تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     27-10-2020

کس سے ہوجز مرگ علاج

اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس میں مبتلا ہے‘ یہ ایک ایسی وبائی آفت ہے جس سے ہر کوئی خوفزدہ ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ جان لیوا مرض ہے اور اس مرض کا تاحال کوئی علاج نہیں ہے‘ بس احتیاط کریں اور خود کو اور دوسروں کو اس وبا سے محفوظ رکھیں۔ پاکستان کا نظامِ صحت بہت ابتر حال ہے‘ اس میں اتنی سکت نہیں کہ مریضوں کا مفت علاج کر سکے یا مفت ادویات دے سکے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہسپتالوں میں بستر نہ ہونے کی وجہ سے حاملہ خواتین کے ہاں ولادت فرش پر ہو جاتی ہے‘ کتنے ہی لوگ ہیں کہ جب سرکاری ہسپتال سے ملنے والی آپریشن کی تاریخ آتی ہے تو ان کو مرے ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہسپتال بیماریوں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں اور مریض یہاں سے بیماریاں اپنے گھر لے کر جاتے ہیں۔ میں خود ایک خاتون سے ملی‘ جن کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تھی۔ ڈاکٹر دورانِ آپریشن ایک اوزار ان کے پیٹ میں بھول گئے جس کے باعث جسم میں انفیکشن ہو گیا اور ان کی حالت خراب ہو گئی‘ ان کا دوبارہ آپریشن ہوا‘ جان تو بچ گئی لیکن اب وہ دوبارہ ماں نہیں بن سکتیں۔صرف سرکاری ہی نہیں پرائیوٹ ہسپتالوں کا بھی یہی حال ہے‘ ایک بار میرا ناخن ٹوٹ گیا، پرائیوٹ ہسپتال نے صرف مرہم پٹی کا بل ہزاروں روپوں میں بنا دیا‘ اگلے روز میں نے سوچا کہ اسلام آباد کے سرکاری ہسپتال سے پٹی کرا لوں تو وہاں مجھے کہا گیا کہ پٹی کا سامان فارمیسی سے خود خرید کر لائیں، پٹی تو چند روپوں میں ہو گئی لیکن سامان مجھے خود خریدنا پڑا کیونکہ ہسپتال میں پٹی کا بھی سامان موجود نہیں تھا۔ پرائیوٹ ہسپتالوں میں تو میت بھی اس وقت تک لواحقین کے حوالے نہیں کی جاتی جب تک ایک ایک پیسے کی ادائیگی نہ ہو جائے۔ دوسری طرف سرکاری ہسپتالوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں‘ وہاں نہ ادویات کی مکمل فراہمی ہے نہ سامان کی، اکثر مشینیں بھی خراب ہوتی ہیں، تاہم بیشتر عملہ دل لگا کر کام کرتا ہے اور اس بات کی میں خود بھی گواہ ہوں کہ کم وسائل میں بھی ڈاکٹرز پوری کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ مریضوں کا علاج بھرپور طریقے سے ہو سکے۔
پاکستان کے شعبۂ صحت کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ مریض اور ڈاکٹر کا درست طور پر رابطہ نہیں ہو پاتا۔ ایک خاتون صحافی دوست نے یہ بات بتائی کہ ڈاکٹر نے ان کو تھائی رائیڈ کے علاج کیلئے دوائی دی مگر ان کو یہ نہیں بتایا کہ کس وقت اور کن ادویات کے ساتھ یہ گولی نہیں لینی۔ ہمارے ہاں بہت کم ڈاکٹرز ایسے ہیں جو مریض کی مکمل ہسٹری دیکھتے ہیں کہ اس کو کون سے مرض لاحق ہیں۔ اس نے جب مختلف ادویات ایک ساتھ لیں تو اس کی طبیعت بگڑ گئی اور اسے ایمرجنسی میں جانا پڑ گیا۔ تب وہاں پر موجود ایک سینئر ڈاکٹر نے ادویات کے اوقاتِ کار کے حوالے سے رہنمائی کی کہ کون سے دوائی صبح کے وقت لینی ہے اور کون سے شام کو‘ اور کس دوائی کو کتنی مقدار میں لینا ہے۔اس طرح ان کی طبیعت بہتر ہوئی۔ بعد میں انہوں نے سب کو یہ بات بتائی تاکہ دوسرے لوگ بھی ادویات کے معاملے میں احتیاط برتیں۔
کورونا کی وبا کے دوران ہم نے جتنی جعل سازی صحت کے شعبے میں دیکھی ہے‘ اتنی شاید ہی کہیں اور دیکھی ہو۔ مارکیٹ سے ہینڈ سینی ٹائزر غائب ہو گئے اور بازار میں جعلی سینی ٹائزر بکنے لگے۔ آکسی میٹر غائب، گلوز غائب، ماسک غائب‘ وہ سب چیزیں جو کورونا سے احتیاط کے حوالے سے لازم تھیں‘ مارکیٹ سے غائب ہو گئیں اور بلیک میں ملنے لگیں۔ ہر کسی نے من مانی قیمت وصول کی۔ ایک انجکشن کے بارے میں خبر آئی کہ کورونا کے وہ مریض‘ جو وینٹی لیٹر پر ہیں‘ ان کی جان اس انجکشن سے بچائی جا سکتی ہے‘ چند ہزار کا بکنے والا وہ انجکشن لاکھوں میں فروخت ہونے لگا۔ شاید لوگوں میں اللہ کا ڈر ختم ہو گیا ہے‘ لوگ اپنے انجام سے نہیں ڈرتے اور دوسروں کی تکلیف سے بھی اپنا فائدہ کشید کر لیتے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ڈریپ ایسے مواقع پر کہاں چلا جاتا ہے‘ وزراتِ صحت کہاں غائب ہو جاتی ہے۔ پورے پاکستان میں علاج‘ ادویات اور صحت کے شعبے سے منسلک اشیا کے ایک دام کیوں نہیں مقرر کیے جاتے۔ اگر کسی کے مقرر ہیں بھی تو ان پر عمل درآمد کیوں نہیں کرایا جاتا؟ میں نے دو بار کورونا کا ٹیسٹ کروایا‘ دونوں لیب کے چارجز الگ الگ تھے۔ عام خون کے ٹیسٹ، جگر، کولیسٹرل اور شوگر وغیرہ کے ٹیسٹ اتنے مہنگے کر دیے گئے ہیں کہ لوگ روٹین سے اب یہ ٹیسٹ بھی نہیں کرا سکتے حالانکہ بعض اوقات دورانِ علاج ٹیسٹوں کو بار بار کرانا پڑتا ہے۔
اکتوبر کے مہینے میں بہت دھوم دھام سے پنک ربن کے تحت تقریبات منعقد کی جاتی ہیں لیکن بریسٹ کینسر کے ٹیسٹ سستے نہیں کیے جاتے۔ ابھی جائیں کسی لیب یا ہسپتال میں‘ آدھوں میں تو یہ سہولت ہی موجود نہیں ہو گی، جہاں میمو گرافی اور الٹرا سائونڈ کی سہولت میسر ہے‘ ذرا وہاں قیمت پوچھ کر دیکھیں‘ عام شخص تو یہ ٹیسٹ افورڈ ہی نہیں کر سکتا۔ بڑی بڑی تقریبات کے بجائے‘ پنک روشنیاں جلانے کے بجائے‘ اگر ٹیسٹ سستے کر دیے جائیں تو اس سے بریسٹ کینسر کا خطرہ کافی حد تک کم ہو جائے گا؛ تاہم ہمارے ہاں ایسے اقدامات کا فقدان ہے جو واقعتاً مریضوں کی مدد کر سکیں۔ یہاں علاج مہنگا ہے‘ ادویات مہنگی ہیں‘ متعلقہ اشیا مہنگی ہیں تو لوگ کیسے ٹھیک ہوں گے؟ اکثر لوگ بیماری یا تکلیف میں صرف درد کش ادویات لے کر گھر آ جاتے ہیں کیونکہ وہ علاج نہیں کرا سکتے۔ پاکستان میں چاہے ڈلیوری کا کیس ہو‘ آنکھوں کا علاج ہو، کینسر کا علاج ہو، جگر‘ معدے‘ گردے کا علاج ہو، یرقان‘ شوگر یا دیگر بیماریاں ہوں‘ ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں میری ایک جاننے والی خاتون کی والدہ کے آپریشن پر 8 لاکھ روپے کا خرچہ ہوا، ایک دوست کے والد تین دن ہسپتال میں رہے اور ساڑھے تین لاکھ روپے کا بل بنا۔ کیا عام آدمی یہ سب افورڈ کر سکتا ہے؟ وہ ان حالات میں کہاں جائے؟ کہیں کوئی شنوائی ہی نہیں۔ صحت کا شعبہ ایک منافع بخش کاروبار بن کر رہ گیا ہے۔ اگر بات کریں ڈرماٹالوجی اور ڈینٹسٹری کی تو وہاں الگ ہی ہنگامہ برپا ہے۔ اسلام آباد جیسے شہر میں ایک دانت لگوانے کے پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے لگ جاتے ہیں۔ انسان کہاں جا کر اپنا دکھڑے روئے جب حکومت اپنی مستی میں ہے اور اپوزیشن اپنی موج میں۔ 
گزشتہ ہفتے یہ خبر بڑی گرم تھی کہ حکومت نے ایک بار پھر ادویات کی قیمت بڑھا دی ہے لیکن یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ یہ سرکلر قیمتوں کو فریز کرنے کیلئے جاری کیا گیا تھا؛ تاہم سوشل میڈیا پر اس کو غلط طور پر پیش کیا گیا۔ کچھ ادویات کی قیمت کم بھی کی گئی ہے۔ 5 اکتوبر کو جو ایس آر او سامنے آیا تھا‘ اس میں وہ ادویات شامل تھیں جن کی قیمت فکس کی گئی تھی اور جو مارکیٹ میں رجسٹرڈ ہو رہی تھیں۔ حکومت کو بدنام کرنے کیلئے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ ادویات کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں حالانکہ یہ درست نہیں۔ ڈرگ پرائس کنڑول پالیسی اچھی ہے لیکن اس پر سختی سے عمل درآمد بھی ہونا چاہیے اور تمام جان بچانے والی ادویات کی قیمت کم ہونی چاہیے، پورے ملک میں ٹیسٹوں اور ادویات وغیرہ کی قیمت ایک جیسی مقرر کی جانی چاہیے۔
کورونا کی وجہ سے شعبۂ صحت بدحالی کے علاوہ شدید دبائو کا بھی شکار ہے‘ اس لیے یہ فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ ضروری ہے کہ علاج سستا کیا جائے اور ہسپتالوں میں مکمل سہولتیں فراہم کی جائیں۔ خاص طور پر پرائیوٹ ہسپتالوں کو پابند کیا جائے کہ وہ علاج کو سستا کریں۔ حکومت کو بریسٹ کینسر، شوگر، ہیپاٹائٹس وغیرہ کیلئے کیمپس لگانے چاہئیں اور غریب افراد کیلئے فری طبی معائنے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved