بی بی سی اور گوگل تک احتجاج کرتے ہوئے چلا اٹھے کہ بھارتی پراپیگنڈا مشینری کو پاکستان کے خلاف جھوٹی خبریں دیتے ہوئے کم ازکم میڈیا کی اخلاقی اقدار کا رتی بھر ہی بھرم رکھ لینا چاہئے تھا‘ کیونکہ جس طرح پاکستان کے بارے میں ہولناک قسم کی منظر کشی کی جا رہی تھی اس سے ہر سننے اور دیکھنے والے کا مضطرب ہوجا نا قدرتی امر تھا۔ کراچی کے متعلق بھارتی میڈیا کے بڑے بڑے چینلز بریکنگ نیوز کے طور پر اپنی سکرینوں سے جو کچھ دکھا رہے تھے اس پر بی بی سی کے اسلام آباد سے رپورٹرز لکھتے ہیں کہ ہم سے تصدیق کیلئے تفصیلات مانگی جا رہی تھیں اور جب ہم نے حقائق کی تلاش میں ہر زاویے سے کھوج لگائی توان خبروں میں سوائے جھوٹ اور صرف جھوٹ کے اور کچھ بھی نہیں ملا ۔ بھارت کے چوٹی کے میڈیا ہائوسز جن میں انڈیا ٹو ڈے ‘ زی نیوز اور سی این این نیوز 18 شامل تھے سولہ اکتوبر کی رات گئے بریکنگ نیوز دینا شروع ہو گئے کہ کراچی میں سو ل وار شروع ہو چکی ہے اور اب تک دس سے زائد پولیس افسر ہلاک ہو چکے ہیں اور کراچی کی سڑکوں پر فوج کے ٹینک گشت کر رہے ہیں۔
بد قسمتی سے جب اس خبر کی بیرونی میڈیا کے کچھ لوگوں نے تصدیق چاہی تو لندن میں ایون فیلڈ میں ہمہ وقت موجو درہنے والے ایک مخصوص میڈیا چینل سے تعلق رکھنے والے شخص نے جلتی پرتیل ڈالتے ہوئے پولیس افسران کے استعفوں کا حوالہ دیتے ہوئے تاثر دینا شروع کر دیا کہ سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے‘ گویا بھارت کے شور شرابے کو تقویت دیتے ہوئے گول مول جواب دیا‘ حالانکہ وہ یہ کہنے سے پہلے اپنے چینل سے ہی تصدیق کرلیتے۔ بی بی سی سمیت بہت سے نشریاتی اور اطلاعاتی ادارے حیران تھے کہ انہیں@drapr007ٹوئٹر اکائونٹ سے کراچی میں سول وار کے حوالے سے لمحے لمحے کی صورتحال سے آگاہ کرنے کیلئے جو خبریں مہیا کی جا رہی ہیں‘ اس قدر با خبر یا متحرک ٹوئٹراکائونٹ کس کا ہو سکتا ہے؟ بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے جب ٹوئٹر اکائونٹ کی تلاش شروع کرتے ہوئے گوگل سے درخواست کی کہ آپ کے ذریعے ایک نیو کلیئر پاور کے بارے میں جو اس قدر خوفناک قسم کی خبریں دی جا رہی ہیں ہمیں بتایئے کہ یہ ٹوئٹر اکائونٹس کن کے ہیں ‘انہیں کون آپریٹ کر رہا ہے؟ ان خبروں میں کتنی صداقت ہے؟ ابھی ان اکائونٹس کی تفصیلات ڈھونڈی جا رہی تھیں کہ ایک گھنٹے بعد پھر بریکنگ نیوز آنا شروع ہو گئیں کہ سندھ پولیس اور فوج میں گلشن باغ کراچی میں شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں ۔ کراچی میں گلشن اقبال تو ہے لیکن گلشن باغ نام کی کسی جگہ کا وجود ہی نہیں‘ اس پر بھی گو مگو کی کیفیت طاری ہو گئی کہ یہ کون سا علا قہ ہو سکتا ہے؟ دنیا بھر میں بیٹھے پاکستانی جس خبر سے سب سے زیادہ پریشان ہوئے وہ بھارت کا وہ واویلا تھا کہ امریکی بحریہ کراچی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ دی انٹر نیشنل ہیرالڈ‘ جو2018ء سے بھارت کی ایک کمپنی کے نام پر رجسٹرڈ ہے اورجس کا ایک ٹوئٹر اکائونٹ2015 ء سے آپریٹ ہو رہا ہے اور جس کے Followers میں صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو لیڈر ہیں‘ اس نے بھی کراچی کے حالات مزیدخوفناک بتانا شروع کر دیے۔
پاکستان کے اندر خانہ جنگی کی خبریں اور فیک ویڈیوز ایسے وقت میں آن ایئر کی جا نے لگیں جب FATF کا اہم ترین اجلاس شروع ہو نے والا تھا جس میں پاکستان کے سٹیٹس کا بھی جائزہ لیا جانا تھا۔ یہ سب کچھ بڑی ترتیب سے کیا جا رہا تھاکہ جیسے ہی فیٹف پاکستان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے لگے تو پاکستان کے مستقبل کو افواہوں کے دھویں میں چھپا دیا جائے۔ دشمن ہمیشہ موقع ڈھونڈتا ہے‘ جیسے ہی کراچی سے رات گئے سندھ پولیس کے آئی جی بارے مبہم خبروں کا آغاز ہوا تو دشمن نے اسے اپنا ہتھیار بناتے ہوئے پاکستان پر ہائبرڈ وار کا بھر پور حملہ کر دیا اور سب نے دیکھا کہ بد قسمتی سے پاکستان کے اندر سے بھی انہیں سپورٹ ملنا شروع ہو گئی۔
