پی ڈی ایم کے ایجنڈے کو بھارت کا ایجنڈا قرار دینے کی بات قدرے پرانی ہو چکی تھی کہ جناب شبلی فراز نے تیسرا سرا بھی ڈھونڈ نکالا اور تکون مکمل ہو گئی ''بھارت، اسرائیل اور پی ڈی ایم‘‘ ہم تو جو کچھ کہتے اور سنتے، لکھتے اور پڑھتے رہے، اس کے مطابق پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینا، قومیتی اور علاقائی تعصبات پیدا کرنا اور انہیں فروغ دینا بھارت کے پاکستان دشمن ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ بلوچستان میں شورش برپا کرنے کے لیے یہاں کے نوجوانوں کی سرحد کے اُس پار تربیت بھی اس ایجنڈے میں شامل ہے۔ دہشت گردی کے تربیتی مراکز بھی وہیں ہیں لیکن پی ڈی ایم کے سٹیج پر تو ہم دیو بندی مکتب فکر کے مولانا فضل الرحمن، بریلوی مکتب فکر کے مولانا اویس نورانی اور اہل حدیث کے پروفیسر ساجد میر کو اکٹھے دیکھتے ہیں۔ مختلف قومیت پرست جماعتوں کی قیادت بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ شیر و شکر نظر آتی ہے۔ چھوٹے صوبوں کے قوم پرستوں کی شکایات کا بنیادی ہدف پنجاب رہا ہے۔ سیاسی اتحادوں (اور سیاسی عمل) کے نتیجے میں قربتیں بڑھی ہیں اور مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی قومی جماعتوں نے بھی شکایات کے ازالے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ دُور کیوں جائیں؟ 2008 سے شروع ہونے والے نئے سیاسی و جمہوری دور سے آغاز کریں تو صدر آصف زرداری کو بلوچستان سے ہونے والی زیادتیوں کے اعتراف اور معذرت طلبی سے گریز نہ تھا (حالانکہ بیشتر زیادتیاں، غیر سیاسی ادوار میں ہوئی تھیں۔ بھٹو صاحب کے سیاسی دور میں بھی بلوچستان زخم خوردہ ہوا۔ صدر زرداری اس سب پر معذرت طلب تھے) ''آغازِ حقوق بلوچستان‘‘ بھی بلوچ بھائیوں کی دل جوئی کا اہتمام تھا۔ 18ویں ترمیم میں دی گئی صوبائی خود مختاری دنیا کی سب سے بڑی وفاقی جمہوریہ ہونے کے دعوے دار بھارت میں صوبائی اختیارات سے بھی بڑھ کر تھی۔ اس دور میں شہباز شریف نے این ایف سی ایوارڈ کی مد میں پنجاب کے حصے میں سے بارہ ارب روپے بلوچستان کو عطیہ کر دیئے تھے۔
2013 کے عام انتخابات میں بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ دوسرے نمبر پر محمود خاں اچکزئی کی پختون خوا ملی عوامی پارٹی تھی لیکن نواز شریف نے میر حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی کو ابتدائی اڑھائی سال کے لیے وزارت اعلیٰ دینے کا فیصلہ کیا (ڈاکٹر مالک نے شیئرنگ سیٹ سنبھالی) بلوچستان کی گورنری اور کچھ اہم وزارتیں، پختون قوم پرست اچکزئی کی جماعت کی نذر ہوئیں اور مسلم لیگ ن اپنے حصے سے کہیں کم پر رضا مند ہو گئی۔ ڈاکٹر مالک کا (پہلا) نصف بخیر و خوبی مکمل ہوا لیکن مسلم لیگ (ن) کے میر ثناء اللہ زہری اپنا (دوسرا) نصف مکمل نہ کر سکے۔ کوئٹہ کے جلسے میں مریم نواز نے یہ کہانی بھی چھیڑی کہ کس طرح راتوں رات وزارتِ اعلیٰ پر کسی اور کو لا بٹھایا گیا۔
2018 کے انتخابات کے بعد اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی بنی۔ وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب میں وزیر اعظم عمران خان کے 176 ووٹوں میں چار ووٹ بی این پی کے تھے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ 6 نکاتی معاہدے میں بی این پی نے کوئی وزارت نہیں مانگی تھی۔ بلوچستان اور بلوچ عوام کے حقوق کے اس معاہدے میں مسنگ پرسنز کا معاملہ اہم ترین تھا اور بالآخر یہی چیز دونوں میں ترکِ تعلق کا باعث بن گئی۔ اب بی این پی گیارہ جماعتی پی ڈی ایم کا اہم حصہ ہے۔ سردار مینگل، گوجرانوالہ کے جلسے میں بھی تھے اور کراچی کے جلسے میں بھی۔ کوئٹہ جلسے کی تو وہ میزبانی میں شامل تھے۔
مہمانی اور میزبانی کے حوالے سے بلوچستان کی اپنی روایات ہیں۔ اتوار کو جلسہ تھا، منگل کو وہ کوئٹہ آمد پر مریم نواز کا شکریہ ادا کرنے لاہور آئے۔ جاتی امرا میں مریم کی طرف سے بلوچ مہمان کے لیے پر تکلف ظہرانے کا اہتمام تھا۔ اس موقع پر پی ڈی ایم کی اب تک کی اچیومنٹ کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل میں اس کی رفتار کو تیز تر کرنے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
تیز ترک گام زن منزلِ ما دور نیست
میڈیا سے گفتگو میں بلوچ لیڈر کا کہنا تھا: جلسوں جلوسوں کے ساتھ شاید کچھ''دما دم مست قلندر‘‘ بھی کرنا پڑے۔ ایک سوال پر سردار اختر مینگل کا کہنا تھا: خان صاحب جس طرح حکومتی معاملات چلا رہے ہیں، اس پر تو انہیں لانے والے بھی مطمئن نہیں۔ انہوں نے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ ان کے اختیارات میٹرو بس منصوبوں کے افتتاح سے زیادہ نہیں۔ اس سوال پر کہ کیا پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں نواز شریف کے بیانیے کو سپورٹ کر رہی ہیں؟ اختر مینگل کا جواب تھا: نواز شریف کا یہ نیا بیانیہ بی این پی کا پرانا بیانیہ ہے۔ مزید کہا: بھارتی ایجنڈے کا منترا پرانا ہو چکا۔ عوام میں اب کوئی اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ سب جانتے ہیں کون کیا کر رہا ہے۔
بھارتی ایجنڈا تو یہ ہے کہ بلوچ نوجوان سرحد کے اُس پار دیکھیں۔ پاپولر بلوچ قیادت کا کوئٹہ سے لاہور آنا، اسلام آباد سے توقعات وابستہ کرنا، کراچی جانا اور پشاور کا رخ کرنا تو قومی یک جہتی کے عملی کو آگے بڑھانے کا ایجنڈا ہے۔ اس بات سے کسے انکار ہو گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر بھی انڈین سپانسرڈ ہے۔ کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے والے دن دہشت گردی کا واقعہ اور منگل کو پشاور کے مسجد/ مدرسے میں دہشت گردانہ حملہ دشمن کی پرانی حکمتِ عملی کا نیا سلسلہ ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے موقع پر بجا فرمایا: آرمی پبلک سکول پشاور میں (دسمبر 2014) میں جو ہاتھ کار فرما تھے‘ مدرسے میں تازہ دہشت گردی میں بھی وہی ملوث ہیں، ہم اپنے دشمن کو بخوبی جانتے اور پہچانتے ہیں۔
ادھر سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ کورونا کی نئی لہر اور دہشت گردی کا یہ نیا سلسلہ پی ڈی ایم کی تحریک کو کس حد تک متاثر کر سکتا ہے؟ پی ڈی ایم کی قیادت پُر عزم ہے۔ جمعرات کی دوپہر ملتان میں میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا: ہمارے جلسوں کے لیے سکیورٹی کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کا انتظام ہم خود کر لیں گے (انصار الاسلام کے نام سے مولانا کی جمعیت علمائے اسلام کے چالیس ہزار رضا کار)۔
پی ڈی ایم کے ایجنڈے کو بھارت (اور اسرائیل) کا ایجنڈا قرار دینے والے دہشت گردی کی تازہ لہر کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ کیا بھارت اپنے ہی ایجنڈے کو نا کام بنانے پر تل گیا ہے؟
رانا اکرام ربانی کو پنجاب کے لوگ بھولے تو نہ ہوں گے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران قائد حزب اختلاف رہے۔ ان دنوں سیاست میں زیادہ سرگرم نہیں۔ گزشتہ روز مال روڈ سے گزرتے ہوئے ان کی نظر فیصل چوک میں اپنے مطالبات کے لیے دھرنا دیے ہوئے بلوچ طلبا پر پڑی تو مضطرب ہو گئے۔ یہ طلبا بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتا ن میں بلوچ طلبا کے لیے مخصوص کوٹے اور سرکاری وظیفے کی بحالی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ گزشتہ دنوں مریم نواز بھی یہاں آ کر ان سے اظہار یک جہتی کر چکیں۔ رانا اکرام ربانی کا کہنا ہے کہ طلبہ جس نل سے پانی حاصل کرتے تھے اسے بھی بند کر دیا گیا ہے۔ سول سوسائٹی اور رفاہی تنظیموں سے انہوں نے ان طلبہ کے لیے طعام اور دیگر ضروریات کی فراہمی کی اپیل کی ہے۔