نامور برطانوی تاریخ دان Alastair Lamb نے اپنی کتاب'' برتھ آف ٹریجڈی: کشمیر 1947ء ‘‘ میں اقوام عالم سمیت بھارت کے ہر ادارے اور تھنک ٹینک کو چیلنج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر دنیا میں موجود کسی شخص یا بھارت کی کسی بھی سطح کی قیا دت، سیاستدان، پروفیسر یا دانشور و مصنف یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی صاحبِ علم کو میرا یہ انکشاف یادعویٰ درست نہیں لگتا یا کوئی بھی اس سے اختلاف کرتا ہے تو اسے میرا کھلا چیلنج ہے‘ وہ سامنے آئے میں ثابت کر وں گا کہ کشمیر کا الحاق بھارت سے کرنے کیلئے مہاراجہ کشمیر کی جانب سے منسوب خط سری نگر سے نہیں لکھا گیا بلکہ یہ خط دہلی میں ٹائپ کرانے کے بعد 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کشمیر سے اس خط پر بزورِ طاقت دستخط کروائے گئے۔ ہر سال کی طرح ایک مرتبہ پھر 27 اکتوبر کو 8 لاکھ سے زائد زہر آلود سنگینیں اور کلاشنکوفیں تانے بھارتی فوجیوں اور بارڈر سکیورٹی فورس کی گولیوں اور دھمکیوں کے سائے میں آزادیٔ کشمیر کیلئے 73 برسوں سے جاری وحشت و بربریت کی بھینٹ چڑھ جانے والے ایک لاکھ سے زائد شہدائے کشمیر کے وارثان بھارتی جبر و تسلط کے خلاف یوم سیاہ منانے کیلئے باہر نکلیں گے تو ان کے پیاروں کی وہ قبریں اور 80 لاکھ سے زائد کشمیری آزادی کے گیت گانے والوں سے سوال کریں گے کہ کیا انسانی حقوق کا احترام اور آزادی کا تقدس کسی مخصوص رنگ اور نسل تک محدود ہوتا ہے؟ کیا اکثریت کی بنا پر رائے شماری سے آزادی حاصل کرنے کا اختیار مشرقی تیمور کی من پسند نسل تک ہی محدود ہے؟ کیا کسی دوسرے کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا کوئی حق حاصل نہیں؟
جب سلطنتِ برطانیہ مذہبی اکثریت کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کا فارمولا طے کر چکی تو اس وقت ہندوستان میں انگریزی راج کے تحت 560 ریاستوں میں مختلف حکومتیں قائم تھیں‘ ان کے دفاع اور خارجہ امور جیسے معاملات ہی انگریز سرکار کے پاس تھے، باقی معاملات میں وہ خود مختار تھیں۔ 1946ء میں انگریز کیبنٹ مشن نے مراسلہ جاری کیا جس کے پیراگراف 14 میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ''ہندوستان کی تقسیم کے تحت ان ریاستوں کی حاکمیت اعلیٰ نہ تو حکومت برطانیہ کے ماتحت ہو گی اور نہ ہی انگریز راج کی جگہ بننے والی کسی نئی حکومت کو منتقل ہو گی‘‘۔ 1947ء میں ہندوستان کو انگریز راج سے آزادی دیتے ہوئے 1947ء ایکٹ کے آرٹیکل 7 کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ اب ان ریاستوں کے کسی بھی معاملے میں برطانوی حکومت کا کسی بھی قسم کا عمل دخل نہیں ہو گا اور یہ ریاستیں اپنے معاملات میں آزاد ہوں گی اور بھارت اور پاکستان کی شکل میں وجود میں آنے والی دونوں مملکتیں ان ریا ستوں کے معاملات میں نہ تو مداخلت کی مجاز ہو ں گی اور نہ ہی کوئی فریق ان ریا ستوں کو زبردستی اپنے ساتھ شامل ہونے پر مجبور کرے گا؛ تاہم اس فیصلے کے بعد سیکرٹری آف سٹیٹ برائے انڈیا لارڈ اوول نے برطانوی ہائوس آف لارڈز میں کھڑے ہو کر پالیسی بیان دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ''برطانوی حکومت کسی بھی صورت میں کسی ریا ست کے علیحدہ تشخص کی اجا زت نہیں دے گی‘‘۔ اس پر وائسرائے انڈیا لارڈ مائونٹ بیٹن نے متعصبانہ فیصلہ کیا کہ اگر کوئی ریاست بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونا چاہے تو اس کیلئے دو شرائط کی پابندی لازم ہو گی۔ ٭جغرافیائی محل وقوع ٭ریاست کے لوگوں کا مذہب، نیز ریاستی عوام کی رائے کو بنیاد بنایا جائے گا۔ ان دو شرائط پر عمل کرتے ہوئے اگست 1947ء تک ماسوائے کشمیر، حیدر آباد (دکن) اور جونا گڑھ کے‘ باقی تمام ریاستوں نے بھارت یا پاکستان‘ اپنے اپنے الحاق کا اعلان کر دیا۔