ایک جانب مودی میڈیا پاکستان کے بارے میں پریشان کن خبریں دے رہا تھا تو دوسری طرف پاکستان کی اپوزیشن پارٹیز اور سندھ حکومت پولیس افسران پر دبائو بڑھاتے ہوئے انارکی بڑھانے کی سر توڑ کوششوں میں جت گئی۔ دوسری طرف عالمی میڈیا کا گوگل پر دبائو اس قدر بڑھتا جا رہاتھا کہ اسے لینے کے دینے پڑ چکے تھے کہ یہ سب جھوٹ آپ کیوں پھیلا رہے ہیں۔ جب گوگل نے عالمی دبائو کے سامنے ڈھیر ہوتے ہوئے ٹوئٹر اکائونٹس کی چھان بین کی تو ان میں سے ایک اکائونٹ بھارت کی سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل پرشانت پٹیل کا نکلا جس نے کراچی کی خبریں دیتے ہوئے اب تک کوئی دو درجن سے زائد ٹوئٹس کئے تھے۔بی بی سی نے اس خبر کی تحقیق کرنے کے بعد اپنی رپورٹنگ میں جو ہیڈ لائن لگائی وہ مودی میڈیا کے منہ پر ایک زور تھپڑ سے کم نہیں بی بی سی نے لکھاـ:India buzzes with fake news of 'civil war' in Pakistan۔ 22 اکتوبر سے شروع ہونے والے اجلاس سے پہلے مزار قائد پر کیپٹن صفدر کی ہلڑ بازی کا سب سے اہم اور حیران کن نظارہ شاید بہت کم ہی لوگوں کی نظروں سے گزرا ہو گا کہ جب مزار قائد پر مریم صفدر مسلم لیگ (ن)کے کارکنوں کے ہمراہ دعا مانگ رہی تھیں تو سوائے کیپٹن صفدر کے باقی سب نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے ۔ اس کے ثبوت کیلئے ان کی اس حالت کی مکمل ویڈیو مو جود ہے۔ اب ان سے کون پوچھے کہ جناب قائدا عظم کے مزار پر تو آپ نے دعا کیلئے ہاتھ بھی نہیں اٹھائے‘ تو جب آپ دعا بھی نہیں مانگ رہے تھے تو پھر توقیر کیسی؟ صفدر صاحب کی یہ تصویر اور ویڈیو اس وقت تک ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد سن اور دیکھ چکے ہوں گے جس میں وہ مزار قائد پر آنے سے کوئی ایک ہفتہ قبل با چا خان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے فرما رہے تھے کہ با چا خان نے جو کچھ بھی کہا تھا وہ جو کچھ کرتے رہے ‘جو کچھ کہتے رہے وہ بالکل صحیح تھا اور ان کے بارے میں یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ قیام پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سخت ترین مخالفین میں سے تھے اور انہوں نے شمال مغربی سرحدی صوبے کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف کرائے گئے ریفرنڈم میں پنڈت نہرو کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان کی بجائے بھارت میں شامل ہونے کے حق میں زبردست مہم چلائی تھی‘ جس میں بری طرح ناکام رہے اور غیور پشتونوں نے مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دے کر قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔
پاکستان میں فوج ا ور پولیس کی سول وار کے جھوٹے دعوؤں کے پس منظر میںFATFکا حالیہ اجلاس تھا جس میں FATF نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف پاکستان کی پولیٹیکل کمٹمنٹ اور عملی اقدامات کو تسلیم کیا۔ یہ پاکستان کی ایک بڑی سفارتی فتح ہے ‘ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کروانے کے لیے بھارت کی جانب سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا مگر اُسے منہ کی کھانا پڑی‘ لیکن جیسے ہی پاکستان کو اگلے سال فروری تک گرے لسٹ میں رکھنے کا اعلان سامنے آیا تو بہت سے آستین کے سانپ غصے سے پھنکارتے دیکھے گئے کہ بات گرے لسٹ سے آگے کی جانب کیوں نہیں بڑھی۔