جسم کو فیڈ اور ذہن کو فیڈ بیک کی ضرورت پڑتی ہی رہتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کی حقیقی تحریک برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے کہ کوئی آپ کو سراہے نہ سراہے‘ آپ کے کام کو ضرور سراہے۔ فیصل آباد کے عامر گجر اور لیاقت پور، ضلع رحیم یار خان کے عامر عباسی کا شمار خاکسار کے اُن قارئین میں ہوتا ہے جو کالم پڑھ کر خاموش بیٹھ نہیں رہتے بلکہ کچھ نہ کچھ فیڈ بیک دیتے رہتے ہیں۔ مجھ ناچیز کو مسلسل لکھتے رہنے کی تحریک دینے میں ان احباب کے خلوص کا کلیدی کردار رہا ہے۔ گزشتہ روز لاہور سے طاہرہ اقبال کی ای میل موصول ہوئی، انہوں نے لکھا کہ شخصی ارتقا کے موضوع پر ''کالم آرائی‘‘ کا سلسلہ انہیں زیادہ پسند ہے اور وہ فجر کی نماز اور ورزش کے بعد ناشتے سے قبل دن کی پہلی خوراک کے طور پر یہ کالم اپنے بچوں کو پڑھواتی ہیں! فیڈ بیک بہت سے قارئین کی طرف سے ملا ہے اور ستائش پر مبنی الفاظ کے ذریعے حوصلہ افزائی کا سامان بھی بارہا ہوا ہے مگر اس نوعیت کا فیڈ بیک پہلی بار ملا ہے۔ دن کی پہلی خوراک!
جسم کے لیے دن کی پہلی خوراک یعنی ناشتے سے قبل کالم پڑھنا ایک خوشگوار معمول ہے۔ فی زمانہ پڑھنے کا رجحان ویسے ہی کمزور پڑتا جارہا ہے۔ اخبار باقاعدگی سے پڑھنے والوں کی تعداد خاصی کم ہوچکی ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ ہم اخباری قارئین کے قحط الرجال کے دور میں جی رہے ہیں! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے جن میں معقول حد تک سنجیدگی پائی جائے۔ لوگ پڑھنے لکھنے سے یوں دامن کش ہوتے جارہے ہیں گویا یہ کوئی قبیح عمل ہو۔ علم و فن کی ناقدری تو خیر ہر دور میں رہی ہے مگر فی زمانہ یہ سب کچھ روح فرسا ہوتا جارہا ہے۔ کچھ یوں بھی ہے کہ لکھنے والے اپنی مرضی کو قارئین کی پسند و ناپسند پر مقدم رکھتے ہیں۔ لوگ جو کچھ پڑھنا چاہتے ہیں وہ اگر ڈھنگ سے ان کے سامنے رکھا جائے تو اُنہیں پڑھنے کی تحریک مل ہی جاتی ہے۔ اگر لکھاری صرف اپنی پسند دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرے تو بنتی بات بھی بگڑ جاتی ہے۔ لکھاری کی اپنی مرضی بھی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے مگر اصل مرضی تو پڑھنے والوں کی ہے۔ اگر انہیں اپنی پسند کی چیز نہیں ملے گی تو کیوں پڑھیں گے؟ کسی بھی قاری کو کوئی تحریر پڑھنے کی تحریک اُسی وقت مل سکتی ہے جب مواد اُس کی مرضی کا ہو۔ یہ ایسی واضح بات ہے کہ وضاحت کی کوئی ضرورت ہے نہ گنجائش۔
اخبارات اور جرائد میں پڑھنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ اخبارات کے ادارتی صفحات قارئین کے ذہنوں کو خوراک فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ ادارتی صفحات سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل پر ایسے تجزیے پیش کرتے ہیں جو تازہ بھی ہوتے ہیں اور بہت حد تک ضرورت کے مطابق بھی۔ ان تجزیوں کو باقاعدگی سے پڑھتے رہنے کی صورت میں قارئین کی ایک رائے بنتی ہے۔ رائے عامہ کی تشکیل میں سنجیدہ مضامین کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اخباری کالموں میں بالعموم ہلکے پھلکے انداز سے بات کی جاتی ہے۔ بیشتر کالم نگار چاہتے ہیں کہ تحریری ہلکی پھلکی رہے تاکہ پڑھنے والوں کو زیادہ بوجھل محسوس نہ ہو۔ محض مواد نہیں بلکہ عنوان بھی ہلکا پھلکا رکھا جاتا ہے تاکہ فرحت کا احساس ہو۔ آج کا انسان بہت سے معاملات میں شدید الجھن کا شکار ہے۔ وہ آگے بڑھنے کا راستہ چاہتا ہے مگر راستہ اُسے آسانی سے دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں لکھنے والوں کو آگے بڑھ کر اُس کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ سیاسی اور معاشی تجزیے بھی اپنی جگہ بہت کارآمد سہی، اصل مسئلہ تو معاشرت کا ہے۔ معاشرتی مسائل پر لکھنے والے کم ہیں۔ سیاسی اور معاشی معاملات کے تجزیوں کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر لوگ اپنے اصل مسائل بھول جاتے ہیں اور جب ہوش آتا ہے تب تک پانی سروں سے گزر چکا ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ انتہائی درجے کی شکست و ریخت کا شکار ہے۔ جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ ہوا نہیں اور جو کچھ ہوا وہ تباہی کا سامان کرگیا۔ اب ہمیں بچنا ہے، سلامت رہ کر دکھانا ہے۔ یہ نازک مرحلہ ہے۔ ایسے میں لکھنے والوں کی ایک ایسی کھیپ چاہیے جو اہلِ وطن میں اُمید کی روح پھونکے، اُنہیں حوصلہ دے، کچھ کرنے کی تحریک دے۔ معاملات نفی کی نذر ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں اثبات کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔
جرائدو رسائل کو ایسا مواد پیش کرنے پر توجہ دینی چاہیے جس میں قارئین کی دلچسپی کا سامان ہو۔ اگر قارئین کو اپنی پسند کا مواد پڑھنے کے لیے ملے تو وہ پڑھنے کی عادت کو زیادہ توانا بنانے پر بھی متوجہ ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی لکھاری کے لیے حقیقی کامیابی یہ ہے کہ وہ قارئین کی پسند کا خیال بھی رکھے اور اپنی بات بھی کہہ جائے۔ شخصی ارتقا اور معیاری زندگی بسر کرنے کی تحریک خاکسار کے پسندیدہ ترین موضوعات ہیں۔ آج کا پاکستان بیشتر معاملات میں الجھن سے دوچار ہے۔ سوچنے کی عادت بہت حد تک ترک کی جاچکی ہے۔ لوگ سوچنے کے نام پر محض پریشان رہتے ہیں اور اگر کوئی تھوڑا سا آگے بڑھتا ہے تو شور شرابے کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ سوچنے والا انسان ہے اور معاملات کو محض تماشائی کی حیثیت سے نہیں دیکھتا بلکہ ردِعمل ظاہر کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہے۔
پڑھنا محض مشغلہ نہیں، زندگی کی بنیادی ضرورت بھی ہے۔ پڑھنے کی عادت ہی انسان کو کچھ بناتی ہے۔ کوئی بھی شخص عمومی سطح سے اُسی وقت بلند ہو پاتا ہے جب وہ زیادہ پڑھتا ہے اور بیشتر معاملات میں کوئی رائے قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستانیوں میں مطالعے کا رجحان انتہائی کمزور پڑچکا ہے۔ یہ خطرناک بات ہے۔ ذہن کو کم و بیش ہر معاملے میں نئی معلومات درکار ہوتی ہیں۔ ذہن کو اُس کی ضرورت کے مطابق خوراک دیتے رہنا اُسی وقت ممکن ہے جب ہم مطالعے کا قوی رجحان رکھتے ہوں، اپنی پسند اور ضرورت کے شعبوں میں پیش رفت پر نظر رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پڑھتے ہوں۔ دنیا بھر میں مطالعے کو پروان چڑھانے کے حوالے سے ایک اچھا رجحان بڑی کتابوں کے خلاصے پڑھنے کا ہے۔ کتابوں کے خلاصے خاص محنت سے ضبطِ تحریر میں لائے جاتے ہیں۔ تین چار سو صفحات کی کتاب کو آٹھ دس صفحات کے خلاصے میں پڑھنے سے یہ اندازہ تو ہو ہی جاتا ہے کہ کتاب میں ہے کیا۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو لوگ خلاصے سے تحریک پاکر پوری کتاب پڑھتے ہیں۔ اردو میں کتابوں پر تبصروں کی روایت تو رہی ہے، خلاصے کی روایت اب تک باضابطہ طور پر قائم نہیں ہوئی۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے بیشتر لکھاری اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ خلاصے کے ذریعے کتاب پڑھی نہیں جاسکتی۔ کون کہتا ہے کہ خلاصہ پڑھنا کتاب پڑھنے کے مترادف ہے؟ خلاصہ اچھی طرح لکھا گیا ہو تو اصل کتاب پڑھنے کی تحریک ملتی ہے۔
بہر کیف! مطالعے کو بنیادی ترجیحات میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس کی ابتدا اخبار کے مطالعے سے کی جاسکتی ہے۔ اخباری مضامین کے مطالعے کو ذہن کے لیے دن کی پہلی خوراک کے طور پر اپنانے سے طبیعت کو فرحت اور فراوانی کا احساس ملتا ہے۔
پڑھنا محض مشغلہ نہیں‘ زندگی کی بنیادی ضرورت بھی ہے۔ پڑھنے کی عادت ہی انسان کو کچھ بناتی ہے۔ کوئی بھی شخص عمومی سطح سے اُسی وقت بلند ہو پاتا ہے جب وہ زیادہ پڑھتا ہے اور بیشتر معاملات میں کوئی رائے قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستانیوں میں مطالعے کا رجحان انتہائی کمزور پڑ چکا ہے۔ یہ خطرناک بات ہے۔