تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     28-10-2020

سرخیاں، متن اور فیصل ہاشمی کی نظم

لوگوں کا جمعیت پر اعتماد خوش آئند ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''موجودہ حالات میں لوگوں کا جمعیت پر اعتماد خوش آئند ہے‘‘ کیونکہ مسلسل ناکام رہ رہ کر یہ خاصی مایوس نظر آتی ہے اور خدشہ ہے کہ اسے اس دفعہ پھر بڑی ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ دوسرا، نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ اتفاق رائے نے بھی ایک طرح سے لٹیا ڈبو دی ہے اور یہ بھی جمعیت کا بیانیہ ہو کر رہ گیا ہے۔ جہاں پڑوسی ملکوں میں نواز شریف کے گن گائے جا رہے ہیں‘ جگہ جگہ میری تصویریں بھی لگائی جا رہی ہیں کیونکہ ہم نے ان کی آواز میں آواز ملائی ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں جمعہ خان بادیزئی کی جمعیت میں شمولیت پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
نواز اور مریم کا بیانیہ کسی قیمت پر قبول نہیں ہو گا: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اور مریم کا بیانیہ کسی قیمت پر قبول نہیں ہو گا‘‘ تاہم ابھی انہوں نے اس کی قیمت نہیں لگائی کیونکہ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے۔ اس لیے جب وہ باقاعدہ طور پر قیمت کی پیمائش کریں گے تو آخری فیصلہ اسی وقت کیا جائے گا اور یہ بھی لگتا ہے کہ کچھ لوگوں نے شاید بھنگ پی رکھی ہے حالانکہ ہمارے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے بھنگ کے کیمیائی اور اصل فارمولے پر کام شروع کر دیا ہے اس لیے بھنگ کے روایتی استعمال کو ترک کر دینا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ بھنگ کے پکوڑے بنا کر کھائے جا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
کسی کو حق نہیں دوں گا کہ مجھے ایجنٹ قرار دے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''کسی کو یہ حق نہیں دوں گا کہ مجھے ایجنٹ قرار دے‘‘ کیونکہ ہمارے بیانیے کے بعد کسی کو اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگر آدمی اپنے آپ کچھ کرنے کے قابل نہ ہو تو فارغ بیٹھنے اور مکھیاں مارنے سے کہیں بہتر ہے کہ کسی کا ایجنٹ بن کر ہی کچھ کر گزرے جبکہ ماضی کی کارگزاریاں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ روزِ اول ہی سے یہ سعادت حاصل کیے ہوئے ہیں ورنہ چوہدری اعتزاز احسن کے چیلنج کے بعد کم از کم ایک بار ہی کلبھوشن یادیو کا نام لے کر دکھا دیتے جبکہ آج کل ایسی وضع داری اور مستقل مزاجی کہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر کا جواب دے رہے تھے۔
نواز شریف کی سیاسی پرورش ضیاء الحق نے کی: عامر ڈوگر
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عامر ڈوگر نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی سیاسی پرورش ضیاء الحق کی گود میں ہوئی‘‘ بلکہ یہ بھی ان پر الزام ہے ورنہ وہ سیاسی آدمی تو کبھی تھے ہی نہیں۔ ایک سیدھے سادے تاجر تھے، جنہوں نے اپنے دور میں صرف تجارت ہی کی اور سنا ہے کہ اقتدار میں بھی صرف تجارت ہی کرتے رہے جس میں اس قدر کامیاب ہوئے کہ بڑے بڑے تاجروں کو پیچھے چھوڑ دیا اور اب بھی انہیں چیمبر آف کامرس یا سٹاک ایکسچینج کا صدر ہونا چاہیے تھا حالانکہ انہوں نے بیڑا ضیا الحق کے مشن کو پورا کرنے کا اٹھا رکھا تھا ۔ آپ اگلے روز کراچی کے ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
نواز، شہباز اور مریم نواز میں کوئی اختلاف نہیں: رانا ثنا
سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ''نواز، شہباز اور مریم نواز میں کوئی اختلاف نہیں‘‘ البتہ صرف شہباز شریف کسی حد تک نواز شریف کے بیانیے سے نالاں ہیں اور باقیوں کے ساتھ ڈوبنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنی انفرادیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ورنہ سب کی منزل ایک ہی ہے۔ کوئی چار دن آگے ہے تو کوئی پیچھے جبکہ ان کی یکسوئی اور یک جہتی کے لیے احتساب والے دن رات لگے ہوئی ہیں اور ہم سب کو ہماری آخری اور سیاسی آرام گاہ میں پہنچانے کا عزم صمیم رکھتے ہیں اور اس ضمن میں جتنی تاخیر ہو چکی ہے‘ اسے دیر آید درست آید بھی نہیں کہا جا سکتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کرپٹ عناصر کے سامنے جھکے ہیں نہ جھکیں گے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''عمران خان کرپٹ عناصر کے سامنے جھکے ہیں نہ جھکیں گے‘‘ کیونکہ وہ اپنی ٹیم کے کپتان کے علاوہ فاسٹ بائولر بھی رہ چکے ہیں اس لیے نہ جھکنا ان کی مجبوری بھی ہے۔ اگر وہ چاہیں بھی تو جھک نہیں سکتے؛ چنانچہ ان عناصر کو چاہیے کہ کوئی بہتر اور قابلِ کار طریقہ بروئے کار لائیں، خواہ مخواہ اپنا اور عمران خان کا وقت ضائع کرنے کے بجائے کوئی صحیح اور تیر بہدف راستہ اختیار کریں تا کہ کامیابی کا منہ دیکھ سکیں۔ آپ اگلے روز حسبِ معمول اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اور‘ اب ناروے میں مقیم فیصل ہاشمی کے مجموعۂ کلام ''ماخذ‘‘ میں سے ایک نظم:
لمحہ لمحہ اُدھڑتی ہوئی زندگی
سائیاں‘ سائیاں
یہ بتا دے ذرا
نیستی اور ہستی کی تمثیل میں
جسم کی اس ادھوری سی تکمیل میں
کتنے فی صد ہے تُو
کتنے فی صد ہوں میں!
کیوں فنا کے بگولوں کے
بکھرے ہوئے انت میں
لمحہ لمحہ اُدھڑتی ہوئی زندگی
کھینچتی ہے مجھے!
کس لیے صرف میں نے ہی دیکھیں یہاں
بے بسی سے گھسٹتی ہوئی انگلیاں
انگلیاں، ریت میں جذب ہوتے ہوئے آب کی
خشک سالی میں گزرے ہوئے خواب کی!
سائیاں، سائیاں
یہ بتا دے ذرا
ماورائے جہاں جو مِرا رُوپ تھا
وہ کہاں رہ گیا...!
یہ مِرا جسم تو خاک ہی خاک ہے
خاکہ کی تہہ میں بھی خاک ہی خاک ہے
خاک میں سب نہاں
یہ زماں... یہ مکاں
سائیاں،
کیوں فنا کی حدوں سے پرے
میں نکلتا نہیں!
آج کا مطلع
جو بوڑھا ہوں تو کیوں دل میں محبت زور کرتی ہے
میں جتنا چپ کراتا ہوں یہ اتنا شور کرتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved