تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     01-11-2020

ملتان کا مرزا ابن حنیف

سوچتا ہوں کتنی ایسی کتابیں ہوں گی جن کی آمد کا میں اتنی بے چینی سے انتظار کرتا ہوں جتنا میں نے ڈاکٹر انوار احمد کی اس کتاب کا کیاہے جو انہوں نے ابن حنیف کی شخصیت اور فن پر لکھی ہے۔
ملتان میں چھپنے والی کتابیں ہوں یا وہاں کے ادیب، شاعر، کالم نگار ان کی آواز اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی تک کم ہی پہنچتی ہے‘ اس لیے مجھے حیرانی نہیں ہوئی جب 'پاکستان کے بڑے شاعر‘ اور 'گوتم کا آخری واعظ‘ جیسی شاہکار نظم لکھنے والے ڈاکٹر اسلم انصاری کو پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ ملا تو وہ ایوارڈ لینے والے سب کی ویڈیوز ٹی وی چینلز پر چلیں، اخبارات میں فوٹو چھپیں‘ لیکن ہمارے ملتان کے اس شاعر کی شکل یا نام کہیں نظر نہ آیا۔ ملتان سے زری اشرف نے کہا کہ جونہی کتاب چھپ کر آتی ہے سب سے پہلے مجھے کاپی بھیجیں گی۔ زری اشرف نہ صرف خود کتابیں پڑھتی ہیں، سوشل کام کرتی ہیں بلکہ کتابیں خرید کر دوستوںکو پوسٹ بھی کرتی ہیں۔
کتاب کھولی تو یوں لگا‘ میرا ماضی میرے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ تیس برس پہلے کا ملتان‘ جس کی محبت میں گرفتار ہوا اور آج تک سحر سے نہیں نکل سکا‘ اسی شہرِ درویشاں میں کمال دوست بنائے‘ جنہوں نے میرا مشکل دور میں خیال رکھا۔ اسی شہر میں دو ایسے درویشوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے میری زندگی ہی بدل کر رکھ دی‘ باقر شاہ اور چوہدری نیاز۔
اب بھی کبھی کبھار کسی تنہا اور اداس دوپہر فون کی گھنٹی بجے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دوسری طرف میرا دوست سعود نیاز ہو گا جس کا ڈیرہ اڈہ پر موٹر سائیکلوں کا شو روم تھا ''رئوف لالہ کتھاں او‘ بابا سائیں دوپہر دے کھانے تے تہاڈا انتظار کریندے پائیں‘‘۔ باپ بیٹے کو پتہ تھا میں ہوٹل سے کھانا کھاتا ہوں‘ اس لیے لازم تھا کہ دوپہر کا کھانا ان کے شوروم پر ہی کھایا جائے گا۔ کھانا گھر سے آتا تھا۔ سعود نیاز کے درجن بھر ملتانی دوست اس وقت ہی شوروم پر اکٹھے ہوتے۔ وہ سب کو کھانا کھلاتے۔ ہمارے جانے کے بعد خود سامنے والے ہوٹل سے منگوا کر کھا رہے ہوتے تھے۔ اس طرح کا سلسلہ پھر ڈاکٹر ظفر الطاف کے ہاں دیکھا۔ ان کے دسترخوان پر درجن بھر لوگ نہ ہوتے تو وہ کھانا شروع نہ کرتے۔باقر شاہ جیسا بندہ بھی شاید ہی دوبارہ اس دنیا میں ملے۔ بڑا عرصہ انہوں نے اس مسافر کو گھر رکھا اور زندگی کے مشکل ترین لمحات میں پیار دیا‘ محبت دی‘ حوصلہ دیا۔ اسی طرح ملتان میں روشن ملک کے گھر رات گئے کی محفلیں بھی چاندنی راتوں میں دل جلانے آجاتی ہیں۔ ذوالکفل بخاری مرحوم کے گھر پر ملی محبت کا ذکر پھر کبھی سہی۔
