دروازے کھلے ہیں، جو آیا عزت دیں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''دروازے کھلے ہیں، جو آیا عزت دیں گے‘‘ کیونکہ پہلے بھی ہم اسی طرح کے معززین کی وجہ سے ہی قائم ہیں‘ جن کی دھمکیاں بھی آئے دن سنتے رہتے ہیں لیکن بالآخر یہ خاموش ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں بھی یہ غربت خوب راس آ چکی ہے؛ تاہم وہ اپنا کوئی چھوٹا موٹا کام کرانے کے لیے کبھی کبھار نخرے بازی کر لیتے ہیں جبکہ ہمیں بھی اس کی عادت پڑ چکی ہے اور دونوں کا کام چل رہا ہے۔ اس لیے نئے آنے والوں کے لیے اس سے زیادہ پسندیدہ صورتحال اور کیا ہو سکتی ہے جبکہ پارٹیاں بدلنا بھی جمہوریت کا حسن ہے۔ آپ اگلے روز دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے ارکان اسمبلی سے ملاقات کر رہے تھے۔
عمران 15 جنوری سے پہلے مستعفی ہوں گے: مریم نواز
مستقل نااہل، سزا یافتہ اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم عمران خان 15 جنوری سے پہلے مستعفی ہوں گے‘‘ جبکہ پہلے ہم نے 15 فروری کا اعلان کیا تھا لیکن یہ مدت کچھ زیادہ ہی طویل تھی اس لیے اس میں یہ تبدیلی کی گئی ہے اور اگر ضروری ہوا تو کوئی اس سے پہلے کی بھی تاریخ دے سکتے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنا استعفیٰ لکھ رکھا ہے، بس صدر مملکت تک پہنچانے کی دیر ہے جس کے بعد باقاعدہ جشن منایا جائے گا اور والد صاحب بھی لندن سے واپس تشریف لانے میں کوئی دیر نہیں کریں گے اور وزیراعظم کو انہیں لانے کے لیے لندن جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
تھوڑا صبر کریں، ملک کو طاقتور بنائوں گا: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''تھوڑا صبر کریں، ملک کو طاقتور بنائوں گا‘‘ اور اس سے پہلے عوام کو طاقتور بنانا ضروری ہے جتنی دیر وہ طویل تنگی برداشت کریں گے‘ اتنے ہی جفا کش اور طاقتور ہوتے جائیں گے جبکہ ملک کو طاقتور بنانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے اور چونکہ اپوزیشن کافی کمزور واقع ہوئی ہے‘ اس لیے ساری اپوزیشن کو رفتہ رفتہ جیل میں ڈال دیا جائے گا تا کہ یہ لوگ وہاں کی دال پی پی کر کچھ طاقت حاصل کریں کیونکہ باہر تو انہیں دال بھی دستیاب نہیں۔ آپ اگلے روز میانوالی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
بلا تفریق احتساب کا وعدہ پورا کریں گے: اعجاز شاہ
وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ ''بلا تفریق احتساب کا وعدہ پورا کریں گے‘‘ اور یہ نہیں دیکھیں گے کہ احتساب اپوزیشن کی کس جماعت کا ہو رہا ہے کیونکہ ہم کالے گورے میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے جبکہ ان میں زیادہ تر کالے چور ہیں اور جس کا مقصد یہ بھی ہے کہ ان کالے چوروں کا رنگ بھی اگر سفید نہیں تو کم از کم گندمی ضرور ہو جائے اور اس لیے بھی ان حضرات کو احتسابی عمل کو خوش آمدید کہنا چاہیے ورنہ بازار میں جو کریمیں دستیاب ہیں ان کے استعمال سے رنگ گورا ہونے کے بجائے مزید کالا ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ کریمیں استعمال کر کے ہی اپنا یہ حال کر لیا ہے جبکہ اس کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کالی چمڑی سے انہیں نجات دلا دی جائے تا کہ نیچے سے سفید اور صاف چمڑی نکل آئے۔ آپ اگلے روز لاہور میں گورنر پنجاب سے ملاقات کر رہے تھے۔
نواز شریف نے ہمیشہ عدالتوں کا سامنا
کیا، بھاگنے والے نہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہ ہے کہ ''نواز شریف نے ہمیشہ عدالتوں کا سامنا کیا، بھاگنے والے نہیں‘‘ اور اب بھی وہ بھاگے نہیں تھے بلکہ آرام سے گئے تھے اور جہاز میں بیٹھتے ہی اپنی شہرہ آفاق خوش خوراکی کا مظاہرہ شروع کر دیا تھا جبکہ لندن میں بھی وہ ہر صبح ورزش کی خاطر بھاگتے، ڈنڈ لگاتے اور ڈنڈ پیلتے ہیں کیونکہ یہ ان کے علاج ہی کا ایک حصہ ہے، اسی لیے وہ کسی ہسپتال وغیرہ میں بھی داخل نہیں ہوئے اور اپنے طور پر اپنی صحت کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں جبکہ اب شہباز شریف اور مریم نواز بھی بھاگنے کے بجائے پورے سکون کے ساتھ ان کے پاس جا کر انہیں اس صحت یابی کی مبارکباد دینا چاہتے ہیں۔ آپ اگلے روز ملاقات میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
اگلے روز گُل فراز کی ایک غزل اپنے کالم میں شامل کی تھی جس کا مطلع تھا:
اب دیکھا جائے تو یہ خسارہ تھا ہی نہیں
وہ ہاتھ سے گیا جو ہمارا تھا ہی نہیں
اس پر معلوم ہوا کہ فیصل آباد سے قاسم یعقوب اور کچھ دوستوں نے اعتراض لگایا ہے کہ یہ وزن میں نہیں ہے۔ بات دراصل ردیف کی تھی جو اجنبی سا بھی لگتا ہے اور پڑھتے ہوئے ایک جھٹکا سا بھی محسوس ہوتا ہے۔ اعتراض اس حد تک تو درست ہے کہ ردیف کو رواں انداز میں نہیں باندھا گیا، جس سے یہ صورت پیدا ہوئی ہے۔ دیکھا جائے تو لفظ ''تھا‘‘ اور ''ہی‘‘ پورے وزن میں بھی باندھے جاتے ہیں اور نصف وزن میں بھی، یہاں ''تھا‘‘ کو نصف اور ''ہی‘‘ کو پورے وزن میں باندھا گیا ہے اور ''تھا ہی‘‘ بظاہر 'تھہی‘‘ لگتا ہے ، یہ ضروری نہیں کیونکہ لفظ 'تھا‘ کا جو آدھا وزن باقی ہے‘ اس کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے‘ جس طرح غالبؔ کے اس مصرع ع
پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیان کے
میں ''تھا دام‘‘ کو 'تھدام‘ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں مشکل یہ ہوئی کہ لفظ ''تھا‘‘ جو عام طور پر پورے وزن میں باندھا جاتا ہے‘ نصف وزن میں اور ''ہی‘‘ جو عام طور سے نصف وزن میں باندھا جاتا ہے‘ پورے وزن میں بندھ گئے ہیں جو غیر رواں اور عجیب تو لگتا ہی ہے لیکن اسے غلط نہیں کہا جا سکتا کہ آخر ضرورتِ شعری بھی کوئی چیز ہوتی ہے!
اور‘ اب آخر میں نیلم ملک کی شاعری
کتنی مشکل راتیں کاٹ کے دن چوکھٹ پر آئے
دیوی دان کرے آسانی، اب تو پٹ پر آئے
گر وہ بولے کھول دے اس معصوم کے پر صیّاد
کتنا پیار کبوتر کو طوطے کی رٹ پر آئے
اب بھی نہیں دل دستر خواں پر سیر ہوئے مہمان
آبِ عشق تو اتنے برسوں میں تلچھٹ پر آئے
دھوپ کی آخری کترن کھینچ کے آنکھوں پر لی باندھ
تا کہ شام نہ ڈھل جائے جب تو پنگھٹ پر آئے
دبی دبی سی ہنسی ہنسیں سب چوپائے‘ پنچھی، جب
سارا جنگل گھوم کے شیرنی واپس بھٹ پر آئے
آج کا مطلع
ہر شکن ہے مری بستر سے الگ
اور نظر رہتی ہے منظر سے الگ