دنیائے اسلام کے مختلف ملکوں میں گزشتہ ایک آدھ برس سے جاری سیاسی واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت،سیاست اور معاشرے پر قدامت پسندعناصر کی گرفت ڈھیلی پڑرہی ہے۔اور اگر اس سوچ یا طرز عمل کے حامل عناصر نے کہیں ابھی تک قدم جما رکھے ہیں تو وہاں موقعہ ملتے ہی روشن خیال،اعتدال پسند اور تبدیلی کی خواہش مند قوتیں تیزی سے اْبھر کر سامنے آرہی ہیں۔کچھ اس قسم کی صورتِ حال ایران میں پیدا ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔14جون کو ایران کا صدارتی انتخاب ہوا۔جس میں حسن روحانی کامیاب ہوئے جن کی کامیابی کا بہت کم لوگوں کو یقین تھا،کیونکہ اُن کی سوچ ایران کے برسراقتدار طبقوں سے مختلف ہے۔ روحانی مذہبی رہنما ہیں اور ایرانی پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر بھی رہ چکے ہیں۔وہ اعتدال پسند اور ایران کے موجودہ سیاسی نظام میں اصلاحات کے حامی ہیں۔ اُنہوں نے انتخاب کے پہلے ہی رائونڈ میں 50فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر کے حتمی کامیابی حاصل کرلی ۔مبصرین نے جناب حسن روحانی کی اس کامیابی کو غیر متوقع اور سنسنی خیز قرار دیا ہے ،کیونکہ ایران کے موجودہ سیاسی نظام کے تحت صدارتی امیدواروں کی اس قدر باریکی سے چھان بین کی جاتی ہے کہ ایسے امیدوار کی ،جس کے خیالات قدامت پسند لیڈر شپ سے ہم آہنگ نہ ہوں،کامیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔حسن روحانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سابق صدراحمد ی نژاد کی پالیسوں اور لیڈر شپ سٹائل کو ہدف تنقید بنایا تھااور اس کے ساتھ عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مغربی ممالک کے ساتھ نتیجہ خیز بات چیت کے ذریعے ایران پر عائد شْدہ عالمی ، اقتصادی پابندیوں کو ختم کروانے کی کوشش کر یں گے۔ایران میں صدارتی عہدے کیلئے امیدوار کا چنائو براہ راست ہوتا ہے۔پونے آٹھ کروڑ آبادی والے ملک ایران میں ووٹرز کی تعداد تقریباً ساڑھے چار کروڑ ہے جن میں سے آدھی سے زیادہ تعداد 30برس سے کم ووٹرز پر مشتمل ہے ۔ایران میں ووٹرز کیلئے 18برس کی عمر مقرر ہے اور ووٹ کے استعمال کو قومی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ ایرانی صدر عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہوتا ہے ،تاہم اس عہدے پر فائزشخصیت حقیقی اختیار کی مالک نہیں۔اصل اختیارات سپریم لیڈر یعنی آیت اللہ علی خامنہ ای کے پاس ہیں۔دفاع،امور خارجہ اور داخلی معاملات میں سپریم لیڈر کی رائے کو حرفِ آخر تصور کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ سپریم لیڈر مسلح افواج کے سربراہ بھی ہیں۔ دوسرابااختیار ادارہ12رْکنی گارجین کونسل ہے۔اس کا سب سے اہم فریضہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی سکریننگ ہے۔جس امیدوار کے بارے میں کونسل کو شُبہ ہو کہ اُس کے خیالات ایران کے اسلامی انقلاب کے فلسفہ اور نظریہ سے مطابقت نہیں رکھتے،اُسے انتخاب کیلئے نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے۔ایران کے مشہور سیاسی رہنما علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کو گارجین کونسل نے صدارتی انتخاب میں حصہ کیلئے نااہل قراردے دیا تھا۔گارجین کونسل اور سپریم لیڈر کے علاوہ ایران کی عدلیہ اور پارلیمنٹ بھی صدر کے اختیارات کے محدود کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف حسن روحانی کی کامیابی کو ایران کے جامد سیاسی عمل میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا مظہر گردانا جا رہا ہے وہاں دوسری طرف نئے صدر سے کسی بڑی ڈرامائی یا انقلابی تبدیلی کی توقع بھی نہیں کی جا رہی ، کیونکہ ایرانی صدر کے اختیارات ، امریکی صدر کے اختیارات کے برعکس،محدود ہیں اور طاقت ور ادارے ،جہاں قدامت پسند اور گزشتہ تین دہائیوں سے قائم ایران کے مذہبی اور غیر لچکدار سیاسی نظام کے حامی عناصر چھائے ہوئے ہیں،ایرانی صدر کے راستے میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں۔ اس کے باوجود صدارتی انتخاب میں ایرانی عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ووٹرزٹرن آئوٹ 72فیصد سے زائد رہا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔اس سے زائد ووٹرز ٹرن آئوٹ صرف 1997ء کے صدارتی انتخاب میں دیکھنے میں آیا تھاجب محمد ختامی 70فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرکے ایران کے صدر منتخب ہوئے تھے ۔اُس وقت ٹرن آئوٹ80فیصد تھا۔ایران سے باہر بھی اس انتخاب میں غیر معمولی دلچسپی ظاہر کی گئی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے تمام معاملات سے نمٹنا ایرانی صدر کے اختیارات و فرائض میں شامل ہے۔حسن روحانی کی کامیابی پر صرف یورپی حلقے ہی نہیں بلکہ امریکہ بھی حیران ہے ۔ ابتدا میں امریکہ نے اس انتخاب کو ایک بے کار ایکسرسائز کہہ کرمسترد کر دیا تھا،لیکن اب حسن روحانی کی کامیابی کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔برطانوی حکومت نے نسبتاًزیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کیا ہے اورحسن روحانی کی کامیابی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اُن سے اپیل کی ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں بین الاقوامی برادری کی تشویش کو دُور کریں اور ملک کے اندر انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائیں۔اگر حسن روحانی کے سابقہ بیانات کو سامنے رکھا جائے تو بین الاقوامی سطح پر جس طرح ایرانی انتخاب کے نتیجے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے اس سے اْمید بندھتی ہے کہ ایران اور مغربی دنیا خصوصاًامریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی۔ حسن روحانی نے اپنے ایک سابقہ بیان میں کہا تھا کہ وہ صدر منتخب ہو کر ایران اور امریکہ کے سفارتی تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ایرانی ووٹرز کی بھاری اکثریت نے اس بیان کے باوجود حسن روحانی کی حمایت کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ ایرانی عوام امریکہ کے ساتھ تعلقات کو نہ صرف بحال کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان تعلقات کو مثبت انداز میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔اس کا یہ مطلب ہوا کہ حسن روحانی کے دور صدارت میں نہ صرف ایران اور مغربی دنیا کے دوطرفہ تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں بلکہ ایران کے جوہری پروگرام پر موجودہ تعطل بھی ختم ہو سکتا ہے۔ مبصرین جناب حسن روحانی کی کامیابی میں کارفرما متعدد عوامل کا ذکر کر رہے ہیں۔ان میں سابقہ صدر محمد خاتمی اور علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کی طرف سے ان کی حمایت اور ایک اوراعتدال پسند امیدوار محمد رضا عارف کی جناب حسن روحانی کے حق میں دستبردار ی کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔یہ سچ ہے کہ خاتمی اور رفسنجانی بااثر سیاسی رہنما ہیںاور اْن کی طرف سے حمایت نے حسن روحانی کی کامیابی کو زیادہ یقینی بنا دیا ہوگا،یہ بھی سچ ہے کہ محمد رضا عارف کی طرف سے صدارتی انتخاب میں جناب حسن روحانی کے حق میں دستبرداری سے اعتدال پسند ووٹ منقسم ہونے سے بچ گئے ہیں،لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے ایران پر عائد سخت معاشی پابندیوں اور سابقہ صدر احمدی نژاد کی ناکام خارجہ پالیسی نے بھی حسن روحانی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معاشی حالت گزشتہ دو تین برسوں سے انتہائی دبائو کا شکار چلتی آرہی ہے۔ ایران جو سعودی عرب کے بعد تیل برآمد کرنے والاسب سے بڑا ملک ہوا کرتا تھا،اب بین الاقوامی منڈی میں تیل کے خریدار ڈھونڈ تا پھرتا ہے۔اس کی کرنسی کی قیمت خطرناک حد تک نیچے گر چکی ہے ،بے روزگاری عام ہے ،پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے اور ترقیاتی کام رْک چکے ہیں۔ان حالات سے سب سے متاثر ہونے والا طبقہ نوجوانوں کا ہے جو تعداد کے اعتبارسے ایران کی آبادی کا سب سے بڑا طبقہ ہے ۔اس طبقے نے جناب حسن روحانی کو کامیابی دلائی ہے ، کیونکہ وہ ایران کی سیاست اور معیشت میں جاری جمود کو توڑنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ایران کے حالیہ صدارتی انتخاب میں جناب حسن روحانی کی کامیابی ،صرف ایران کی قدامت پسند مذہبی لیڈرشپ کیلئے ہی نہیں بلکہ مغربی دُنیاخصوصاًامریکہ کے لیے بھی اہم پیغام ہے۔ایران کے عوام پرانے نظام کی فرسودہ پابندیوں سے آزادی چاہتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ دْنیا کے دیگر ممالک کی طرح ایران بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو،لیکن ایرانی عوام اپنی قومی آزادی ،خودمختاری اور عزت پر سودا نہیں کریں گے ،بلکہ برابری اورباہمی مفاد پر مبنی تعاون کیلئے خارجہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved