ہماری تاریخ کچھ بتاتی ہے تو بس اتنا کہ ہم جتنے بے مغز آج ہیں، ایسے ہی پہلے ہوا کرتے تھے۔ جس طرح ہم سے پہلی والی نسل کے سامنے کچھ لوگ اپنی خود پسندی کو اقبال کے تصور خودی سے جوڑا کرتے تھے، آج ہمارے سامنے بھی اسی طرح اپنے شوقِ اقتدار کو نظریہ بنا کر پیش کررہے ہیں۔ جس طرح پہلے والے ایک دوسرے کو غدار کہا کرتے تھے، آج والے بھی وہی کررہے ہیں۔ ایک دوسرے کی تباہی کے لیے جس طرح پہلے والے ان کی مدد لے لیا کرتے تھے جن کے لئے سیاست ناجائز قرار دی گئی ہے تو آج والے بھی اس طرح کے مواقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ کوئی کچھ نہیں سمجھ پارہا۔ عمران خان صاحب یہ نہیں سمجھ پارہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ معاشی ہے جو کبھی ایک‘ کبھی دوسری شکل میں ابھر آتا ہے۔ جتنا زور وہ مخالفین کو زچ کرنے پر لگاتے ہیں، اس سے آدھی توجہ معیشت پر دے کر حالات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ جتنے کم وقفوں سے وہ اپنے ترجمانوں کے اجلاس برپا کرتے ہیں، اتنی ہی بار اپنی معاشی ٹیم کی گوشمالی بھی کر لیتے تو معاشیات کی شکل بن جاتی۔ نواز شریف پاکستان کے بہت بڑے لیڈر ہیں لیکن وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ یہ ملک صرف انہی کے اقتدار کیلئے وجود میں نہیں آیا۔ تین بار اس ملک کا وزیر اعظم رہنے کے باوجود وہ سول فوجی تعلقات کو جس طرح تماشا بنا رہے ہیں، اس میں پاکستان کا نقصان ہی نقصان ہے۔ فرض کرلیں کہ نواز شریف یا ان کی جماعت اس بیانیے کے ساتھ اقتدار میں آجاتی ہے تو معاشی مسائل کا مستقل حل ان کے پاس کیا ہے؟ اس نکتے کے جواب میں نون لیگ اپنے دور کی ترقی یاد کرا سکتی ہے لیکن یہ نہیں بتائے گی کہ مانگے تانگے کی اس ترقی کی وجہ سے ہمارے معاشی ڈھانچے میں جو خرابیاں در آئیں ان کا علاج کس نے کرنا تھا؟ یا وہ دوبارہ اقتدار میں آکر اس کی تشکیل نو کیسے کرے گی؟ پیپلزپارٹی کو تو چھوڑ ہی دیجیے۔ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا۔ قومی جماعت ہونے کی دعویدار ہے اور سندھ میں نسلی تعصب میں گرفتار بھی۔ بطور سیاسی جماعت دیگر جماعتوں سے کچھ بہتر ہونے کے باوجود حکومت چلانے کی صلاحیت سے مکمل محروم۔ حالت یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں چند کلومیٹر کی میٹرو بس کئی سال گزر جانے کے بعد بھی نہیں چلا پائی۔ اگر بات کرو تو جمہوریت کے لیے قربانیوں کا الاپ ایسا شروع ہو گا کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔
مجھ سے پہلے والی نسل نے پاکستان میں جس قسم کی سیاست دیکھی آج وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ میں اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھ رہا ہوں، کل کی تاریخ ہے۔ افسوس صد افسوس کہ دو نسلوں کے مشاہدے میں ذرّہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ جیسے لایعنی تماشے انہوں نے دیکھے، ویسے ہی بدمزہ کھیل ہم دیکھ رہے ہیں۔ پندرہ سال پہلے ایسی ہی بدمزگی کا لمحہ تھاکہ میں نے اپنی سیاسی قیادت کے نکمے پن اور اسٹیبلشمنٹ کے اندازِ فکر کا رونا سید منور حسن مرحوم کے سامنے سوال کی صورت رو دیا۔ آں جناب نے میرا سوال سن کر لمحے بھر کا توقف کیا اور کہا، ''ان مسائل کا حل کسی ایسے کے پاس ہے جسے ہم آج تو نہیں جانتے۔ کوئی ایسا جس پر سب کو اعتماد ہو، کوئی ایسا جو آگے جانے کا راستہ دکھا دے۔ جب تک ایسا کوئی نہیں ملتا بس ایسے ہی چلتا رہے گا‘‘۔ ملکی سطح پر ایسا فرد یقینی طور پر قدرت کی ایک نعمت ہوا کرتا ہے لیکن دنیا نے نظام اور اس کو چلانے والے افراد پیدا کرکے یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل کرلیا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں نے روزمرّہ کی زندگی اور سیاست میں ایسا توازن پیدا کرلیا ہے کہ سیاست میں آنے والا بھونچال بھی عام انسانی زندگی کو متاثر نہیں کرسکتا۔ برطانیہ میں جون 2016 میں یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے پر ریفرنڈم ہوا اور سیاسی تبدیلیوں کا دروازہ کھل گیا۔ دو وزیراعظم مستعفی ہوئے اور دو سال کے اندر دو الیکشن ہوئے لیکن برطانیہ کی معیشت، معاشرت اور روزمرّہ کی زندگی اس سے بالکل متاثر نہیں ہوئی۔ اس ہموار زندگی کا سارا کریڈٹ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے سوا کسے دیا جا سکتا ہے جس نے کچھ بھی رکنے نہیں دیا۔ یہ مثال امریکا پر بھی درست بیٹھتی ہے۔ ٹرمپ جب صدر بنے تو وہ سب کچھ گرا کر دوبارہ بنانے کے خبط میں مبتلا تھے۔ ان کے نزدیک انہیں ووٹ ہی اس بات کیلئے ملے تھے کہ وہ دنیا کو ازسرنو ترتیب دیں گے۔ اس جنون کا علاج بھی امریکی نظام اور اسٹیبلشمنٹ نے یوں کیاکہ انہیں صرف اسی دائرے میں رکھا جو دستور میں طے کردیا گیا ہے۔ وہ شمالی کوریا سے مذاکرات کرسکتے تھے، وہ کرتے رہے۔ چین کے ساتھ بگاڑ سکتے تھے، بگاڑتے رہے۔ ایک وفاق کا سربراہ ہونے کے ناتے ان کے پاس اندرون ملک محدود سا ہی اختیار تھا اس لیے ان کی بہت سی خواہشات کی تکمیل نہ ہوسکی۔ امریکا اپنی ڈگر پر چلتا رہا۔ اسے ہی نظام کہتے ہیں، اسے ہی فلاحی ریاست کہتے ہیں، جہاں کوئی بھی نفرت یا محبت میں حد سے نہیں گزر سکتا۔
پاکستان میں جب بھی نظام کی بات ہوتی ہے تو بہت سے دانشور اس بحث کو ایک ہی سانس میں عمرانی معاہدے کی نئی تشکیل سے لے کر نئے دستور کی تحریر تک لے جاتے ہیں۔ اس بحث میں پڑنے کے بجائے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ نظام افراد کا محتاج رہتا ہے۔ کوئی نظام جب اپنا کام نہ کرپائے تو سب سے پہلے توجہ ان لوگوں پر دینا چاہیے جو اسے چلانے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں بشمول اسٹیبلشمنٹ میں جس قسم کی خود پسندی پائی جاتی ہے، اس کے ساتھ ریاستی نظام تو دور کی بات سائیکل بھی نہیں چل سکتی۔ گورنر جنرل غلام محمد بھی اسی خود پسندی کا شکار ہوکر اسمبلی توڑ بیٹھے، نواز شریف خود کو درست سمجھتے ہوئے تین بار اقتدار سے نکل گئے، محترمہ بے نظیربھٹو اپنے سوا سب کو غلط قرار دیتے ہوئے حکومت سے محروم ہوئیں، جنرل ضیا ء الحق اور جنرل مشرف بھی اسی انداز فکر سے آئے اور یہی سوچتے ہوئے چلے گئے۔ مشرقی پاکستان کے سانحے کی وجوہات میں سوائے خود پرستی کے اور کیا ہے؟ جنرل یحییٰ خان نے 1956 کا دستور بحال کرنے کے بجائے نئے دستور پر اصرار کیا، مجیب الرحمن اپنے چھ نکات پر اٹک گئے‘ اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہ ہوئے۔ تینوں میں ہر ایک خود کو مکمل درست اور دوسروں کو مکمل غلط سمجھ رہا تھا۔ انجام یہ کہ ملک ٹوٹ گیا۔ تاریخ کا یہ چند سطری خلاصہ تسلیم کرنے میں آپ کو اگر تامل ہے تو 1956 اور 1973 کا دستور اٹھا کر دیکھ لیجیے‘ دستور سازوں نے ان دونوں دستاویزات میں سوائے بے وقوفی اور خود پرستی کے ہر مسئلے کا حل پیش کیا ہے۔ اسی طرح سرکاری قواعد و ضوابط نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو علم ہوگا کہ عوام کی فلاح و بہبود ریاستی افسران کا پہلا اور آخری فرض ہے‘ لیکن نالائقی یا نکمے پن کا علاج ان میں بھی نہیں۔ میں سیاسیات کے ایک طالب علم ہونے کے ناتے پورے اعتماد سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا دستور ہو یا سرکاری قاعدے‘ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے ہاں رائج قوانین سے بھی کئی درجے بہتر ہیں۔ ہماری مصیبت صرف یہ ہے کہ ان اصولوں کے مطابق ریاست کو چلانے والے ہمیں دستیاب نہیں۔ ہم کہنے کو جمہوری ملک ہیں مگر واسطہ ہمیں شاہی اندازِ فکر سے پڑتا ہے۔ جو فیٹف میں کچھ دوست ملکوں کا تعاون نہیں حاصل کر سکے، وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے مخالف کو پکڑنے کے لیے برطانیہ کے وزیراعظم سے بات کروں گا۔ جنہیں عوام نے پانچ سال انتظار کرنے کے لیے کہا‘ وہ فوری طور پر حکومت مانگ رہے ہیں۔ جنہیں یہ دعویٰ ہے کہ صرف وہی اس ملک کے مسائل جانتے ہیں، وہ ذرا سا مختلف سوچنے والے کو غدار کہنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاتے۔ اس طرح کے افراد کے ساتھ کوئی نظام چل سکتا ہے نہ ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