تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     30-10-2020

Tom, it\'s personal as hell

سیاست اب ذاتی دشمنی کی حدوں میں داخل ہوچکی ہے۔ مان لیتے ہیں‘ دشمنیاں پہلے بھی تھیں اور اس ملک نے ان دشمنیوں کی بہت بڑی قیمت چکائی‘ لیکن جو دشمنیاں عمران خان اور شریف خاندان کے درمیان پیدا ہو رہی ہیں ان کی قیمت کا اندازہ آنے والے برسوں میں ہی لگایا جا سکے گا۔
اس طرح کی دشمنی بھٹو صاحب کے دور میں چوہدری ظہورالٰہی خاندان میں شروع ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے جب بھٹو پھانسی لگے تو چوہدری ظہور الٰہی نے وہ پین جنرل ضیا سے مانگ لیا تھا جس سے انہوں نے بھٹو کی موت کے پروانے پر دستخط کیے تھے۔ بعد میں چوہدری ظہور الٰہی کو انتقاماً الذوالفقار نے قتل کر دیا تھا۔ یہ دشمنی یہیں نہیں رکی بلکہ بینظیر بھٹو اور چوہدری پرویز الٰہی تک چلی۔ بینظیر بھٹو نے وطن واپسی سے پہلے جنرل مشرف کو جو خط لکھا تھا اس میں پرویز الٰہی کا نام بھی شامل تھا کہ اگر انہیں (بے نظیر بھٹو) کچھ ہوا تو انہیں (پرویز الٰہی) ذمہ دار سمجھا جائے۔ اعجاز شاہ اور جنرل حمید گل کا نام بھی تھا۔ بینظیر بھٹو کی جو کتاب ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آئی‘ اس میں ایک باب تھا جس میں بینظیر بھٹو نے لکھا کہ انہیں قتل کرانے کے لیے گورنر ہائوس پنجاب میں ایک سازش تیار کی گئی تھی اور قاتلوں کو ڈھائی لاکھ ڈالرز کے قریب ادائیگی کی گئی تھی۔ ان کا اشارہ انہی پرانے دشمنوں کی طرف تھا۔ اس بات کو آصف زرداری آگے لے کر چلے جب انہوں نے بینظیر بھٹو کے سوئم کے روز نوڈیرو میں پریس کانفرنس کی۔ میں اس وقت نوڈیرو میں اس پریس کانفرنس میں موجود تھا۔ ایک انگریزی اخبار کی خاطر کوریج کے لیے گیا ہوا تھا۔ زرداری نے سیدھا ق لیگ کو قاتل لیگ کہا‘ جس کا مطلب بڑا واضح تھا کہ بینظیر بھٹو کے قتل میں کس پر انہیں شک ہے۔ یہ اور بات کہ زرداری صاحب نے بیوی کے قتل کو ایک طرف رکھا‘ سیاسی فائدوں کے لیے اس دشمنی کو دوستی میں بدلا اور اسی ق لیگ کو اپنی پارٹی حکومت میں حصہ دے کر پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنا دیا۔ 
اس طرح کی ذاتی دشمنی ہم نے شریف خاندان اور گورنر سلمان تاثیر کے درمیان بھی دیکھی جب نواز شریف کے دور میں سلمان تاثیر کو تھانے میں پوری رات تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے کی جو تفصیلات مرحوم عباس اطہر نے اپنے کالم میں لکھیں‘ وہ دل دہلا دیتی ہیں۔ شریف خاندان اور بینظیر بھٹو کے مابین بھی دشمنی محض سیاسی نہ رہی بلکہ ذاتی شکل اختیار کر گئی تھی۔ بینظیر بھٹو نے وزیراعظم بن کر شریف خاندان کے کاروباری مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے جہاں ان کے جہاز کو کئی ماہ تک بندرگاہ پر روکے رکھا‘ وہیں رحمن ملک نے میاں شریف کو ان کے دفتر سے اٹھوا لیا تھا۔ 
اس سے پہلے نواز شریف نے1988-90 کے الیکشن میں اس الائنس سے الیکشن لڑا جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس نے بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی نازیبا تصویریں اخبارات کے فرنٹ پیج پر چھپوائیں اور ایسے مواد پر مبنی پرچیاں جہازوں کے ذریعے گرائی تھیں۔ یہ دشمنی کا خطرناک پہلو تھا جو سامنے آیا تھا۔ نواز شریف نے بھٹو پر سنگین الزامات لگائے اور پنڈی میں اس جیل کی جگہ پارک بنائے جانے کی مخالفت کی جہاں بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔ ایک جلسے میں دعویٰ کیا کہ وہ وزیراعظم بن کر اس یادگار کو اکھاڑ دیں گے۔ جلسوں میں وہ کہتے تھے کہ ان کا بینظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کا نام سن کر خون کھولنے لگتا ہے۔ وہ بینظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دینے والوں میں شامل تھے۔ دشمنی یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ نواز شریف نے سیف الرحمن کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ کے جج ملک قیوم کو یہ ہدایات دلوائی تھیں کہ زرداری اور بینظیر بھٹو کو سات سات سال سے کم سزا نہیں ہونی چاہیے اور تمام جائیداد بھی ضبط کرنی چاہیے۔ وہی سزا دی گئی۔ یہ تھا وہ ذاتی غصہ اور انتقام جو نواز شریف کے دل میں بینظیر بھٹو کے لیے تھا۔ بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ جب انہیں پتہ چلا کہ بینظیر بھٹو اور زرداری نے جنیوا میں منی لانڈرنگ کی ہے اور بینظیر بھٹو نے ایک پارٹی سے نیکلس بھی تحفہ لیا ہے تو فوراً اپنے اٹارنی جنرل محمد فاروق کو کہا کہ جنیوا خط لکھ کر اس میں پارٹی بنیں اور نہ صرف انہیں سزا دلوائیں بلکہ وہ لوٹی ہوئی رقم بھی واپس لائیں۔ وہی ہوا‘ بینظیر بھٹو کو جنیوا میں بہت سے عدالتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ 
