ مچھر مارا گیا تھا؛ البتہ بلونت سنگھ موقع پر ہی پرلوک سدھار گیا۔ واپس آ کر گائوں میں بتایا گیا کہ مقابلہ برابر رہا ہے۔ ایک ہماری طرف سے اور ایک ان کی طرف سے مارا گیا ہے۔ اسی طرح راوی نواز شریف کے رگڑے بارے خاموش ہے؛ البتہ اس لڑائی میں عوام بری طرح مارے گئے ہیں۔ اگر خان صاحب سے پوچھیں تو مقابلہ برابر رہا ہے۔ میاں صاحب مفرور ہیں اور عوام مقتول۔ ایک ادھر سے اور ایک ادھر سے مارا گیا ہے، مقابلہ برابر رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved