یوکے کا مانچسٹر ائیر پورٹ تھا اور میں استنبول کیلئے فلائٹ کے انتظار میں تھا۔پرواز میں تاخیر تھی اور چند گھنٹے ائیرپورٹ پر بہرحال اکیلے گزارنے تھے۔ معلوم کیا کہ کیا ائیر پورٹ پر انٹر نیٹ وائی فائی کی مفت سہولت موجود ہے ؟پتہ چلا کہ ائیر پورٹ والوں کا ایک کنکشن مفت میں موجود تو ہے لیکن اس میں صرف ایک گھنٹہ مفت ہے۔باقی وقت پانچ پونڈ فی گھنٹہ خریدنا پڑے گا۔میں نے اس مفت کنکشن سے رابطہ جوڑنے کی کوشش کی تو ایک فارم سامنے آیا جس میں اپنا نام، ای میل،فلائٹ نمبر،فلائٹ کلاس،منزل مقصود وغیرہ کا اندراج کرنا تھا۔میں نے سوچا‘ محض ایک گھنٹے کے مفت وائی فائی کے عوض یہ لوگ مسافر سے کیا چاہتے ہیں۔خیر جیسے تیسے سوالات جمع کرکے اگلے مرحلے کیلئے کلک کیا تو معلوم ہوا کہ ایک خانہ بھرنے سے رہ گیا ہے۔واپس جانا ہوگا۔واپس جانے پر کچھ خانوں کی معلومات صاف ہوچکی تھیں جنہیں دوبارہ بھرنا تھا۔یہ ورزش دوبارہ کرکے پھر اگلے مرحلے کیلئے کلک کیا تو پھر کوئی قصور نکل آیا جس کی وجہ سے اگلے مرحلے میں نہیں پہنچا جاسکتا تھا۔تیس چالیس منٹ کی لاحاصل محنت کے بعد میں نے پورے خشوع و خضوع سے ائیرپورٹ انتظامیہ کو برا بھلا کہا۔لیکن یہ بھی تہیہ کرلیا کہ جو ان لوگوں کا اصل مقصد ہے یعنی میری جیب سے انٹر نیٹ کیلئے پیسے نکلوانے۔ وہ مقصد میں پورا نہیں ہونے دوں گا۔ اس پورے عمل میں آسودگی کا لمحہ اس کے فوراً آیا جب میں نے موبائل جیب میں رکھ کر بے سبب خلا میں گھورنا شروع کردیا۔
یہ میرے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا تھا۔سفر سے واسطہ پڑتے رہنے کی وجہ سے ائیر پورٹس اور انتظار گاہوں سے بھی واسطہ پڑتا رہتا ہے۔اکثر متمدن اور مالدار ممالک کے ائیر پورٹس مسافر سے یہی سلوک کرتے ہیں خواہ وہ مانچسٹر ائیرپورٹ ہو یا سٹینفورڈ ائیر پورٹ لندن ہو۔اس دن بے سبب خلا میں گھورتے ہوئے مجھے پھر انہی اتفاقات کی چبھتی ہوئی فہرست یاد آگئی جو پہلے بھی بہت بارمجھے تنگ کرچکی تھی۔ وہ نوکیلے سوالات جن کا کبھی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا تھا
میں ایک عام آدمی ہوں جو مسافر بھی ہے۔مجھے سامان کے لیے ٹرالی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔انٹرنیٹ سے بھی جڑا رہنا چاہتا ہوں۔پانی بھی چاہیے اور اپنی پسند کا وہ کھانا بھی چاہتا ہوں جو میرے وسائل کے اندر ہو۔مجھے موبائل بھی استعمال کرنا ہے اورلیپ ٹاپ بھی۔ اب یہ چیزیں مجھ عام آدمی کی ضروریات میں ہیں۔اشد ضرورت ہو اور مجبوری ہو اور کوئی راستہ نہ نظر نہ آئے تو مسافر ضرورت کو پیسے پر ترجیح دے گا۔حتیٰ کہ مانچسٹر ریلوے سٹیشن، یوکے پر مسافروں کے لیے بیت الخلا استعمال کرنے کے جو پیسے ہیں وہ بھی ادا کرے گا۔وہ اپنی مجبوری کی قیمت دینے پر مجبور ہوگا اور یہ نظام بنانے والے ذہین لوگ یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ بالآخر میری جیب کا پیسہ ان کی جیبوں میں منتقل ہوکر ہی رہے گا۔ کیا آپ ان کی ذہانت کی داد نہیں دیں گے ؟دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجا کر۔لیکن ٹھہریے پہلے ان اتفاقات کو تو ایک نظر دیکھتے ہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دنیا کے اکثر ائیرپورٹس پرآپ کو انٹرنیٹ کی سہولت جو اکثر چھوٹے ممالک میں مفت دستیاب ہے،دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ترین ممالک میں نہایت مہنگی خریدنی پڑتی ہے۔سامان کی ٹرالی حاصل کرنے کیلئے سکہ ڈالنا پڑتا ہے۔کھانے کا رخ کرتے ہیں توائیر پورٹ کی رنگا رنگ دکانوں پر اسی شہر کے عام ریسٹورنٹس سے سو گنا مہنگا کھانا خریدنا پڑتا ہے۔اگر آپ کو چھ سات گھنٹے گزارنے پڑیں تو بیمار خستہ حال مسافروں کیلئے لیٹنے کی جگہ میسر نہیں آتی اور بہت بار موجود نشستوں کی تعداد مسافروں کی تعداد سے کافی کم ہونے کی وجہ سے آپ کو کسی دیوار اور کسی ستون کے سہارے فرش پر گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے۔کیا یہ محض اتفاق ہے؟