ابن حنیف کی شخصیت پر جو کچھ ڈاکٹر انوار احمد نے لکھ دیا‘ اسے پڑھ کر کافی دیر اداس بیٹھا رہا۔ مجھے ان سے پہلی ملاقات یاد آئی جو 1992 میں ہوئی تھی‘ جب میں ملتان یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کا طالب علم تھا اور میں نے انہی دنوں یونانی ڈراموں کا ترجمہ کیا تھا۔ اگرچہ ڈاکٹر انوار احمد اردو ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے‘ لیکن میں ان سے اردو ادب پر گفتگو کرنے پہنچ جاتا تھا۔ وہ ہر طالب علم کو عزت اور وقت دیتے تھے۔ یہ اور بات کہ برسوں بعد ایک دفعہ اردو ڈیپارٹمنٹ گیا تو ان کے دفتر میں میز پر چھوٹی سی تختی رکھی دیکھی جس پر لکھا تھا ''میرا فضول میں وقت ضائع نہ کیا جائے‘ میں نے ضروری کام نمٹانے ہیں‘‘۔ میرے چہرے پر ابھری شرمندگی کم کرنے کی شعوری کوشش کرتے ہوئے ہنس کر بولے تھے: یہ تمہارے لیے نہیں لکھا۔
انہوں نے ہی مجھے ابن حنیف کی راہ دکھائی تھی۔ ایک دوپہر میں اپنی انگریزی ادب کی کلاس کے بعد یونیورسٹی کی بس پر بوسن روڈ پر واقع ایک پرائیویٹ کالج کی عمارت کے سامنے اتر گیا‘ جہاں وہ ایڈمن اور لائبریری کے معاملات دیکھتے تھے‘ ایسی عزت دی کہ حیران ہوتا ہوں۔ آج بھی اگر کوئی مجھ ملنے آئے تو ویسی ہی عزت ان اجنبیوں کو لوٹانے کی کوشش کرتا ہوں جیسی ابن حنیف نے مجھے دی تھی۔ اگر میرا کسی اجنبی سے ملنے کو دل نہ چاہ رہا ہو تو ذہن میں دو لوگوں کی شکل ابھرتی ہے‘ ایک منو بھائی اور دوسرے ابن حنیف۔ منو بھائی نے بھی 1990 میں لاہور میں میری ایک اجنبی فون کال پر مجھے اپنے گھر بلا لیا تھا اور ایک گھنٹے تک مجھ سے ایسی باتیں کرتے رہے جیسے روسی اور فرانسیسی ادب پر مجھ سے بڑا محقق اور نہ پیدا ہوا ہو۔ دوسرے 1992 میں ابن حنیف نے جس عزت سے نوازا اور مجھ سے میرے یونانی ڈراموں کے کیے گئے تراجم پر باتیں کرتے رہے‘ وہ بھی نہیں بھولے گا۔ میں رخصت ہونے لگا تو باہر تک چھوڑنے آئے۔ بولے: رئوف میاں علم کی تلاش میں سرگرداں طالب علم کی اتنی عزت تو ہونی چاہیے کہ اسے باہر جا کر چھوڑ آیا جائے۔
اگلے دن میں بیکن ہائوس ملتان گیا تو وہاں ابن حنیف کی برسوں کی تحقیق کے بعد لکھی گئی درجن بھر سے زیادہ کتابیں دیکھ کر پانی پانی ہوگیا کہ میں ان کے سامنے کتنی بڑھکیں مار آیا تھا اور وہ چپ کرکے یوں سنتے رہے جیسے مجھ سے بڑے عالم سے ان کی ملاقات نہ ہوئی ہو۔ بیکن بُکس کے مالک عبدالجبار بھی اعلیٰ شخصیت ہیں۔ ملتان میں کتابیں چھاپ اور بیچ کر جبار صاحب نے بھی بڑی خدمت کی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ملتان گیا تو جمشید رضوانی کو کہا: یار سب کام چھوڑو مجھے بیکن بکس لے چلو۔ اس کے ساتھ ہی ابن حنیف کا گھر تھا‘ جہاں میں اکثر جاتا تھا۔ ابن حنیف بہت کم لوگوں سے ملتے اور مسلسل کتابوں پر کام کرتے رہتے تھے۔ میں ان چند خوش نصیبوں میں سے تھا جن کی ہر وقت ان تک رسائی تھی۔ میں نے بیکن بکس جاکر ابن حنیف کی کتابیں تلاش کرنے کی کوشش کی کہ وہ خرید کر اسلام آباد لے جائوں۔ جبار صاحب کہنے لگے: وہ کتابیں آئوٹ آف پرنٹ ہیں۔ ( جبار صاحب نے ابھی تک وعدہ پورا نہیں کیاکہ وہ ان نایاب کتابوں کا سیٹ ڈھونڈ کر مجھے دیں گے۔) کتنی دیر افسردہ کھڑا رہاکہ کیسے ابن حنیف کی عمر بیت گئی اور انہوں نے کمال ریسرچ کے بعد مصر کا قدیم ادب، دنیا کا قدیم ادب، گلگا مشن کی داستان، بھولی بسری داستانیں، سات دریائوں کی سرزمین جیسی شاہکار کتابیں تخلیق کیں۔ ایک دفعہ ان کے گھر کے ڈرائنگ روم میں‘ جہاں وہ کمر درد کے باعث اکثر لیٹے رہتے تھے‘ موت پر گفتگو ہورہی تھی۔ میں نے کہا: کبھی آپ کو موت سے ڈر لگا؟ ہنس کر بولے: رئوف میاں‘ جب آپ کے سامنے ہزاروں سال قدیم انسانی تہذیبیں، سلطنتیں، بادشاہ، شہزادے، شہزادیاں، ملکائیں، ریاستیں اور خدائی کے دعویدار فرعون ابھریں اور پھر وقت کے صحرا میں گم ہو جائیں تو پھر موت بے معنی ہو جاتی ہے‘ آپ پر موت کا تجسس حاوی ہو جاتا ہے‘ ڈر نہیں۔ مجھے یقین ہے جب وہ اگلی دنیا پہنچے ہوں گے تو پہلی کوشش کی ہوگی کہ مصر کے فرعونوں کو تلاش کرکے ملا جائے جن پر ریسرچ کرتے ان کی عمر بیت گئی تھی اور ان سے آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کی جائیں۔ ایسے ہی مجھے نعیم بھائی کا لگتا ہے کہ انہوں نے اگلے جہاں پہنچ کر ہنری ڈی بالزاک اور گیبریل گارشیا مارکیز کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہوگی۔
کتاب پڑھ کر پتہ چلا مرزا ابن حنیف کو کینسر ہوگیا تھا۔ 2004 میں زندگی کے آخری دنوں میں جب وہ نامعلوم طویل سفر پر روانہ ہورہے تھے تو جہاں وہ دیگر ضروری کام نمٹا رہے تھے وہیں وہ ڈاکٹر انوار احمد کو میرے نام اپنے ہاتھوں سے ایک چٹ لکھ کر یونانی ڈراموں کی کتاب واپس کرنا نہیں بھولے تھے جو انہوں نے بیس برس پہلے 1994میں مجھ سے مستعار لی تھی اور میں کب کا بھول چکا تھا۔ مغلوں کی نسل کے آخری چراغوں میں سے ایک مرزا ابن حنیف اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی پرانا ادھار لوٹانا نہیں بھولے تھے۔ مرزا ابن حنیف کے ہاتھ سے لکھی وہ سولہ برس پرانی چٹ میرے سامنے رکھی ہے ''ئوف میاں کی کتاب ان کو لوٹا دینا‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved