فی الحال پاکستان کا بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے فروری 2021 ء تک کی مہلت دی ہے۔یاد رہے جون 2018 ء میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں شامل کیا تھا، اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرنے کے لیے اکتوبر2019 ء تک کا وقت دیا گیا تھا، جس میں مزید چار ماہ توسیع کر دی گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق موجودہ قوانین میں ترامیم کے ساتھ ساتھ فیٹف کے ڈھیروں قانون منظور کئے گئے جن میں کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن اور گرفتاریاں بھی شامل ہیں۔ عام فہم زبان میں جب سرمائے کو ملکی قوانین پر عملدرآمد کئے بغیرایک سے دوسرے ملک منتقل کیا جائے تو اسے منی لانڈرنگ کا نام دیا جاتاہے اور عمومی طور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ سرمایا‘جو نقد رقم یا اثاثوں کی صورت میں ہوسکتا ہے‘ غیر قانونی طور پرحاصل کیا یابنایا گیا؛چنانچہ اس کالے دھن کی حیثیت کو تبدیل کرتے ہوئے اسے سفید کرنے کی غرض سے بیرونِ ملک بھجوایا گیا ہے۔ آج کل اس قسم کے سرمائے کو اکثر و بیشتر جرائم، منشیات کے مکروہ دھندے اور دہشت گردی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ کیا استعماری قوتیں اسے مسلم ملکوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا یہ قوانین صرف پاکستان کو دبائومیں لانے کے ہتھکنڈے ہیں یا ان کا اطلاق یورپ‘ امریکا‘ بھارت اور آسٹریلیا وغیرہ جیسے ممالک پر بھی ہوتا ہے؟ ایک جائزے کے مطابق 73 ملکوں میں اینٹی منی لانڈرنگ کا قانون ہی موجود نہیں جبکہ 26 ممالک میں بغیر سوال کے اکائونٹ کھولے جاتے ہیں،یہ استعماری دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ حکومتی ناقص پالیسیوں کی بدولت پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کا مزید مقروض ہوتا جا رہا ہے اور اپنی سیاسی اور معاشی خود مختاری سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی مدد کا سد باب کرنا ایک حربہ ہے کمزور بالخصوص مسلم ممالک کے مالی ذرائع کی اطلاعات و معلومات حاصل کرنے کا، اور منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے خلاف مہم مغربی ملکوں کا سب سے بڑا جھوٹ کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردوں کو مالی مدد فراہم کرنے کا ذریعہ اور منی لانڈرنگ کا مرکز امریکا اور مغرب ہیں اور یہ ممالک‘ صہیونی حکومتیں اور علاقے‘ دنیا بھر میں دہشت گردی کے حامیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے درحقیقت مغربی استعمار کی معاشی فوجیں ہیں۔ مغرب اپنی ان فوجوں کے ذریعے جغرافیے فتح کرتا ہے اور ان اداروں کے ذریعے قوموں کی معیشتیں ہی نہیں ان کی سماجیات اور ان کا دفاع تک ختم کر دیتا ہے۔
جان پرکنز (John Perkins) اپنی ایک کتاب اقتصادی غارت گر کے اعترافات ''Confessions of an Economic Hit Man‘‘ کی وجہ سے بہت مشہور ہیں‘ یہ کتاب 2004ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ اس کتاب میں جان پرکنز نے لکھا ہے ''اکنامک ہٹ مین (ای ایچ ایم) خطیر معاوضے پر خدمات انجام دینے والے وہ پیشہ ور افراد ہیں جن کا کام ہی دنیا بھر میں ملکوں کو دھوکا دے کر کھربوں ڈالر سے محروم کرنا ہے۔ یہ لوگ عالمی بینک، امریکا کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے اور دیگر غیر ملکی ''امدادی‘‘ اداروں سے ملنے والی رقوم بڑی بڑی کارپوریشنوں کے خزانے اور اس کرۂ ارض کے قدرتی وسائل پر قابض چند دولت مند خاندانوں کی جیبوں میں منتقل کرتے ہیں۔ جعلی مالیاتی رپورٹوں کی تیاری، انتخابی دھاندلیاں، رشوت، استحصال، جنسی ترغیب اور قتل ان کے اصل ہتھیار ہیں۔ یہ لوگ وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو قدیم شاہی دور میں کھیلا جاتا تھا، مگر ''گلوبلائزیشن‘‘ کے اس عہد میں اس نے ایک ہمہ جہت دہشت ناک شکل اختیار کرلی ہے۔ یہ بات مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے کیونکہ میں خود بھی ایک اقتصادی دہشت گرد تھا‘‘۔
