تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     18-06-2013

پہلا قدم

کوئٹہ کے سانحے میں حقیقی المیہ وہ نہیں‘ جو میڈیا کی سرخیوں میں نمایاں ہوا۔ اصل سانحہ وہ ہے‘ جس کا اظہار ایک ہی دن کے مختلف واقعات میں ہوا۔ ایک واقعہ قائد اعظم ریذیڈنسی کو جلا کر راکھ کرنے کا ہے۔ دوسرا طالبات کی بس اور میڈیکل کمپلیکس میں دہشت گردی ہے۔ دونوں سانحوں کی ذمہ داریاں قبول کرنے والے کون ہیں؟ زیارت میں بم دھماکوں سے ریذیڈنسی کو جلا کر راکھ کرنے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی ہے اور طالبات کی شہادت اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ‘ لشکر جھنگوی نے لیا ہے۔دونوں کا ہدف پاکستان ہے۔ لیکن منزل اور مقاصد الگ الگ ہیں۔ بی ایل اے کی جدوجہد سیاسی ہے اور یہ پاکستانی انتظامیہ کی مسلسل پالیسیوں کے ردعمل سے جنم لینے والی‘ اس بغاوت کا حصہ ہے‘ جو آخر کار مسلح جدوجہد کی صورت اختیار کر رہی ہے۔ حالیہ انتخابات کے دوران بی ایل اے کے مسلح گروہ کو سیاسی محاذ پر اپنی شکست کا خوف پیدا ہوا اور اس کے انتہاپسند عناصر کو یہ اندیشہ پیدا ہو گیا کہ بلوچستان کے جو قوم پرست انتخابات میں حصہ لے کر صوبے کے معاملات چلانے کی ذمہ داریاں لے چکے ہیں‘ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے‘ تو انتہاپسندوں کی سیاست ناکام ہو سکتی ہے۔ جسے انتخابی عمل کی پرامن تکمیل سے کافی دھچکا لگا۔ان لوگوں کو خصوصاً اخترمینگل کے انتخابات میں شریک ہونے کا دکھ ہے۔ اسلام آباد کے حکام اور دہشت گرد قوم پرست‘ دونوں ہی اختر مینگل سے خوش نہیں۔ دہشت گرد یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ اختر مینگل آخر کار اسلام آباد سے مایوس ہو کر ان کی طاقت میں اضافہ کریں گے اور اسلام آباد کے حکام ان پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہرچند اخترمینگل کو آزادانہ انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن یہ صاف نظر آنے لگا تھا کہ اگر انتخابات شفاف ہوجاتے‘ تو ان کے ساتھی‘ اچھی خاصی تعداد میں نشستیں لے سکتے تھے اور حکومت سازی میں ‘ اختر مینگل ایک موثر طاقت کی حیثیت سے کردار ادا کرتے۔ لیکن اسلام آباد کو اخترمینگل پر اعتماد نہیں تھا جبکہ دہشت گرد قوم پرستوں کو ڈر تھا کہ اگر اخترمینگل ایک قوم پرست حکومت کا حصہ بن جاتے‘ تو علیحدگی پسندی کی تحریک کے بے اثر ہونے کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا۔ دہشت گرداپنی ساری طاقت عوام کی مایوسیوں سے حاصل کرتے ہیں۔ ایک ایسی قوم پرست حکومت‘ جس میں اخترمینگل بھی شامل ہوتے‘ پاکستان سے پیدا ہونے والی عوامی مایوسیوں کا تدارک کرنے کی راہ پر گامزن ہو جاتی۔ ہرچند اس میں رکاوٹیں بہت تھیں اور باہمی بے اعتمادی بھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ تاہم اعتمادسازی کا عمل شروع ہونے پر اس کے آگے بڑھنے کا قوی امکان تھا۔ منتخب قوم پرستوں کی حکومت کے لئے حالات جتنے آج سازگار ہیں‘ پہلے کبھی نہ تھے۔ پاکستان کی تمام سیاسی قیادت آج بلوچ عوام کے حقوق تسلیم کرنے پر آمادہ ہے۔ پاکستان کی منتخب قیادت‘ جس کی طاقت کا مرکز پنجاب ہے‘ آج خود بلوچستان میں حکومت سازی کے حق سے دستبردار ہو کر ‘ صوبے کے امور قوم پرستوں کے سپرد کر چکی ہے اور اس اقدام کی پورے ملک میں تحسین و حمایت ہو رہی ہے۔ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کو اپنے صوبے اور ملک میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ ان کی سیاسی زندگی بے داغ ہے اور اپنے صوبے میں عوامی حقوق کی جدوجہد میں‘ وہ پوری طرح سرگرم رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ انتہاپسندی کے حق میں نہیں لیکن صوبائی حقوق کے لئے ہونے والی جدوجہد سے کبھی الگ نہیں ہوئے۔ ڈاکٹر مالک کے جس اقدام سے ‘ دہشت گرد قوم پرست خوفزدہ ہوئے‘ وہ اخترمینگل سے ان کی ملاقات اور تعاون کی اپیل تھی۔ یہ تعاون اگر آگے بڑھا‘ تو یقینی طور پر دہشت گردوں کی صفوں میں انتشار پھیل سکتا ہے‘ اس کی ابتدا اخترمینگل کے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کی صورت میں ہو چکی ہے۔ فی الحال اختر مینگل نئے سیاسی انتظام سے پوری طرح مطمئن نہیںلیکن وہ مایوس بھی نہیں ہوئے۔ انہیں انتخابات میں دلائی گئی شکست سے دہشت گرد قوم پرستوں کو امید ہوئی ہو گی کہ اختر مینگل مایوس ہو کر‘ عملی طور پر ان کی حمایت کرنے لگیں گے۔ لیکن انہوں نے ڈاکٹر مالک سے مذاکرات میںتعاون کی امید دلا کر ‘ قوم پرستوں کی حکومت کے لئے‘ سازگار حالات پیدا کرنے کی صورت نکال دی ہے۔ ظاہر ہے جو مایوس نوجوان ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مائل ہو سکتے تھے‘ وہ اپنے صوبے میں قوم پرست حکومت کو موثر ہوتے دیکھ کر‘ پرامن زندگی اختیار کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ڈاکٹرمالک اور ان کے ساتھیوں کو اس پیچیدہ صورتحال میں اپنا راستہ نکالنا ہو گا اور یہ راستہ اسلام آباد کی بھرپور حمایت کے بغیر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش ‘ سیاسی انتہاپسندی ہے۔ اگر سیاسی مقاصد پرامن ذرائع سے حاصل ہونے کا یقین ہو جائے‘ تو دہشت گردی اختیار کرنے والے‘ واپس قومی دھارے میں آ سکتے ہیں۔ دنیا میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں ریاست کے خلاف بغاوتیں کرنے والے‘ معمول کی سیاسی زندگی کا حصہ بن کر آج اپنے علاقوں میں حکومتیں چلا رہے ہیں۔ بغاوت کے راستے پر نکلے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو اگر اپنے حقوق کے تحفظ کا یقین ہو جائے اور وہ اپنی زندگی اور اپنے وسائل کا خود مالک بننے کی توقع کر سکیں‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہتھیار پھینک کر پرامن زندگی کی طرف واپس نہ آئیں۔ لیکن اسلام آباد کی انتظامیہ اور باغیوں کے درمیان‘ باہمی بے اعتمادی کی فضا میں‘ اس طرح کے سمجھوتے ممکن نہیں۔ نوازشریف نے بہترین تدبر اور تدبیر سے کام لیتے ہوئے‘ قوم پرستوں کو حکومت دے کر امیدیں بحال کر دی ہیں۔ ڈاکٹر مالک اور ان کے ساتھی‘ کریڈیبلٹی اور صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ انتہاپسندی کی راہوں پر چل نکلنے والوں کو مذاکرات پر آمادہ کر سکیں۔ مگر ایسا کرنے سے پہلے انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ صوبائی حکومت ‘ اسلام آباد سے اپنی بات منوانے کے قابل ہو گئی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلا اور موثر اقدام‘ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کی نتیجہ خیز کوشش کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ سکیورٹی ایجنسیز اور دہشت گردوں کے درمیان‘ جاری جنگ میں دونوں طرف انتہاپسندانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ دہشت گرد بھی سکیورٹی فورسز پر حملے کر کے‘ ہر طرح کی خونریزی اور تشدد کرتے رہتے ہیں اور سکیورٹی فورسز بھی اشتعال کی حالت میں‘ جوابی اقدامات کرتی رہتی ہیں۔ اس خونریزی کے نتیجے میں جو تلخیاں پیدا ہو چکی ہیں‘ انہیں کم یا ختم کرنا‘آسان کام نہیں۔ ایسا کرنے کے لئے بڑے حوصلے اور دل سے کام لینا پڑتا ہے۔ قومی مفادات کی خاطر ‘ ذاتی غم و غصے اور جذبات کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ جن قوموں نے اس طرح کے مسائل پر قابو پایا ہے‘ ان کے لیڈر ایسے عظیم کارنامے انجام دیتے آئے ہیں۔ فرانس کے ڈیگال نے ‘ الجزائر کے مجاہدین کی تمام زیادتیوں کو فراموش کر دیا تھا۔ نیلسن منڈیلا نے‘ سفید فاموں کی درندگی اور خونریزی سے جنم لینے والی نفرت کو ایک مسکراہٹ کے ساتھ دفن کر دیا تھا۔ صدیوں ایک دوسرے کے خلاف جنگیں لڑنے والی قومیں‘ آج تعاون اور دوستی کی شاندار زندگی گزار رہی ہیں۔ ناراض اور مشتعل بلوچ بھی ہمارے بھائی ہیں اور یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ زیادتیاں دونوں طرف سے ہوئی ہیں اور دونوں فریقوں کو ہی تلافی کے عمل میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ فی الوقت یہ سفر بہت مشکل لگتا ہے۔ مگر پہلا قدم اٹھائے بغیر کوئی بھی سفر شروع نہیں کیا جا سکتا۔ راستہ بہت طویل ہے۔ مگر پہلا قدم اٹھائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ میں نے ایک تکلیف دہ بات کرنے کے لئے محض اشاروں سے کام لیا ہے۔ مگر سمجھنے والے جان لیں گے کہ کڑوی گولی نگلنا پڑے گی۔ طالبات کی بس اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں ہونے والی دہشت گردی کی کڑیاں‘ القاعدہ کے منصوبوں سے ملتی ہیں۔ لشکر جھنگوی‘ تحریک طالبان پاکستان کا اتحادی بن چکا ہے اور ان دونوں کے القاعدہ سے رشتے بہت پرانے ہیں۔ لشکر جھنگوی کے رابطے افغان جہاد کے دوران ہی القاعدہ سے ہو گئے تھے‘ جو آج بھی قائم ہیں۔ یہ بلوچستان میں القاعدہ کی پہلی اور سب سے بڑی کارروائی ہے۔ اس کارروائی کو ہمیں دہشت گردی کے خلاف وسیع جنگ کے حصے کے طور پر دیکھنا ہو گا۔ اگر ہم بلوچستان اور فاٹا میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ الجھے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی راہیں نکالنے پر توجہ دیں‘ تو القاعدہ کا مقابلہ زیادہ اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں۔ یہ سفر بہت طویل ہو گا۔ جبکہ بلوچستان کے باغی نوجوانوں کے ساتھ مذاکرات کی فضا سازگار ہو جائے اور باہمی اخوت کاجذبہ ہر چیز پر غالب رہے‘ تو یہ مسئلہ ڈیڑھ دو سال کے اندر حل کیا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved