جس معاشی دھماکہ کا اعلان نواز لیگ نے اپنے انتخابی جلسوں میں بار بار کیا تھا‘ پہلے ہی بجٹ میں تنخواہ دار طبقہ اس دھماکے کا شکار ہو گیا ہے۔ نقش کہن کی ہر شے کو مٹانے کے ساتھ ہی بری کارکردگی رکھنے والی جنرل مشرف اور زرداری حکومتوں کی طرف سے عوام کو مفت میں دی گئی بجلی ، پانی ، گیس اور ٹیکس کی صورت میں وہ سب فضول قسم کی مراعات اورامدادی سہولیات بیک جنبشِ قلم منسوخ کر دی گئی ہیں جو آئی ایم ایف کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھیں اور بقول با اختیار وزیر خزانہ اسحاق ڈار‘ اس ملک کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی تھیں۔ اس کارِ عظیم سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ مسلم لیگ نواز کا حالیہ’’ عوامی بجٹ ‘‘سوائے آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں اور ان کے سرپرستوں کو خوش کرنے کے اور کچھ نہیں تھا اوروہ معاشی دھماکہ جس کا ووٹروں سے وعدہ کیا گیا تھا‘ تیس سال سے جاری وساری جمعہ بازاروں اور اتوار بازاروں تک ہی محدود رہا۔ اچھا ہوتا کہ ان بازاروں میں کئی سالوں سے لگنے والے اسلام آباد کے منگل باز ار کو بھی شامل کر لیتے۔جناب اسحاق ڈار کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اس بجٹ میں سب کا اس طرح خیال رکھا ہے کہ چند ماہ کے دودھ پیتے بچے سے لے کر قبر میں پائوں لٹکائے بوڑھے بھی انہیں ’’دعائیں‘‘ دینے لگے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مذاق کی بھی ایک حد ہوتی ہے‘ بجٹ پیش ہونے سے دس دن پہلے نگران حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ کر دیا جس پر چند لمحوں بعد ہی نواز لیگ کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا کہ یہ فیصلہ واپس لیاجائے اور اس دھمکی سے فیصلہ واپس ہو نے پر سب نے اطمینان کا سانس لیا کہ میاں محمد نواز شریف نے اپنے منشور میں جو وعدے کیے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے‘ کیونکہ ان کے منشور میں سنہری حروف میں لکھا ہوا ہے کہ ’’ان کی حکومت کسی بھی قسم کاکوئی نیا ٹیکس نہیں لگائے گی‘‘ لیکن دس دن بعد وہی سیلز ٹیکس جو نگران حکومت کو ڈانٹتے ہوئے واپس کروایا گیا تھا‘ اپنے نفیس ہاتھوں سے لوگوں کے حلق میں زبردستی ٹھونس دیا۔ ایک طرف عام آدمی رو رہا ہے تو دوسری طرف سرکاری ملازمین شور مچا رہے ہیں جن کے بارے میں وزیر با تدبیر خرم دستگیرکا دیا گیا بیان اخبارات کے صفحات اور الیکٹرانک میڈیا پر ہمیشہ درخشاں رہے گا کہ ’’ہماری حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اس لیے نہیں بڑھائیں کیونکہ ان کی تعداد بہت کم ہے‘‘ عوامی دور کے ایسے ہونہار وزراء کے دانشمندانہ بیانات کئی دہائیوں تک یاد رکھے جاتے ہیں۔ کوئی42 سال قبل پی پی پی کے ایک صوبائی وزیر حاکمین خان نے قوم کو خوش خبری دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم پنجاب بھر میں جیلوں کا جال پھیلا دیں گے‘‘۔ جناب خرم دستگیر کا یہ بیان پڑھنے سننے کے بعد لوگ بے ساختہ پکار اٹھے کہ واہ واہ کس قدرعقل مند اور دور اندیش قیادت ملک پر’’ مسلط‘‘ ہوئی ہے یعنی نئی کابینہ کے لوگ وہ راز دو دن میں ہی جان گئے جس کا پچھلے حکمرانوں کو ساٹھ سال تک علم ہی نہیں ہو سکا کہ ایک سے لے کر سولہ سترہ گریڈ تک کے ملازمین کی ملک میں تعداد اور حیثیت ہی کیا ہے کہ ان پر ملکی خزانہ برباد کیا جائے جبکہ ان سے کئی گنازیا دہ اور طاقتور لوگ کہیں بڑھ کر حقدار ہیں جو سٹاک ایکسچینجوں میں بیٹھے ہوئے ملک وقوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ آخر ان سرکاری ملازمین کو کس لیے نوازا جائے؟ کیا ان میں سے کسی نے ہمارے حق میں کوئی خیر مقدمی اشتہار دیا؟ کوئی بینر یا سینکڑوں کی تعداد میں فلیکس بورڈ یا ہورڈنگز بنوائے؟ یہ بے وقوف قسم کے سرکاری ملازمین جو انتخابی عمل کے دوران اپنے فرائض دیتے دیتے بوڑھے ہو گئے ان کو جان لینا چاہیے کہ ’’جمہوریت ایک سیا ست ہے‘ جس میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیںجاتا‘‘ اور بجٹ تیار کرتے ہوئے جب حکومت نے سرکاری ملازمین کا حساب کیا تو ان کی تعداد اس قدر کم نکلی کہ سب حیران رہ گئے‘ بلکہ جب گوجرانوالہ کے پہلوان نے انہیں کمر سے اٹھا کر تولا تو سب وزیروں مشیروں کی ہنسی چھوٹ گئی کہ یہ پدی اور یہ پدی کا شوربہ؟ احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین کو وزیر اطلاعات محترم پرویز رشید کے اس بیان کے بعد تو عقل آ جانی چاہیے کہ ملازمین کی تنخواہیں بڑھانا وفاقی حکومت کا نہیں بلکہ شروع سے صوبائی حکومتوں کا کام رہا ہے‘ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ بے وقوف قسم کے ان کلرکوں‘ جو سڑکوں پر آ کر مظاہرے کر رہے ہیں‘ پر لاٹھی چارج کرانے کی بجائے پکڑ پکڑ کر بادام روغن پلائے اور ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کہ کیا ہو گیا ہے تمہاری یاد داشت کو؟ آج تک سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کبھی مرکزی حکومت نے بھی بڑھائی ہیں؟ اگر ان ملازمین کو پھر بھی یاد نہ آئے تو انہیں گھر بھیج دیا جائے۔ اصل میں یہ سرکاری ملازمین اور خواہ مخواہ تنقید کرنے والے لوگ سازش کررہے ہیں کہ اس دفعہ چونکہ سندھ اور خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ کی مخالف صوبائی جماعتیں برسر اقتدار ہیں‘ اس لیے تنخواہیں نہ بڑھانے کا یہ سارا ملبہ مرکزی حکومت پر ڈال دیا جائے۔ (دیر آید‘ مگر دس فیصد تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں) در آمد شدہ پیش کردہ بجٹ پوری قوم کے سامنے ہے اور چونکہ اس کی در آمد سے پہلے ایف بی آر کی جانب سے اس پر کسی بھی قسم کا\'\'SRO\'\' جاری نہیں کیا گیا‘ اس لیے ظاہر ہے کہ درآمدی اشیاء پر لگنے والے ٹیکسوں کی وجہ سے اس بجٹ نے بھی مہنگا تو ہونا تھا۔ بجٹ کیسا ہے‘ اس پر ملک کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے اپنی آراء دے رہے ہیں۔ کسی نے برا کہا کسی نے اچھا لیکن جوں جوں وقت گزرے گا بجٹ کی اچھائیاں اور برائیاں سامنے آتی جائیں گی‘ بہرحال یہ قوم تو بجٹ سے پہلے ہی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی تھی اور اب مزید پسے گی اور اس چکی کا ایک پاٹ حکومت اور دوسرا تاجر ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے اس بجٹ میں دودھ سمیت بہت سی اشیاء پر ٹیکس لگاکر جو کمال دکھا یا ہے‘ اس پر اگلے مضمون میں تفصیل سے بات کروں گا لیکن نواز لیگ نے لاکھوں کی تعداد میں متوسط گھروں کوبجلی اور انکم ٹیکس کے ڈرون حملے سے تباہ کر کے رکھ دیا ہے‘ تنخواہ وہی کی وہی لیکن بجلی کا بل ہر ماہ پہلے سے کم از کم پانچ ہزار زیا دہ اور انکم ٹیکس کے ذریعے تنخواہ ہر ماہ پانچ ہزار اور کم۔ جناب اسحاق ڈار سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ خزانے کو بھرنے کی بجائے بھوکوں کے خالی پیٹ بھرنے کی کوشش کریں اور بجٹ میں انہوں نے جو جمع تفریق کی ہے وہ درست ہوسکتی ہے لیکن جب پیٹ خالی ہو تو ایسی جمع تفریق کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ نواز حکومت نےFBR کو بینک اکائونٹس تک رسائی دیتے ہوئے پھر وہی خطرناک اور بھیانک ترین غلطی کی ہے جو ’’فارن کرنسی اکائونٹ منجمد کرتے ہوئے‘‘ 28 مئی1998ء کو ایٹمی دھماکے کرتے وقت کی گئی تھی۔ صرف دو دنوں میں بینکوں سے نکلوائے گئے ڈیپازٹ سب کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں…!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved