سکندر مرزا پاکستان کی سیاست کا ایک سبق آموز کردار ہیں۔ پاکستان کی مختصر تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے تاریخ سے جو سبق ہم نے سیکھا ہے، وہ صرف اتنا ہے کہ ''کچھ نہیں سیکھا‘‘۔ سکندر مرزا کا بیوروکریٹ سے صدر پاکستان بننے کا سفر سوائے پاور پالیٹکس کے کچھ نہیں۔ گورنر جنرل غلام محمد کو ان کے عہدے سے ہٹا کر 1955 میں خود صدر بن بیٹھے۔ دو سالوں میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے 4 وزرائے اعظم کو چلتا کیا اور آخر میں خود اپنی پارٹی کے خلاف تعینات کردہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کا شکار ہوئے۔ سکندر مرزا غالباً وہ پہلے حکمران تھے جنہوں نے ہائبرڈ طرز پر حکومت چلانے کی کوشش کی۔
کئی کتابوں کے مصنف، الطاف گوہر، بنیادی طور پر بیوروکریٹ تھے۔ بعداز ملازمت روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر بنے۔ اپنی سول سروس کے واقعات پر مبنی کتاب ''گوہر گزشت‘‘ میں سکندر مرزا سے پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 1954ء کی ایک شام کو ڈھاکہ میں ان سے ملاقات ہوئی۔ میں اس وقت محکمہ داخلہ میں ڈپٹی سیکرٹری تھا۔ صوبائی اسمبلی اور منتخب وزیر اعلیٰ حضرت اللہ کو اسی دن برطرف کیا گیا تھا اور مرکزی حکومت نے سکندر مرزا کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا تھا۔ سکندر مرزا کی تقرری کی خبر نے صوبے پر سراسیمگی طاری کر دی تھی اور تمام سیاسی کارکن اور مرکزی حکومت کے مخالفین زیر زمین چلے گئے تھے۔ سکندر مرزا کو پولیٹیکل سروس کے زمانے میں چنگیز خان کہا جاتا تھا۔ میں گورنر ہاؤس کے ایک اہلکار کے ہمراہ گورنر کے بیڈروم کے ساتھ والے لان میں پہنچا تو وہاں چیف سیکرٹری نعیم خان اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس انوارالحق پہلے سے موجود تھے۔ ان کے چہروں سے ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی بلائے ناگہانی کے منتظر ہوں۔ میں نے بھی ایک کرسی سنبھالی اور کمرے کی دیوار پر لگے ہوئے کلاک کو دیکھنے لگا جو گردوپیش سے بے نیاز ٹک ٹک کرتے وقت کے گزرنے کا اعلان کر رہا تھا۔ اچانک بھاری پردوں کے پیچھے سے سکندر مرزا، لال رنگ کا ڈریسنگ گاؤن پہنے ہوئے نمودار ہوئے اور زور سے بولے: ان تمام غنڈوں کی فوری گرفتاری چاہتا ہوں‘ کل صبح تک15 سو لوگ اندر کردیئے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی لال گاؤن والی شخصیت پردے کے پیچھے غائب ہو گئی‘‘۔ انوارالحق نے فوری طور پر 15 سو کے ہندسے کو 17 سے تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ صوبے میں ضلعوں کی تعداد 17 تھی اور وہ پریشان تھے کہ تقسیم میں باقی بچنے والے 4 کے ہندسہ کا کیا کریں۔ این ایم خان بڑے عقدہ کشا شخص تھے‘ بولے: میمن سنگھ بڑا ضلع ہے وہاں سے چار لوگ اور پکڑ لو۔ اگلی صبح تک 15 سو لوگ گرفتار ہو چکے تھے۔ ان میں ڈرائیور‘ محنت کش، بے گناہ مسافر، غریب خوانچے والے سب شامل تھے۔
دو چار ہفتے بعد مجھے پھر گورنر ہاؤس طلب کیا گیا۔ سکندر مرزا نے کہاکہ ٹریڈ یونین کے عہدیدار بڑی سازشیں کر رہے ہیں‘ میں تمہیں 10 لاکھ کی گرانٹ دے رہا ہوں جتنی جلدی ہو سکے ان انجمنوں کو اپنے قابو میں لے آؤ۔ مجھے اس طرح کے کاموں کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور نہ سرکاری خزانے کے مال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے کی ہمت تھی۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ تجارتی انجمنوں سے رابطہ کیسے قائم کروں۔ ان دنوں میری مشرقی پاکستان کے مشہور مصور زین العابدین سے بڑی دوستی تھی۔ میں ان کے ہاں پہنچا اور بڑے رازدارانہ انداز میں انہیں بتایاکہ میرے ہاتھ 10 لاکھ آگئے ہیں‘ اگر تجارتی انجمنوں کے عہدیداروں سے ملاقات کروا دیں تو یہ روپے کام آ جائیں گے۔ زین العابدین اچھل پڑے، بولے: یہ تو بہت اچھا ہوا‘ ہم مشرقی پاکستان کے ہر ضلع سے فولک آرٹ کے نمونے اکٹھے کرتے ہیں‘ ڈھاکہ میں ان کی نمائش کریں گے‘ نمائش کا افتتاح گورنر صاحب کریں گے اور تجارتی انجمنوں کے سارے عہدیدار پہلی صف میں بیٹھے ہوں گے۔ نمائش کے بعد انہیں گورنر صاحب سے ملا دیں گے۔ مجھے یہ تجویز بے حد پسند آئی۔ ڈھاکہ میں عوامی تصویروں کی ایک تاریخی نمائش کی گئی‘ سکندر مرزا نے نمائش کا افتتاح کیا اور مصوری کے موضوع پر لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ نمائش ختم ہوئی تو سکندر مرزا نے تجارتی انجمنوں کے عہداروں سے بڑے جوش سے ہاتھ ملایا۔ ڈھاکہ میں سکندر مرزا کی تصویر شناسی کی دھوم مچ گئی۔ آج تک وہ تصویریں ڈھاکہ کی قومی آرٹ گیلری میں محفوظ ہیں۔ مشرقی پاکستان کو تسخیر کرنے کے بعد سکندر مرزا واپس کراچی چلے گئے‘ اس کام میں ان کو کوئی تین ماہ لگ گئے۔ کراچی پہنچ کر انہوں نے سیاسی اقتدار کے سوداگروں سے ملاقاتیں شروع کیں اور بہت جلد اس بات پر رضامند کرلیا کہ معذور اور صاحب فراش گورنر جنرل غلام محمد سے نجات حاصل کرکے صدر مملکت کا عہدہ ان کے حوالے کر دینا چاہیے۔ سکندر مرزا نے تمام صوبوں کے وزیروں کو جمع کیا اور اپنی مرضی کے وزیر اعلیٰ مقرر کردیئے۔ ملک میں مرزا کا راج قائم ہوگیا۔ ان کی مرضی کے بغیر نہ کوئی وزیراعظم بن سکتا تھا اور نہ ہی وزیر اعلیٰ۔ حسین شہید سہروردی کو وزیراعظم بنانے کے لیے انہیں بڑی تگ و دو کرنا پڑی۔ فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خان کو سہروردی پر اعتبار نہیں تھا۔ سکندر مرزا نے ایوب خان کی سہروردی سے ملاقات کرائی۔ ایوب خان، سہروردی کی حمایت کے لیے تیار ہوگئے‘‘۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں: حسین شہید سہروردی کی حکومت رفتہ رفتہ قدم جمانے لگی۔ سکندر مرزا کے لیے یہ صورتحال قابل قبول نہ تھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ سہروردی پنجاب اور سرحد کے سیاستدانوں کی حمایت حاصل کرلیں اور ان کی اطاعت گزاری چھوڑ دیں۔ انہوں نے سہروردی سے کہا کہ وہ لاہور چلے جائیں اور وہاں ریپبلکن پارٹی کے لیڈروں سے بات کریں۔ ساتھ ہی سکندر مرزا نے یہ انتظام کر رکھا تھاکہ مظفرعلی قزلباش اور ان کے ساتھی سہروردی کا ساتھ چھوڑ دیں۔
لاہور سے واپسی پر میں، وزیراعظم سہروردی کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر موجود تھا، وزیراعظم نے مجھے اپنی ساتھ گاڑی میں بٹھا لیا۔ جب اخبار پڑھ چکے تو انہوں نے پوچھا کوئی نئی خبر؟ میں نے عرض کیا کہ سرکاری حلقوں میں یہ خبر آگ کی طرح پھیلی ہوئی ہے کہ آپ کو وزیراعظم کے عہدے سے الگ کیا جا رہا ہے۔ سہروردی صاحب نے کہا: میں اگر تمہیں اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا لیتا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم احمقانہ باتیں شروع کر دو۔ اگلے روز دن کے 11 بجے میں وزیراعظم ہاؤس پہنچا تو دیکھا کہ وزیراعظم کا پرنسپل سٹاف غائب ہے۔ وزیراعظم آرام کرسی پر لیٹے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر اٹھ بیٹھے اور کہا: الطاف گوہر تمہاری خبر درست تھی آج صبح سکندر مرزا نے مجھے بلایا اور کہا: پنجاب کے سیاستدانوں نے تمہاری حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے‘ اس کے بعد میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ میں صدر کو اپنا استعفیٰ پیش کردوں جو انہوں نے فورا منظور کرلیا‘ لہٰذا میں اب وزیراعظم نہیں رہا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد میں نے 2 سال کی چھٹی لی اور لندن سکول آف اکنامکس کے ایک کورس کے لئے چلا گیا۔ مجھے لندن آئے چند ہفتے ہی ہوئے تھے سکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور ایوب خان کو ملک کا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ اس کے 3 ہفتے بعد جنرل ایوب خان نے صدر کے تمام اختیارات خود سنبھال لیے اور سکندر مرزا کو ملک بدر کر دیا گیا۔ وہ لندن آ گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے خاندان نے درخواست کی کہ ان کو پاکستان لا کر دفن کرنے کی اجازت دی جائے، جو نامنظور کر دی گئی۔ شاہ ایران نے سکندر مرزا کو ایران میں دفن کرنے کی اجازت دی۔ اس کے بعد ہائبرڈ حکومت کے بانی سکندر مرزا ماضی کے اندھیروں میں کھو گئے۔ لیکن ہم نے تاریخ کے اس سبق سے ''کچھ نہیں سیکھا‘‘۔