کوئٹہ جلسے میں روسٹرم پر کھڑے ہر مقرر نے‘آخری حدود پھلانگتے ہوئے جس طرح اور جتنا چاہا‘ اپنے ہی ملک‘ اداروں اور وزیراعظم کے بارے میں وہ کچھ کہا جس کی کوئی حد نہیں۔ جس طرح براہِ راست الزامات کی ایک طویل فہرست گرج اور چمک کے ساتھ سنائی گئی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اسی جلسہ عام میں مسنگ پرسنز کے لواحقین کے نام پر محترمہ مریم صفدر کو خصوصی طور پر چند لوگوں سے ملوایا گیا۔ یہ لوگ ان کی ایک اتحادی پارٹی نے جمع کر رکھے تھے۔ ان نام نہاد مسنگ پرسنز میں ایک ایسے شخص کی تصویر والا پلے کارڈ بھی تھا جو میری تحقیق کے مطابق کراچی میں چینی قونصل خانے پر کئے گئے حملے کا سب سے اہم رکن تھا‘ جسے بعدازاں دبئی حکومت کی مدد سے دبئی ایئر پورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نام نہاد ''مسنگ پرسن‘‘ راشد بلوچ کی تصویر اٹھائے ہوئے وزیراعظم پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے محترمہ مریم صفدر نے جو کچھ کہا‘ میری نظر میں وہ کسی بھی طور مناسب نہیں تھا۔ جن چنیدہ افراد کو 'مسنگ پرسنز‘ کے نام سے جلسہ گاہ کی کوریج کیلئے آئے ہوئے غیر ملکی میڈیا کے سامنے بار بار لایا جا رہا تھا‘ ان میں دو تصاویر ان لوگوں کی تھیں جن کی کچھ عرصہ قبل ایک فراری کیمپ میں کھڑے ہو کر اپنے اسلحہ کی نمائش کرنے کی تصویریں سامنے آئی تھیں۔ ان کی یہ تصویر سوشل میڈیا پر اب دوبارہ وائرل ہو چکی ہے۔ ان کے چہرے کسی نقاب میں نہیں ہیں بلکہ صاف پہچانے جا رہے ہیں اور یہ 'نام نہاد مسنگ پرسنز‘ جدید ترین اسلحے کو اپنے جسم کے گرد لپیٹے ہوئے بڑے فخریہ انداز سے کیمرے کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہے مسنگ پرسنز کی اصل حقیقت‘ جس کی آڑ میں ملکی اداروں پر سنگ باری کی جاتی ہے۔
کوئٹہ کا یہ جلسہ کیا تھا؟ مجھ سے پوچھا جائے تو یہ اپنے ہی ملک کے اداروں پر لشکر کشی کا ایک منصوبہ تھا، اداروں میں دھڑے بندی قائم کرنا اور ڈسپلن کو دیمک لگانے کی ایک کوشش تھی۔ اپنی تقاریر میں جونیئر افسران کو اکسایا گیا کہ وہ اپنے سینئرز کے حکم کے پابند نہ رہیں۔ ایسے نعرے لگانے والے شاید اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ ہر ملک‘ ریا ست اور سلطنت میں ایک فوج لازماً رہتی ہے جو وطن کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے، اب یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ اپنے ملک میں اپنی فوج کو رکھنا ہے یا کسی دوسرے ملک کی فوج کو؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ عراق سے شام تک اور لیبیا سے مصر تک‘ یہ حقیقت بخوبی دیکھی جا سکتی ہے کہ ملکوں پر حملہ آور ہونے سے پہلے وہاں کی افواج کو کمزور بنانے کی کوشش کی گئی‘ اس کے لیے افواج میں دھڑے بندیوں کو فروغ دیا گیا، جب فوج کمزور ہوئی تو باقاعدہ حملہ کر دیا گیا یا مقامی گروپوں کو ہلہ شیری دی گئی ، نتیجتاًان ممالک کی خستہ حال اور شکست خوردہ فوج دھڑے بندیوں کا شکار ہونے کے باعث ملکی دفاع نہ کر سکی اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گئے۔ یہ منظر تمام شورش زدہ علاقوں میں ایک ہی پلان کے ساتھ دہرایا گیا اور پوری دنیا نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔
آج کچھ لوگ جمہوریت اور ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ملک کو آئین اور قانون کے تابع کرنے کی تلقین کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت اور شواہد کے ملکی اداروں پر مختلف نوعیت کے الزامات لگا رہے ہیں جبکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ آئین سے کھلواڑ ہمیشہ سیاسی جماعتوں نے کیا۔ زیادہ دور نہ جائیے‘ 2009ء میں جب پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت ختم کرنے کیلئے گورنر راج لگایا گیا تو یہ کارِخیر پاکستان پیپلز پارٹی کے نصیب میں آیا اور اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر‘ پنجاب کے سیاہ و سفید کے مالک بنا دیے گئے تھے۔ پچیس اکتوبر 2009ء کو پنجاب میں گورنر راج کیسے لگا‘ کیوں لگایا گیا‘ یہ پیپلز پارٹی‘ سابق صدر آصف علی زرداری اور اس وقت کے نظامِ عدل کے گرد گھومتی ہوئی ایک ایسی طویل کہانی ہے جس کی در پردہ کہانیوں کا میں چشم دید گواہ ہوں؛ تاہم اس کو احاطہ تحریر میں لانے کیلئے کئی باب درکار ہیں۔