نواز شریف جب تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو دو ہزار چودہ‘ پندرہ میں جنیوا کے ایک وکیل نے حکومت کو لکھا کہ آصف زرداری نے سوئس حکومت کو اپروچ کیا ہے کہ بینظیر بھٹو کا تیس لاکھ روپے کی مالیت کا جو نیکلس سوئس حکومت نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے وہ واپس کیا جائے کیونکہ اس پر بینظیر بھٹو کے بچوں کا حق ہے۔ اس خط کو پانے کے بعد نواز شریف نے فوراً وزارت قانون کو کہا تھا کہ وہ وکیل ہائر کریں اور زرداری کو یہ نیکلس نہ لینے دیں۔ ذرا ذہن میں رکھیں‘ نواز شریف یہ سب ہدایات اس وقت دے رہے تھے جب درمیان میں کئی برس گزر چکے تھے۔ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری جدہ میں جلاوطن نواز شریف سے سرور پیلس میں ملاقات بھی کر آئے تھے‘ جس کی یادیں اب مریم نواز پچھلے دنوں اپنی کراچی تقریر میں بلاول بھٹو کے سامنے تازہ کر رہی تھیں کہ کیسے بینظیر بھٹو نے ان سے ماں جیسا سلوک کیا تھا۔ اس دوران چارٹر آف ڈیموکریسی پر بھی دستخط ہوچکے تھے‘ جس میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے بھائی بہن بن کر سب کچھ بھلانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ سب کچھ جدہ وزٹ اور لندن کے معاہدوں بعد ہو رہا تھا۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ ایسی دشمنیاں اگر وقتی طور پر دب جائیں تو بھی ختم نہیں ہوتیں۔ 
اب یہی ہم دیکھ رہے ہیں عمران خان اور نواز شریف کے درمیان دشمنی چل رہی ہے۔ لوگ لاکھ کہیں کہ یہ سیاسی دشمنی ہے، لیکن میں ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ اس دشمنی کا آغاز اس وقت ہوا‘ جب عمران خان نے سیاست جوائن کی اور نواز شریف کے خلاف تقریریں شروع کیں۔ نواز شریف کو محسوس ہوا ان ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ انہوں نے عمران خان کو پلاٹ دیئے، ہسپتال کی زمین دی، پیسے دیے، ہسپتال بنوانے میں مدد دی اور اب وہی عمران خان ان کے خلاف ہوگیا تھا۔ عمران خان سے سیاسی میدان میں لڑنے کی بجائے نواز شریف نے وہی حربے آزمائے جو بینظیر بھٹو خلاف وہ آزما چکے تھے کہ کردار کشی کرو۔ اگر عمران خان کی کتاب 'مائی پاکستان‘ پڑھیں تو اندازہ ہوگا عمران خان جمائمہ سے طلاق کا بڑا ذمہ دار شریف خاندان کو سمجھتے ہیں۔ آج جب عمران خان اقتدار میں ہیں اور وہ شریف خاندان پر حملے کرتے ہیں‘ ان کی ہر تقریر میں شریف خاندان کا ذکر ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ انہیں چھوڑیں گے نہیں تو اس کے پیچھے ذاتی رنجش ہے‘ سیاسی نہیں۔ سیاسی رنجش میں لوگ اس حد تک نہیں چلے جاتے جس حد تک نواز شریف اور عمران خان چلے گئے ہیں۔ اگر آپ قومی سطح پر سیاست کو پڑھنا چاہیں تو ہمیشہ اس تناظر میں دیکھا کریں کہ جو لوگ ایک دوسرے کو ملک دشمن، غدار یا لٹیرا کہہ رہے ہیں‘ اس کے پیچھے ذاتی غصہ اور رنجش ہے۔ اگر لوٹ مار ایشو ہوتا تو عمران خان کی کابینہ میں درجن بھر وہ وزیر نہ بیٹھے ہوتے جن پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ انسان سیاسی دشمنیاں بھول جاتا ہے لیکن ذاتی دشمنیاں لمبی چلتی ہیں۔ یہی وجہ ہے اب نواز شریف نے کوئٹہ تقریر میں دھمکی دی ہے وہ ایک دن عمران خان کو جیل میں ڈالیں گے۔ اس کا جواب عمران خان نے نواز شریف کو چوہا اور گیدڑ کہہ کر دیا جسے وہ لندن سے پکڑ کر خود واپس لائیں گے۔ ماریو پوزو کا ناول گاڈ فادر یاد آ گیا جب ڈان مائیکل کہتا ہے: اب یہ لڑائی کاروباری نہیں، ذاتی ہو چکی ہے اور ذاتی دشمنیوں میں صلح نہیں انتقام لیے جاتے ہیں۔
Tom, don't let anybody kid you. It's all personal, every bit of business They call it business. OK. But it's personal as hell.

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved