کورونا کی وبا کے دوران نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے عوام کا جینا دوبھر کیا۔ کئی ماہ کی بندش نے کاروباری ماحول کو مٹی میں ملادیا۔ بیروزگاری کیا کم تھی‘ اب مہنگائی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ کھانے پینے کی اشیا روز بروز مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ بعض اشیا کے دام بے قابو ہوچکے ہیں۔ حکومت اس صورتحال میں یکسر بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ وزیر اعظم جس چیز کی قیمت کنٹرول کرنے کی بات کرتے ہیں وہ مزید مہنگی ہو جاتی ہے!
اس وقت ملک بھر میں بیشتر اشیائے صرف کے دام خطرناک حد تک بڑھے ہوئے ہیں۔ مہنگائی نے قیامت سی ڈھائی ہوئی ہے۔ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (تنظیم برائے پائیدار ترقی) نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں سب زیادہ افراطِ زر (مہنگائی) پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت افراطِ زر میں اضافے کی شرح 9 فیصد ہے جبکہ بھارت میں 7.34 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.97 فیصد اور سری لنکا میں 4.1 فیصد ہے۔ پاکستان میں آٹا 60 سے 70 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے جبکہ بھارت میں اس وقت آٹا 28 روپے، بنگلہ دیش میں 41 ٹکا اور سری لنکا میں 93 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے۔ پاکستان میں پیاز 50 سے 80 روپے تک فی کلو کے نرخ پر بیچا جارہا ہے جبکہ بھارت میں 50 روپے، بنگلہ دیش میں 40 ٹکا اور سری لنکا میں 150 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے۔ پاکستان میں شکر 100 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہے جبکہ بھارت میں 55 روپے، بنگلہ دیش میں 70 ٹکا اور سری لنکا میں 85 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہے۔ اس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ملک میں اس وقت مہنگائی نے ایسا اندھیر مچایا ہوا ہے کہ کسی کو کچھ نہیں سُوجھ رہا۔ عام آدمی کی مشکلات بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ معیشت کا پہلے ہی بُرا حال تھا، اب پریشانیوں کا گراف مزید بلند ہوگیا ہے۔
مہنگائی میں اضافے کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات کو بیروزگاری نے مزید بڑھاوا دیا ہے۔ عمومی سطح پر جینا بھی اب انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر ایک حقیقت ایسی ہے جس سے دل کو سکون ملنا چاہیے۔ پاکستان میں معاشی حالات بُرے ہیں مگر دوسرے بھی کوئی جنت میں نہیں جی رہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خطے میں دوسروں کی مشکلات زیادہ ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کو بار بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تمام مسائل صرف تمہارے لیے ہیں۔ ایسا نہیں ہے! خرابیاں اور پریشانیاں دنیا بھر میں ہیں۔ پاکستان کا موازنہ بالعموم بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے کیا جاتا ہے۔ یہ موازنہ بہت حد تک درست نہیں‘ بلکہ میری نظر میں فضول ہے۔ چاروں ممالک کے حالات یکسر مختلف ہیں۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے جس کی پریشانیاں بہت زیادہ ہیں۔ اس کا رقبہ 32 لاکھ 87 ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی ایک ارب، 35 کروڑ 26 لاکھ ہے جبکہ 2 کروڑ 18 لاکھ کی آبادی اور 66 ہزار مربع کلو میٹر کے رقبے کے ساتھ سری لنکا خاصا چھوٹا ملک ہے اس لیے بیشتر معاملات اچھی طرح کنٹرول کرلیتا ہے۔ معاشی معاملات کے تجزیوں میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت بہت بری حالت میں ہے، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے! جن مسائل کا پاکستان کو سامنا ہے اُنہی مسائل کا بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کو بھی سامنا ہے۔ ان تینوں ممالک کے عوام بھی اِسی دنیا میں جی رہے ہیں، جنت کے سے مزے نہیں لُوٹ رہے۔
پاکستان کو بہت سے معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ عوام کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے مگر اس کے باوجود اب بھی پاکستانی بہت اچھی حالت میں ہیں اور قدرے سکون سے جی رہے ہیں۔ چند ایک معاملات میں بے ذہنی سے کام لینے کی ''روایت‘‘ کے زور پکڑ جانے کے باعث پاکستانیوں کو الجھنوں کا سامنا ہے، ورنہ بیشتر معاملات میں ہم اب بھی خطے میں مجموعی طور پر بہت اچھی پوزیشن میں ہیں۔ بھارت میں آج بھی ''زندہ رہنے کی لاگت‘‘ اچھی خاصی ہے اور پاکستانیوں کے مقابلے میں اہلِ بھارت کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ کھانے پینے اشیا پاکستان میں بہت مہنگی ہیں۔ اس وقت بھارت میں (پورے ملک کے اوسط کی بنیاد پر) دودھ 100 روپے فی لیٹر، چاول 110 روپے فی کلو، انڈے 140 روپے فی درجن، چکن 300 سے 350 روپے فی کلو، آلو 65 روپے فی کلو، پیاز 70 روپے فی کلو، کیلے 100 روپے فی درجن اور سیب 300 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہے ہیں۔ (یہ تمام نرخ پاکستانی کرنسی میں ہیں)
کراچی کا شمار آج بھی اُن بڑے شہروں میں ہوتا ہے جہاں زندہ رہنے کی لاگت خاصی کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے بڑے شہروں کے مقابلے میں تو کراچی سستا ہے ہی، بھارت کے بڑے شہروں کے مقابلے میں بھی یہ شہر غریب پرور ہے۔ کھانے پینے پر کیے جانے والے اخراجات اور رہائشی کرایوں کی بات کیجیے تو کراچی کے مقابلے میں دہلی 24 اور87 فیصد، ممبئی 32 اور 372 فیصد، چنئی (مدراس) 16 اور 44 فیصد، کولکتہ 18 اور 33 فیصد جبکہ احمد آباد 20 اور 36 فیصد مہنگا ہے۔
اہلِ پاکستان اور اہلِ بھارت کے عمومی معاشی مسائل کا موازنہ اور تجزیہ کرتے وقت چند ایک ایسے حقائق نظر انداز کردیے جاتے ہیں جو کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیے جانا چاہئیں۔ پاکستان میں عام آدمی کو معاشی اور معاشرتی سطح پر جن مسائل کا سامنا ہے اُن سے کہیں زیادہ سنگین نوعیت کے مسائل کا بھارت کے عام آدمی کو سامنا ہے۔ وہاں کمانا آج بھی بہت مشکل ہے۔ لوگوں کا عمومی مزاج بہت عجیب اور ٹیڑھا ہے۔ ذات پات کے نظام نے معیشت و معاشرت کو اب تک گھیر رکھا ہے۔ ایسے میں نچلی ذات کے کہے جانے والے ہندوؤں کے لیے (مذہبی اعتبار سے) اور عمومی سطح پر عام مسلمان کے لیے (تعصب کی فضا میں) کام کرنا یعنی کمانا بہت بڑا دردِ سر ہے۔ بڑے شہروں میں رہائش کا انتظام آج بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان میں کراچی، لاہور، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد وغیرہ میں رہائش بھی آسانی سے میسر ہے اور ذریعۂ معاش بھی کچھ نہ کچھ نکل ہی آتا ہے۔ اس کے برعکس ممبئی، دہلی، چنئی، کولکتہ، احمد آباد اور دیگر بڑے بھارتی شہروں میں رہائش کا انتظام مستقل نوعیت کا دردِ سر ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کو الگ تھلگ آبادیوں (ghettos) میں رہنے کے باعث زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مہنگائی کے باوجود پاکستان میں عام آدمی کا گزارا قدرے آسانی سے اس لیے ہو جاتا ہے کہ یہاں صَرف (consumption) کا رجحان بہت توانا اور وسیع ہے۔ لوگ بچت پر زیادہ یقین نہیں رکھتے اور عموماً پوری کمائی خرچ کر ڈالتے ہیں۔ یہ بات ہے تو معیوب کیونکہ بحرانی کیفیت میں شدید الجھن ہوتی ہے؛ تاہم یہ نکتہ نظر انداز نہ کیا جائے کہ صَرف کے غیر معمولی اور خاصے توانا رجحان ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ عام آدمی کو کسی نہ کسی طور کمانے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ مشکل حالات کا بھی سامنا کر ہی لیتا ہے۔ بھارت کے بہت سے علاقوں میں آج بھی ایسی شدید غربت ہے کہ پاکستان میں اُس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بہار، اتر پردیش، مدھیا پردیش، چھتیس گڑھ، جھاڑ کھنڈ اور تلنگانا ایسی بھارتی ریاستیں جن میں زندگی کی دوڑ میں بالکل پیچھے رہ جانے والوں کی مجموعی تعداد پاکستان اور بنگلہ دیش کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے! حکومت مضبوط ہے اور بنیادی سہولتوں کے معاملے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے؛ تاہم عام آدمی کو قوتِ خرید برقرار رکھنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ قصہ مختصر! بہت سی الجھنوں کے باوجود پاکستان اب بھی ایسا خطہ ہے جہاں زندگی بسر کرنے پر ہمیں اللہ کا شکر گزار رہنا چاہیے۔