لگتا ہے کہ موجودہ حکمران بھی اقتصادی غارت گروں کے نرغے میں آچکے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کیلئے خود مختارانہ فیصلے کرنے کی پوزیشن بہتر ہونے کے بجائے خراب ہو رہی ہے۔ امریکا کی ایک ممتاز دانشور سوسن سونٹیگ کہا کرتی تھیں کہ امریکہ کی بنیاد ''نسل کشی‘‘ پر رکھی ہوئی ہے؛ تاہم امریکا صرف عسکری دہشت گردی کی علامت نہیں ہے۔ امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادی معاشی دہشت گرد بھی ہیں اور انہوں نے درجنوں قوموں کی معیشتوں کو تباہ و برباد کیا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ 20 برسوں میں امریکا کی عسکری دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ مسلم ممالک بنے ہیں۔ اس المناکی کی تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں۔امریکا کی برائون یونیورسٹی کے واٹسن انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق امریکا نے نائن الیون کے بعد سے اب تک جو جنگیں لڑی ہیں ان میں 8 لاکھ سے زیادہ افراد (مسلمان) ہلاک ہوئے ہیں۔ گزشتہ بیس سالوں میں ایک تخمینے کے مطابق 31 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا ہے۔ مزید ہولناک بات یہ ہے کہ ابھی تک خون مسلم سے ان لوگوں کی پیاس نہیں بجھی ۔ دو عالمی جنگوں میں مغربی اقوام نے 10 کروڑ انسان تہِ تیغ کیے تھے۔ چونکہ اس وقت مغربی ممالک کو سائنس، ٹیکنالوجی اور عسکری قوت میں فیصلہ کن بالاتری حاصل ہے اس لیے وہ دنیا بھر کے معاشی وسائل پر قبضے اور نسل انسانی پر سیاسی حکمرانی کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اور اسی حصول کے لیے برسر پیکار ہیں ؎
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
''وہ‘‘ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
امریکی اور مغربی تھنک ٹینک اور دانشور 1990 ء کے عشرے سے ہی خبردار کر رہے تھے کہ 21 ویں صدی مشرق خصوصاً ایشیا کی صدی ہو گی۔ چین سمیت ایشیا کے کئی ممالک میں معاشی ابھار آ رہا ہے‘ جو انہیں مضبوط معاشی طاقتوں میں تبدیل کر دے گا۔ سورج کی طرح مشرق کی ابھرتی ہوئی طاقت کو روکا نہیں جا سکتا‘ مغرب کا تسلط خطرے میں ہے۔ غالباً اسی لیے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے مشرق کی ابھرتی ہوئی طاقتوں خصوصاً چین کا مقابلہ کرنے کیلئے تیاریاں شروع کر دیں ا ور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نام نہاد '' امریکی نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ کے دور میں انہی خطوط پر کام کا آغاز ہو گیا۔ ورلڈ ٹریڈسنٹرپر حملے کے بعد دنیا کی سب سے طاقتور اور مہذب سمجھی جانے والی مملکت ریاست ہائے متحدہ امریکا نے صلیب وہلال کی معرکہ آرائی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنی تمام ترتوجہ دہشت گردی کو مہذب دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت کرنے پر مرکوز کردی اور بڑی شدومد کے ساتھ اس کا پروپیگنڈا کیا جانے لگا۔ مغرب کی تاریخ کی معمولی شدبد رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ یہ فاشزم‘ جس کی اسلام کے ساتھ پیوندکاری کی ناروا سعی میں کچھ ممالک مصروف ہیں‘ دراصل مغرب کی ایجاد ہیں۔ قریب دو سو سال قبل برطانیہ، فرانس، پرتگال، ہالینڈ اورسپین وغیرہ نے تجارت کے نام پر دنیائے اسلام کے معاشی وسائل کو تصرف میں لانے کے لیے مہم جوئی شروع کی تھی اور بہت سے مسلم ممالک ان استعماری قوتوں کی نو آبادیاتی ریاست بن گئے تھے۔ اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ یہ مہم صرف عالمی تجارت کو فروغ دینے اور سائنس و ٹیکنالوجی میں مغرب کی ترقی و تجربات سے باقی دنیا کو بہرہ ور کرنے کے لیے ہے۔ دراصل تجارتی کمپنیوں کے روپ میں مسلم ممالک میں اس مہم کے درپردہ مقاصد میں مسلمانوں کو ان کی عقائد و ثقافت سے محروم کرنا اور لارڈ میکالے کے بقول ''اگر وہ عیسائی نہ ہوں تو انہیں کم از کم مسلمان نہ رہنے دینے‘‘ کے مذموم عزائم بھی شامل تھے۔ آج کل یہی کام مختلف مالیاتی اداروں کے ذریعے سرانجام دیا جا رہا ہے اور اس مہم میں وہی امریکا اور مغربی ممالک پیش پیش ہیں جو پہلے بھی اس فاشزم کے سرخیل تھے۔