تعلیم اور ترقی کا آپس میں گہرا رشتہ ہے اور اکیسویں صدی میں‘جو علم کی صدی کہلاتی ہے ‘ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کے عمل میں مرکزی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔تعلیم میں اعلیٰ ترین ڈگری پی ایچ ڈی کی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ پی ایچ ڈی کے حامل افراد چراغ لے کر ڈھونڈنے سے نہیں ملتے تھے۔ تب اس ڈگری کا پہلا اور آخری حوالہ علم و فضل تھا اسی لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری کا معاشرے میں ایک خاص مرتبہ اور مقام تھا۔ اُن دنوں پی ایچ ڈی کی پُر خار وادی میں صرف وہی لوگ داخل ہوتے تھے جو واقعی تحقیق میں دلچسپی رکھتے تھے ‘جن کا اوڑھنا بچھونا علم تھااور جواپنی زندگی کے کئی برس اس جنون میں صرف کرنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔لیکن پھریہ منظر اس وقت بدلنے لگا جب حکومت نے پی ایچ ڈی ڈگری کے ساتھ کئی مراعات کا اعلان کیا مثلاً بھرتی کے وقت پی ایچ ڈی ملازمین کو ترجیح ‘پی ایچ ڈی ملازمین کی اگلے درجوں میں تیز ترقی اور پی ایچ ڈی الاؤنس ۔اس کے ساتھ ہی ایچ ای سی (ہائرایجوکیشن کمیشن ) نے اپنی پالیسیوں کا مرکز و محور ملک میں پی ایچ ڈی افراد کی تعداد میں عددی اضافے کو بنا لیا۔کسی بھی فیکلٹی ممبر‘ تعلیمی پروگرام اور یونیورسٹی کی رینکنگ میں پی ایچ ڈی کی تعداد کو بھی ایک معیا ر بنا دیا گیا۔یہ ایک طرح سے یونیورسٹیوں کو کھلی دعوت تھی کہ وہ پی ایچ ڈی کی تعداد میں اضافے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔ یوں پی ایچ ڈی کے پھاٹک کھل گئے اور لوگوں کا ایک ہجوم پی ایچ ڈی کی دوڑ میں شامل ہو گیا۔یہ بے ہنگم دوڑ جس کا آغازتقریباً دو دہائیاں پہلے ہوااب برگ بار لانے لگی ہے اور غیر معیاری پی ایچ ڈی کے حامل افراد کی بڑی تعداد مارکیٹ میں آگئی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ناقص پلاننگ کے باعث اس تعداد کا ایک بڑاحصہ بے روزگاری کی چکی میں پس رہا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ آج سے دو دہائیاں پہلے پی ایچ ڈی کا منظر نامہ کیا تھا۔ماضی میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ اُس وقت پی ایچ ڈی کرنے والے لوگوں کے سامنے دو ہی راستے تھے‘یا تو وہ پاکستان سے باہر کسی ملک میں داخلہ لے لیں‘ اس کے لیے ضروری تھا کہ آپ کے پاس مالی وسائل ہوں۔ اُس زمانے میں مختلف ممالک سے تعلیمی وظائف کی ایک معقول تعداد حکومتِ پاکستان کو دی جاتی تھی‘یہ الگ بات کہ ان وظائف کا ایک بڑا حصہ بیوروکریسی کے سُرخ فیتے کی نذر ہو جاتا۔جو خوش قسمت ان وظائف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ان میں سے بہت سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس نہ آتے۔پی ایچ ڈی کے حصول کا دوسرا راستہ کسی سرکاری یونیورسٹی میں رجسٹریشن کروانا تھا۔اس میں دو طرح کے مسائل تھے‘ایک تو اُس وقت مختلف مضامین میں پی ایچ ڈی اساتذہ میسر نہیں تھے دوسرا مسئلہ سرکاری یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے حصول کے لیے ان کے تھکا دینے والا بیوروکریٹک نظام تھا جہاں وقت تھم جاتا تھا۔کئی امیدوار اس صبر آزما عمل سے بیزار ہو جاتے اور پی ایچ ڈی کا ارادہ ترک کر دیتے۔نتیجتاً ماضی میں پی ایچ ڈی کے دونوں راستے جن میں بیرون ِ ملک پی ایچ ڈی اور ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی شامل تھے زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوئے۔
جب ہائر ایجوکیشن کی اُس وقت کی انتظامیہ نے ایک جست میں پی ایچ ڈی کی تعداد کو زمین سے آسمان تک پہنچا نے کی کوشش کی تو سب سے پہلے سرکاری یونیورسٹیاں اس دوڑ میں شامل ہوگئیں۔اس کی بڑی وجہ وہ فنڈز تھے جو ایچ ای سی کی طرف سے یونیورسٹیز کو ملتے تھے۔ہر وہ طالبِ علم جو ایچ ای سی کے سکالر شِپ پہ یونیورسٹی آتا اپنے ساتھ فنڈز بھی لاتا‘ سیلف فنانس کی بنیادوں پر سپیشل پروگرامز بھی شروع کیے گئے۔یوں فنڈز میں اضافے کے لیے میرٹ کو قربان کر دیا گیا۔سرکاری یونیورسٹیوں کے ساتھ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بھی ایم فِل اورپی ایچ ڈی کے پروگرام شروع ہو گئے۔