25 اکتوبر کو کوئٹہ کے جلسہ عام میں پی ڈی ایم نے جمہوریت اور بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے ایسی درد ناک داستانیں بیان کیں کہ سننے والے دل تھام کر رہ گئے لیکن حاضرین اور سامعین پر چونکہ ان تقریروں سے ایک سحر سا طاری ہو چکا تھا ا س لئے جلسہ گاہ کے اندر اور سٹیج کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے کسی فرد نے جسارت نہیں کی کہ حقائق کی روشنی میں ان تقاریر کو پرکھتا۔ جلسے سے یا سٹیج پر بیٹھا کوئی بھی مرد قلندر اٹھ کر کہہ سکتا تھا کہ ستر کی دہائی میں بلوچستان میں سب سے پہلا گورنر راج جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت لگایا تھا جب بلوچستان میں سردار عطا اللہ مینگل وزیراعلیٰ تھے۔ بلوچستان میں دوسرا گورنر راج ووٹ کو عزت دینے والے میاں نواز شریف نے اس وقت لگایا جب بلوچستان میں سردار عطا اللہ مینگل کے فرزند ارجمند سردار اختر مینگل کی حکومت تھی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اسی سٹیج پر کھڑے ہو کر اور انہی لوگوں کے درمیان بیٹھ کر سردار اختر مینگل جمہوریت کا درس دیتے ہوئے‘ اُن لوگوں کی جانب اشارے کرتے ہوئے الفاظ کے کوڑے برسا رہے ہیں جنہوں نے نواز شریف کو سردار اختر مینگل کے خلاف کسی بھی قسم کی غیر قانونی کارروائی نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ گلگت‘ بلتستان سے ہی سہی‘ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری صاحب نے بلوچستان کے حقوق اور ان کی محرومیوں کا بیان اس طرح کیا جیسے ان کے دل میں اور پی پی پی کے منشور میں بلوچ عوام کیلئے شدید درد بھرا ہوا ہے اور اگر پیپلز پارٹی کو نکال دیا جائے تو پاکستان میں جمہوریت اور بلوچستان کے حقوق کی کوئی بات کرنے والا نہیں ملے گا لیکن کیا کریں کہ ماضی، تاریخ اور سچ ہمیشہ پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ بلوچستان کا تیسرا اور اس وقت تک کا آخری گورنر راج 13 اکتوبر 2013ء کو اسی پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں اس وقت آیا جب آصف علی زرداری صدرِ پاکستان اور راجہ پرویز اشرف وزیراعظم تھے اور بلوچستان میں اس وقت سردار اسلم رئیسانی کی حکومت تھی۔ صرف بلوچستان یا پنجاب ہی نہیں‘ 30 اکتوبر 1998ء کو حکیم سعید کے قتل کے بعد جب سندھ میں گورنر راج لگایا گیا تھا تو اس وقت لیاقت جتوئی سندھ کے وزیراعلیٰ اور میاں نواز شریف وزیراعظم تھے۔ گورنر راج کی آڑ میں جمہوریت اور اپنے سیا سی مخالفین سے کیا جانے والا سلوک لوگ آج تک نہیں بھول پائے لیکن کیا کہئے کہ بار بار جمہوریت کو اپنے قدموں تلے روندنے والے یہ سب کردار پچیس اکتوبر کو جلسہ گاہ کے بلند سٹیج پر جلوہ افروز ہو کر بلوچستان کی محرومیوں کا اس قدر دلدوز انداز میں تذکرہ کرتے رہے جیسے انہیں یقین ہو کہ اس جلسہ کے حاضرین اور دور بیٹھے سامعین حقیقت سے بالکل نابلد ہیں اور انہیں علم ہی نہیں کہ عمران خان کو پہلی دفعہ حکومت میں آئے ابھی دو سال ہی ہوئے ہیں‘ لیکن یہ تقریریں کرنے والے تو پچھلی کئی دہائیوں سے بلوچستان کے وسائل اور بجٹ پر قابض ہیں۔
اگر انہیں عمران خان کے دو برس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی تو پھر اپنی اتنی دہائیوں کی ترقی، جمہوریت اور آئین کی پاسداری ہی دکھا دیں؟ پی ڈی ایم کے لیڈران کوئٹہ میں گرجتے برستے ہوئے بلوچ عوام کی محرومیوں پر ایسے تند و تیز الفاظ کے تیر برسا رہے تھے جیسے گزشتہ دہائی میں ان لوگوں نے نہیں‘ عمران خان صاحب نے بلوچستان پر حکومت کی ہو اور جیسے پچھلے ستر برسوں کا حساب بھی وزیراعظم عمران خان کو ہی دینا پڑے گا۔ روزِ محشر تو ہر انسان اپنے کئے کا صلہ پائے گا ہی‘ اس دنیا میں بھی ہمارے اعمال کی گواہی دینے والے کیمروں کی فوٹیج اور ماضی کے اوراق ہمارے سامنے آ کر گواہی دیتے ہیں کہ کس نے کس طرح اور کتنا اس ملک اور اس کے عوام کی بربادی میں حصہ ڈالا ہے۔ صوبوں کی پسماندگی اور غربت کا رونا رونے والوں سے سوال ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے‘ کس نے دو دو اور تین تین بار ان صوبوں پر حکومت کی ہے؟
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت... دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بندِ قبا دیکھ