ریاست جونا گڑھ‘ جس کا رقبہ چار ہزار مربع میل اور آبادی 80 ہزار نفوس پر مشتمل تھی‘ کا نواب ایک مسلمان تھا، لیکن ریا ست میں زیادہ تر آبادی ہندو تھی؛ تاہم نواب آف جونا گڑھ نے اپنی ریا ست کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 12 ستمبر 47ء کو اس اعلان کی باقاعدہ منظوری دی‘ لیکن لارڈ مائونٹ بیٹن‘ جو بھارت کا پہلا گورنر جنرل مقرر ہو چکا تھا‘ نے یہ موقف اپنایا کہ ریاست جوناگڑھ کا یہ اقدام تقسیمِ ہند کے فارمولے کی خلاف ورزی ہے‘ جس میں درج ہے کہ ریا ست اپنے محل وقوع اور مذہبی اکثریت کی بنیاد پر ضم ہو گی۔ بعد ازاں 17 ستمبر 1947ء کو بھارتی فوج نے یکدم جونا گڑھ پر حملہ کرتے ہوئے وہاں زبردستی اپنا قبضہ جما لیا۔ یہی مسئلہ حیدر آباد دکن کے ساتھ پیش آیا، وہاں کے نظام مسلمان بھی تھے لیکن جغرافیائی حدود کا مسئلہ‘ جو ایک سازش کے تحت تقسیمِ ہند کے فارمولے میں درج کیا گیا تھا‘ آڑے آ گیا۔ نظام حیدر آباد بضد رہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جائیں گے جس پر وی پی مینن اور سردار پٹیل کے ساتھ ساتھ لارڈ مائونٹ بیٹن نے انہیں دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ بھارت جونا گڑھ کی طرح دکن پر بھی زبردستی اپنا قبضہ جما لے گا۔ اس پر نظام حیدر آباد نے 21 اگست 48ء کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل‘ برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور تاجِ برطانیہ‘ جنہوں نے حیدرآباد کی خودمختاری کی ضمانت دی تھی‘ سے رابطہ کیا لیکن کسی ایکشن سے پہلے ہی بھارت نے 13ستمبر کو یہ کہتے ہوئے حیدر آباد دکن پر قبضہ کر لیا کہ حیدر آباد کا پاکستان سے الحاق نہیں ہو سکتا۔ ایسی ہی صورتحال جودھ پور کے راجہ کے ساتھ بھی پیش آئی تھی۔ وہ بھی اپنی ریاست کو پاکستان میں شامل کرنا چاہتا تھا لیکن یہاں بھی لارڈ مائونٹ بیٹن نے وہی ڈھول پیٹا کہ جودھ پور میں آبادی کی اکثریت چونکہ ہندو ہے‘ اس لئے یہ صرف بھارت کے ساتھ ہی شامل ہونے کا حق رکھتا ہے۔
مسلم لیگ اور قائداعظم نے بہت کوششیں کیں کہ تقسیم ہند کے تحت بنگال اور پنجاب کی تقسیم کرنے کے بجائے یہ پورے علاقے پاکستان میں شامل کئے جائیں لیکن بار بار کی جانے والی ان درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا گیا کہ ''یہ مطالبہ ملکہ عالیہ برطانیہ کے تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولے سے مطابقت نہیں رکھتا‘‘۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ انصاف، اصول، اخلاقیات اور انسانیت قدروں اور اپنے قانون پر سختی سے عمل کرانے والے انگریز کے تمام اصول و ضوابط جموں و کشمیر کے معاملے میں مٹی کا ڈھیر بن گئے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جغرافیائی طور پر کشمیر پاکستان سے منسلک ہے اور کشمیر کی بیشتر آبادی مسلمان ہے، نیز وہاں کے مواصلات کے تمام رابطے پاکستان سے منسلک ہیں‘ تمام اشیائے ضروریہ کی فراہمی وادیٔ جہلم کے راستے‘ پاکستان سے ہو رہی ہے‘ کشمیر کا پاکستان سے الحاق نہ ہونے دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت دنیا بھر سے اگر کسی نے کشمیر جانا ہوتا تھا تو راولپنڈی اورسیالکوٹ کا روٹ استعمال ہوتا تھا، کشمیر کی لکڑی دریائے جہلم کے ذریعے پاکستان منتقل ہوتی تھی اور پاکستان کے سبھی دریا کشمیر سے بہتے تھے‘ اس تاریخی حقیقت کو بھی جھٹلا دیا گیا کہ کشمیر پر کم و بیش ہزار سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی تھی اور یہ سلسلہ 1819ء میں اس وقت منقطع ہوا تھا جب رنجیت سنگھ نے اس پر اپنا قبضہ جمایا تھا۔ کشمیر بھی ہندوستان کی دیگر 560 ریاستوں کی طرح ایک آزاد ریا ست تھا‘ جس نے اپنی مذہبی اکثریت اور اپنے جغرافیائی محل و قوع کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ جونا گڑھ، حیدرآباد دکن اور جودھ پور کی طرح پاکستان کا انتخاب کیا تھا‘ لیکن اس کیلئے انگریز کے تقسیم کے طے شدہ اصول اور ضابطے مذہبی تعصب کی نذر ہو گئے اور اسی لارڈ مائونٹ بیٹن نے‘ جو جونا گڑھ، حیدر آباد اور جودھ پور کو پاکستان میں شامل کرنے پر خبردار کر رہا تھا‘ 27 اکتوبر 1947ء کو تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولے، کشمیر کے محل وقوع اور مذہبی اکثریت کو نظر انداز کرتے ہوئے اور کشمیری عوام کی مرضی کو قدموں تلے روندتے ہوئے بھارتی فوج کو حکم دیا کہ کشمیر پر بزور طاقت قبضہ کر لیا جائے۔ پہلے بطور وائسرائے ہند اور بعد ازاں بطور گورنر جنرل انڈیا‘ لارڈ مائونٹ بیٹن نے کشمیر پر بزور طاقت قبضہ کر کے ''BIRTH OF TRAGEDY‘‘ سے پوری برطانوی جمہویت کی تاریخ اور اصول پسندی پر کالک مل دی۔