پرائیویٹ سیکٹر میں بہت سی معیاری اور نیک نام یونیورسٹیاں ہیں لیکن کچھ یونیورسٹیوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انہیں چارٹر کیسے مل گیا۔پرائیویٹ سیکٹر میں تھوک کے حساب سے چارٹر دینے کا عمل بھی اس زمانے میں ایچ ای سی کے حکام کی اس پالیسی کا حصہ تھا جس میں وہ ملک میں تیزی سے پی ایچ ڈی کے عددی اضافے کے متمنی تھے اور جس کا وہ بڑے فخر سے اظہار کرتے تھے۔یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ ایسے تعلیمی ادارے قائم ہو گئے جن کا الحاق ان یونیورسٹیوں کے ساتھ تھا اور جنہوں نے ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے پروگرامز شروع کر دیے تھے۔یوں ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے پروگرامز منافع کمانے کا ذریعہ بن گئے۔یہ ادارے مختلف یونیورسٹیوں سے الحاق کر لیتے ‘ اس الحاق میں مالی منفعت کا بنیادی کردار ہوتا ۔جو یونیورسٹیاں ان اداروں کو الحاق دیتیں وہ ان اداروں سے طلبا کی تعداد کے حساب سے اپنا حصہ لیتیں۔یوں گلی محلے میں قائم یہ غیر معیاری ادارے اپنی جاری کردہ ڈگری کو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تسلیم شدہ چارٹرڈ یونیورسٹیوں کا قانونی تحفظ دینے میں کامیاب ہو جاتے۔
ایچ ای سی کی غیر دانش مندانہ پالیسیاں جن کا محور ایم فِل اور پی ایچ ڈی کی تعداد میں راتوں رات غیر فطری اضافہ تھا‘کے نتیجے میں ایم فِل اور پی ایچ ڈی کی وہ گنگا بہنے لگی جس میں سب ہاتھ دھونے لگے۔ اس کا پہلا نتیجہ یہ تھا کہ جب یہ پروگرامز شروع ہوئے تو داخلے کا کوئی سخت معیار نہیں تھا‘ لہٰذا جو طالبِ علم مالی وسائل رکھتا تھااس کا داخلہ ان پروگراموں میں یقینی تھا۔اسی طرح پیسہ کمانے کی دوڑ میں ایک استاد طلبا کی ایک کثیر تعداد کا نگران بن جاتا۔اس کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا ہوتا۔اس کا مقالے کے معیار پر کتنا منفی اثر ہوتا ہے کسی کو اس کی پروا نہ ہوتی۔یونیورسٹیوں میں داخلے ‘کورس ورک اور مقالے کی نگرانی کے معیار پر اس قدر سوال اُٹھے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اس کے حوالے سے کچھ نئے قوانین بنانا پڑے ‘لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔اس وقت تک پی ایچ ڈی کی دوڑ میں شامل ہجوم بے قابو ہو چکا تھا۔ اس عددی اضافے کی بے ہنگم دوڑ ‘جس کی حوصلہ افزائی ہائر ایجوکیشن کے اُس وقت کے حکام نے کی تھی ‘ کے نتائج اب سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔اس کا پہلا نتیجہ ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے حامل افراد کی ایک کثیر تعداد ہے جن کے معیار پر ایک بڑا سوالیہ نشان موجود ہے۔ اس کا دوسرا بڑا نتیجہ بغیر پلاننگ کے ان مضامین میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ہیں جن کے حصول کے باوجود لوگوں کو روزگار نہیں مل رہا۔بہت سے ایم فِل اور پی ایچ ڈی افراد اپنی تعلیم کے مطابق ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے کم تر سطح پر ملازمت حاصل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اس ساری بحث میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اعلیٰ تعلیم روزگار کے حصول کے بجائے تحقیق اور تخصیص کا ایک ذریعہ ہے ‘اسی لیے مختلف ممالک میں اعلیٰ تعلیم محدود اور مہنگی ہے جس تک ہر کسی کی رسائی نہیں۔اس کے برعکس پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو سستا کرکے اس کا رشتہ روزگار کے ساتھ جوڑ دیاگیا ہے۔اس ساری صورتحال کاہائر ایجوکیشن کو از سرِ نو جائزہ لینا ہوگا۔ہمیں اپنی گریجویشن کی ڈگری کو اتنا معیاری ‘توانا اور مؤثر بنانا ہوگا کہ طلبا کو روزگار حاصل کرنے میں مشکل نہ ہواور ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے حصول کے لیے صرف وہی لوگ آئیں جو واقعی اس میں دلچسپی رکھتے ہوں اور جن کی پی ایچ ڈی میں دلچسپی صرف نوکری کے حصول اور پی ایچ ڈی الاؤنس تک محدود نہ ہو۔بصورتِ دیگر پی ایچ ڈی کا یہ بے مہار اور بے ہنگم سفر پاکستان کے تعلیمی نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا رہے گا۔