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آپ دنیا کے جدید ترین طیران گاہوں میں اپنے طیارے کے طرف یا اس کی انتظار گاہ تک پہنچنے کے لیے عجلت میں ہوتے ہیں لیکن راستہ آپ کو گھما پھرا کر اس سجے سجائے بازار سے لے کر جاتا ہے جہاں ڈیوٹی فری دکانیں پرکشش اشیاء اور کاروباری خوش اخلاقی لیے آپ کی منتظر ہیں۔آپ جلدی میں ہوں یا آپ کو خریداری میں کوئی دلچسپی نہ ہو تب بھی آپ کو اس بازار سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے کیوں کہ اس کے علاوہ انتظار گاہ کی طرف کوئی اور راستہ جاتا ہی نہیں ہے۔کیا آپ اسے اتفاق کا نام دیں گے ؟
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آپ کسی اچھے ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں جہاں خوش آمدید کہنے کے لیے مشروب،کمرے میں تازہ پھلوں کی ٹوکری‘کافی میکر جس کے ساتھ کافی اور چائے بنانے کا سامان،غسل خانے میں شیمپو، شیونگ کٹ،ڈینٹل کٹ،کنگھا اور سوئی دھاگہ تک آپ کا استقبال کرتے ہیں۔صبح دم انواع و اقسام کی نعمتوں سے سجا بفے ناشتہ آپ کا خیر مقدم کرتا ہے۔کام و دہن کی بہت سی آزمائشیں آپ کی اشتہا بڑھانے کے لیے غیر محدود مقدار میں آپ کی منتظر ہوتی ہیں۔اور اسی ہوٹل میں آپ کی بنیادی ضرورت پینے کے سادہ پانی کی صرف دو چھوٹی بوتلیں آپ کو مفت مہیا کی جاتی ہیں۔مزید پانی آپ کو مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے۔پانی، جس سے ہر زندہ چیز پیدا ہوئی اور اس کے بغیر زندہ رہ بھی نہیں سکتی اور جو قدرت نے اتنا وافر پیدا کیا کہ زمین کی تین چوتھائی جاگیر اسی کی ملکیت ہے۔پانی جو آسمان سے برستا ہے اور زمین سے نکلتا ہے۔ جب اس اعلیٰ ہوٹل میں پہنچتا ہے تو نایاب ہوجاتا ہے۔ اپنی بیش قیمت حیثیت پر اترانے لگتا ہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آپ کے سامنے مختلف موبائل کمپنیز کے اتنے پیکیجز اور اتنی اقسام کی پیشکشیں پڑی ہوتی ہیں کہ یہ ایک طرح کی دماغی ورزش بن کر رہ جاتی ہیں۔ایک سے ایک پیچیدہ۔ بہت سر کھپا کر بھی آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ سب ایک ہاتھ سے سہولت دیکر دوسرے سے واپس لینے کا چکر ہے۔آپ جس موبائل پیکیج کا انتخاب کرتے ہیں کچھ دن کے بعد غلط محسوس ہوتا ہے اور آپ کو یہی الجھن رہتی ہے کہ غلط انتخاب کیا،دوسرے شخص کا انتخاب مجھ سے بہتر تھا۔
میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ دنیا کے یہ امیر ترین ملک، یہ مالدار فلاحی ریاستیں اور یہ اربوں کا بجٹ رکھنے والی کمپنیاں مل کر بھی مجھ مسافر کو مفت سامان کی ٹرالی کیوں نہیں دے سکتیں۔ یہ مفت انٹر نیٹ مہیا کرنے سے کیوں عاجز ہیں۔طیران گاہوں میں اتنی نشستیں کیوں نہیں بن سکتیں جو تھکے ماندے اور بیمار مسافروں کے لیے کافی ہوں۔مسافرت میں مفت نہ سہی لیکن مجھے سستا اور اچھا کھانا کیوں نہیں مل سکتا۔وہ ہوٹل جن کے کندھوں پر ستارے جگمگاتے ہیں مجھے ایک دو دن کے لیے پانی کی وافر مقدار کیوں نہیں دے سکتے۔ اور مجھے موبائل کا ایسا پیکیج کیوں نہیں مل سکتا جو چکر ادینے والا نہ ہو
بے روزگاری کی تنخواہ، تعلیمی وظائف، اورشہریوں کی فلاح کی تمام تر سہولیات بانٹنے والے ملک مسافروں کیلئے اتنے سفاک کیوں ہوجاتے ہیں ؟کیا یہ اشیاء اتنی مہنگی پڑتی ہیں کہ حکومتیں ان کا بوجھ اٹھانے سے عاجز ہیں ؟ اور اگر واقعی ایسا ہے تو پاکستان سمیت دیگر غریب ممالک کو دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجا کر داد دیجیے کہ ان میں کم از کم ٹرالی، انٹرنیٹ مفت ہر ایک کو دستیاب ہے۔ یہ ڈوبتے،ابھرتے اور ہاتھ پائوں مارتے ممالک اس معاملے میں بڑے ملکوں سے زیادہ دل بڑا رکھتے ہیں۔یہ بتائیے کہ کوئی راستہ باقی نہ چھوڑ کر بھتہ لینے کو کیا کہتے ہیں؟ بے شمار چکر لگا کر اور جوتے گھسوا کر سرکاری کلرک بادشاہ کو اپنے جائز کام کیلئے پیسے نذر کرنے کو عرف عام میں کیا کہا جاتا ہے ؟مجھے بھی علم ہے اور آپ بھی جانتے ہیں۔
جو بات ہمیں علم نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اوپر دی گئی مسافرانہ مثالوں میں بے بس افراد کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کے عمل کا نام کیا ہے؟ تجارت؟ سہولت ؟ ذہانت یا ذہنیت۔ کیا کبھی اس کا درست نام معلوم ہوسکے گا ؟