انٹرویو کے دوران شوکت عزیز کی جو خصوصیت جنرل مشرف کو سب سے زیادہ پسند آئی وہ تھی ان کی انگریزی اور مالی اُلجھنوں کے حل کی غیر معمولی قابلیت۔ اگرچہ جنرل مشرف مالی امور کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے لیکن انگریزی سے اتنے متاثر ہوئے کہ شوکت عزیز سے پوچھا کہ آپ کو کیا چاہیے؟ ’آزادی اور خودمختاری، اتنی کہ آپ بھی اگر پیسے مانگیں تو مجھے انکار کا حق ہو‘ شوکت عزیز کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی جنرل مشرف نے انہیں یہ آزادی دے دی اور بڑی حد تک اپنی بات کا پاس بھی رکھا۔ شوکت عزیز ایک خوش قسمت وزیر خزانہ ثابت ہوئے۔ وہ اس طرح کہ مالیاتی نظام میں اصلاح کے بہت سے بنیادی نوعیت کے مشکل کام سرتاج عزیز اوراسحاق ڈار کر چکے تھے اب بس انہی خطوط پر کام آگے بڑھانا تھا۔ خزانے کی کیفیت اگرچہ بہت اچھی نہیں تھی لیکن ان کے اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی اوریوں ہماری مالی مشکلات میں بھی خاطر خواہ کمی آگئی۔ ملکی معیشت میں پیسہ آجانے سے شوکت عزیز کا کام اور بھی آسان ہوگیا لیکن ایک اچھے بینکر کی طرح انہوں نے ریاستی مشینری کو پیسے کی ہیر پھیر سے عمومی طور پر دور ہی رکھا۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ انہوں نے سب کچھ بہتر کرلیا تھا لیکن یہ ضرور ہوا کہ بہتری کے آثار نظر آنے لگے ۔ خزانے پر ان کی گرفت کا اندازہ یوں لگائیے کہ جب لاہور میں نیا ائیرپورٹ بنا تو اس کے افتتاح کے لیے جنرل پرویز مشرف کو مدعو کیا گیا۔ اس وقت میر ظفراللہ خان جمالی وزیر اعظم تھے اور شوکت عزیز ان کی کابینہ میں بھی بطور وزیرخزانہ شامل تھے۔ ائیرپورٹ کے افتتاح کے موقعے پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ نے دبے دبے لفظوں میں تقاضا کیا کہ اس موقعے پر اتھارٹی کے ملازمین پر کچھ عنایت کردی جائے۔ جب جنرل مشرف کی تقریر کی باری آئی تو انہوں نے اس تقاضے سے اتفاق ظاہر کیا اور کہا ’میں شوکت عزیز صاحب سے درخواست کروں گا اگر وہ مان گئے تو یہ کام ہوجائے گا‘۔ میں بطور صحافی اس تقریب کی رپورٹنگ کررہا تھا، میں نے اپنے وقت کے آمر مطلق کے منہ سے یہ جملہ سنا تو حیران رہ گیا۔ تقریب ختم ہوئی تو میں شوکت عزیز کی تاک میں رہا اور آخر کار ان کو جا لیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ جنرل مشرف کسی مد میں رقم خرچ کرنے کا کہیں اور آپ منع کردیں؟ شوکت عزیز کا جواب چونکا دینے والا تھا ،کہنے لگے ’ ہاں، سول معاملات میں میری مرضی بنیادی ہے‘ ۔ ان دنوں عالمی سطح پر شوکت عزیز کی مالی مہارت کو بڑا سراہا جارہا تھا، میں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ اس پذیرائی کا راز کیا ہے ، شوکت عزیز نے ایک بار پھر مجھے حیران کردیا، بولے ’سادہ سی بات ہے، میں اپنے گلّے سے پیسے گن کر نکالتا ہوں، گن کر دیتا ہوں اور پھر جس کو دیتا ہوں اس سے حساب مانگ لیتا ہوں، یہی کام جوڑیا بازار کا ہر تاجر کرتا ہے اور منافعے میں رہتا ہے، میں بھی یہی کرتا ہوں اور دنیا میری مہارت کی داد دیتی ہے‘۔ پیسے گِن کر دینا ، گِن کر لینا اور پھر جسے دیے ہوں اس سے حساب لے لینا بظاہر ایک آسان سا اصول لگتا ہے، لیکن اس پر عمل کرنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں یہ کام اور بھی مشکل ہوتا ہے کہ یہاں پیسے کم اور اخراجات زیادہ ہیں، یہاں ٹیکس دینے والے کی بجائے ٹیکس نہ دینے والا معزز سمجھا جاتا ہے، یہاں کبھی ایک صنعتی جتھا حکومت کو یرغمال بنالیتا ہے تو کبھی دوسرا، یہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھائی جائیں تو وہ ہڑتال پر چلے جاتے ہیں، یہاں ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز اشخاص کے اثاثوں کی صداقت اور جواز پر سوالیہ نشان ہیں ۔ اسحاق ڈار کو اسی پاکستان میں اپنے اس بجٹ پر عمل درآمد کرانا ہے جس میں انہوں نے جگہ جگہ ٹیکس چوروں کو پکڑنے کے لیے پھندے لگا دیے ہیں۔ ان کے پاس وہی فیڈرل بورڈ آف ریونیو ہے جو ٹیکس لینے کی نہیں بلکہ رشوت لینے کی صلاحیت کی وجہ سے سے بدنام ہے۔ اس ادارے کی توقیر کا عالم یہ ہے کہ اکثر چھوٹے کاروباری ٹیکس سے زیادہ رشوت دینا پسند کرلیتے کہ ایک بار اس ادارے میں ان کا نام آگیا تو پھر اس کے اہلکار ان کا جینا ددوبھر کردیں گے۔ اگرچہ فنانس بِل میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے کمپیوٹرائزڈ نظام کو بھی تحفظ دے دیا گیا ہے لیکن اس سے یہ امکان بھی بڑھ گیا ہے کہ چھوٹے کاروباری کی گردن بھی ایف بی آر کے انگوٹھے کے نیچے آجائے گی۔ اب یہ کمال ہمارے وزیر خزانہ کو دکھانا ہوگا کہ اپنے ماتحت ادارے کو حاصل اختیارات ناجائز استعمال نہ ہونے دیں اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے نشان عبرت بنانے میں زیادہ دیر نہ لگائی جائے۔ ٹیکس دہندگان کا یہ شکوہ بالکل جائز ہے کہ اگر کسی بد طینت اہلکار کی شکایت کی جائے تو پھر نیچے سے اوپر تک سارا محکمہ اسے بچانے اور شکایت کنندہ کو تباہ کرنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ بجٹ کا دوسرا حصہ ہے اخراجات، جن میں سے دفاع ، قرضوں کی ادائیگی اور تنخواہوں کا معاملہ تو خاصا شفاف رہتا ہے لیکن ترقیاتی اخراجات کے نام پرجو تباہی پھرتی ہے وہ سب جانتے ہیں۔ اگر ترقیاتی پروگرام کے تحت بننے والے منصوبوں پر اٹھنے والے اخراجات کی نگرانی کا کوئی مؤثر نظام نہ ہوا تو کرپشن کا کاروبار پہلے کی طرح ہی جاری رہے گا۔ اس معاملے میں یہ خیال بھی رکھنا ہوگا کہ ہمارا نظام ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص شدہ رقم پوری خرچ بھی کرے، کہیں ایسا نہ ہو کہ سخت نگرانی کے باعث یہ رقم پڑی پڑی ضائع ہوجائے۔ اس طرح ضائع ہوجانے والی رقم کے بارے میں معاشیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ’ترقی کے لیے مختص شدہ رقم اگر خرچ نہیں ہورہی تو بہترہے اسے لوٹ لیا جائے، اگر یہ نہیں کرنا تو کم ازکم کرنسی نوٹوں کو جلا دیا جائے تاکہ اور کچھ نہیں تو اس آگ پر ہاتھ ہی تاپ لیے جائیں‘۔ترقیاتی رقوم کا خرچ ہونا اتنا اہم ہے کہ اگر آئندہ مالی سال میں پانچ سو ارب سے زائد کا یہ سرمایہ ایمانداری سے خرچ ہوگیا تو پاکستا ن ایک سال کے اندر اندر ہی ایک بہتر ملک بن سکتا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جو اپنے ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی کمائی کا ایک بڑا حصہ ریلوے، پی آئی اے، واپڈا اور پاکستان سٹیل ملز میں جھونک دیتا ہے۔ ان اداروں کو دی جانے والی رقم صارفین کو سہولت دینے کے لیے نہیں بلکہ ان میں ہونے والی ہمہ گیر چوری اور ڈاکا زنی سے ہونے والے نقصانات پورا کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ اگر ان اداروں کو درست نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب یہ ادارے ہی ہمارے ملک کو برباد کردیں گے۔اسحٰق ڈار صاحب کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ کسی بھی طرح ایک ایسا نظام وضع کریں جس کے تحت ان اداروں کو رقم اسی صورت میں دی جائے جب یہ اپنی اصلاح کا کوئی سنگ ِ میل عبور کرلیں۔ اپنے مقرر کردہ ٹیکس ہدف کا حصول، بربادی کے نشان اداروں کی بحالی اور ترقیاتی رقوم کا درست استعمال دراصل اسحاق ڈار کے امتحانی پرچے کے لازمی سوال ہیں جن کے درست جواب دیے بغیر گزارا نہیں۔ مجھے کسی نے کہا کہ اسحاق ڈار، شوکت عزیز سے بہتر وزیر خزانہ ثابت ہوں گے۔ میں نے عرض کی، ہمیں نتیجے پر پہنچنے کے لیے چھ ماہ انتظار کرنا ہوگا۔چھے ماہ میں اسحاق ڈار کی وزارت کی کارکردگی یہ بھی بتا دے گی کہ نواز شریف کی تیسری حکومت کی عمر کتنی ہے۔امتحان وزارتِ خزانہ دے گی اور کامیابی یا ناکامی وزارتِ عظمٰی کے کھاتے میں لکھی جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved