تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     01-11-2020

میاں نواز شریف کی واپسی کے امکانات

عمران خان صاحب آج کل اونچی ہوائوں میں ہیں اور بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے اپنی تقریر کے دوران منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ وہ اب نئے عمران خان ہیں یعنی وہ اب نیو خان ہیں اور وہ لندن سے ملزمان کو واپس لا کر عام قیدیوں کے ساتھ جیل میں بند کریں گے۔ ہمارے ایک دوست کے بقول اس اعلان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کم از کم اب اپنی تمام تر سابقہ تقاریر سے تو بری الذمہ ہو گئے ہیں کہ اب وہ نئے عمران خان ہیں اور ان کا ان کے کسی سابقہ فعل، عمل، گفتگو اور تقریر سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ اس سے خان صاحب کو بڑی آسانی ہو جائے گی اور وہ اینکر جو ان کے حالیہ بیانات اور اعمال کا ان کی گزشتہ تقاریر کے ساتھ موازنہ کرکے ان کو خراب کرنے کی کوشش کرتے تھے اب ان کی دکانداری بالکل بند ہو جائے گی کہ خان صاحب اب پہلے والے عمران خان نہیں اور نہ ہی ان کا پرانے عمران خان سے اب کوئی لینا دینا ہے۔ اب ان کے سابقہ وعدوں، تقاریر اور گفتگو کو بطور حوالہ پیش کرنا بھی نہایت ہی غیر اخلاقی بات ہوگی۔
اوپر سے گزشتہ دنوں خان صاحب نے دو تین روز کی خاموشی توڑتے ہوئے فرمایا کہ اگر انہیں خود جانا پڑا تو بھی وہ برطانیہ جا کر نواز شریف کو واپس لائیں گے۔ ویسے تو یہ وزیراعظم کا نہیں کسی ایس ایچ او کے مرتبے کا کام ہے کہ وہ مفرور ملزمان کی برآمدگی اور حوالگی کے لیے دوسرے ملکوں میں جائے اور انہیں پکڑ کر واپس لائے۔ بقول رستم لغاری کے جب آپ صدر ہوں تو پھر صدر کا رویہ اپنائیں (When you are a president, behave like a president) آپ کو بلند مرتبے پر جا کر اپنی طبیعت کے برخلاف ہی سہی مگر اس عہدے کے تقاضے کے مطابق رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ایسے معمولی کاموں کے لیے ادارے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے سلسلے میں پہلے سے موجود ہیں اور اس سے پہلے بہت سے مفرور ملزمان کو بیرون ملک سے پکڑ کر واپس لایا جا چکا ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کوئی وزیراعظم یا سربراہ مملکت اس قسم کی گفتگو کرے اور وہ بھی اپنی تقریر میں۔ لیکن وہی بات، عمران خان کے ذہن سے اپوزیشن لیڈری ہی نہیں نکل پا رہی۔ وہ اسی قسم کا دعویٰ لے کر ایک بار الطاف حسین کو لندن سے واپس لانے کے لیے برطانیہ جا چکے ہیں، اور ثبوتوں کے پلندوں کے باوجود بے نیل و مرام واپس آ چکے ہیں۔ برطانیہ سے ایک بار ناکامی کے بعد انہیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی کہ وہ ان کے سسٹم کو اپنے دعوے اور ثبوتوں کے باوجود بھگت چکے ہیں۔
دراصل ہمارے ہاں کے حکمران اپنے عہدے کے مفہوم یعنی حکم چلانے والے کو انہی معنوں میں لیتے ہیں جو لغت میں لکھا ہے یعنی حکم چلایا اور فرمان پورا کروا لیا۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر تیسری دنیا میں حکمرانی کا فائدہ کیا ہے؟ لیکن اتنا عرصہ مغرب میں گزارنے اور الطاف حسین والے معاملے میں ناکامی کے باوجود ان کے دل میں برطانیہ سے اپنا ملزم واپس لانے کا شوق ماند نہیں پڑا۔ بھلا برطانیہ میاں نواز شریف کو واپس کیوں کرے گا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ برطانیہ میں دنیا بھر سے جتنے بھی مفرور سیاستدان آتے ہیں ان کو برطانیہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہوتی ہے اور وہ اسے اپنے Strategic assets کے طور پر سنبھال کر اور بحفاظت رکھتا ہے کہ بوقت ضرورت (اپنی ضرورت کے مطابق) انہیں استعمال کر سکے۔ الطاف حسین اس کی بڑی مثال ہے کہ اگر ایسی منی لانڈرنگ، بے نامی جائیدادیں اور بلیک منی کسی عام آدمی نے‘ جسے برطانوی حکومت کی باقاعدہ اشیرباد حاصل نہ ہوتی‘ کی ہوتی تو اسے کم از کم اب تک ڈیڑھ سو سال کی سزا ہو چکی ہوتی مگر برطانوی قانون بھی اپنی نوعیت کا عجب انصاف پسند قانون ہے‘ برطانیہ کے ارب پتی اور ککھ پتی کو تو ایک لاٹھی سے ہانکتا ہے لیکن اپنے قومی مفادات کے حساب سے غیرملکی ملزمان کو اپنا دفاعی اثاثہ بنا کر ان کی پوری حفاظت کرتا ہے۔ ان کی واپسی کے مسئلے پر ان کا قانون اور ان کی عدالتیں‘ دونوں ایسے آنکھیں موند لیتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ پہلے الطاف حسین برطانیہ کا Strategic asset تھا اور اب نواز شریف ہے۔ جو شخص بھی پاکستان کی مقتدرہ کو زک پہنچانے کی کوشش کرے گا سارا مغرب اس کا پشتیبان ہوگا۔ اب برطانیہ میاں نواز شریف کا پشتیبان ہے اور ان کا قانون بھی ساری انسان دوستی اور شخصی آزادی کا جھنڈا اسی معاملے میں بلند کرے گا۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ برطانیہ سے صرف ایک سابقہ سربراہ مملکت کو کسی دوسری حکومت کے سپرد کیا گیا‘ اور وہ چلی کا سابقہ ڈکٹیٹر اور حکمران جنرل آگسٹو پنوشے تھا۔ اسے بھی صرف اس لیے واپس کیا گیا کہ چلی واپس بھیجنے کا مطالبہ امریکہ کی طرف سے آیا تھا۔ اگر کسی ہمارے جیسے غریب اور کمزور ملک نے کیا ہوتا تو جنرل پنوشے اب بھی اپنی بے پناہ دولت کے ساتھ وہاں میں مزے کر رہا ہوتا۔ برطانیہ نے دوسرے ممالک کی دولت لوٹ کر اپنے ہاں آنے والوں کے لیے بڑی قانونی قسم کی آسانیاں پیدا کر رکھی ہیں۔ ورجن آئی لینڈ ٹائپ ٹیکس ہیونز میں آپ آف شور کمپنی رجسٹرڈ کروائیں‘ اپنی ساری ناجائز دولت کو قانونی بناکر برطانیہ لے آئیں اور اس سے برطانیہ کی معیشت کو سہارا دیں۔ برطانیہ آپ کو پکڑنا تو رہا ایک طرف باقاعدہ شکر گز ار ہوگا۔ برطانیہ نہ تو زرعی ملک ہے اور نہ ہی وہاں سستی اور باافراط لیبر دستیاب ہے‘ اس کے باوجود اس کا جی ڈی پی 2.21 ٹریلین پونڈ ہے۔ برطانیہ دنیا کا پانچواں بڑا ایکسپورٹر ہے۔ صرف 2017ء میں برطانیہ میں 80.61 بلین پونڈ کی سرمایہ کاری ہوئی۔ اس سرمایہ کاری میں بہت بڑا حصہ انہی آف شور کمپنیوں کے ذریعے آنے والا سرمایہ ہے۔ یہ نوے فیصد سے زیادہ لوٹ مار کا پیسہ ہے‘ لیکن اب دنیا بدل چکی ہے اور نوآبادیاتی سسٹم اپنی موت آپ مر چکا ہے‘ اس لیے برطانیہ‘ جس کا کبھی یہ عالم تھاکہ اس کے زیر تسلط ممالک کو اس کی سلطنت مانیں تو وہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا‘ میں آج یہ عالم ہے کہ کئی کئی دن سورج طلوع نہیں ہوتا؛ تاہم اس کے ہاں دولت کی ریل پیل کا اب بھی وہی عالم ہے۔ فرق یہ پڑا ہے کہ پہلے وہ یہ لوٹ مار خود کرتے تھے اب تیسری دنیا کے حکمران (ان کے سابقہ غلام) اپنے ملکوں سے یہ دولت لوٹ کر آف شور کمپنیوں کے ذریعے گھما پھرا کر برطانیہ لے آئے ہیں۔ نہ ہینگ لگی‘ نہ پھٹکڑی اور ان ممالک کی دولت کسی جنگ و جدل، بدنامی اور بھاگ دوڑ کے بغیر از خود چل کر ان کے پاس آ جاتی ہے۔ برطانیہ کی معیشت کا ایک بڑا سہارا یہی دولت ہے اور ان کو لانے والے لوگ بے شک ہمارے ملزم اور مجرم ہوں گے مگر وہ برطانیہ کے محسن ہیں اور بھلا برطانیہ اپنے محسنوں کو ہمارے حوالے کیوں کرے گا؟
ملک خالد سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگا: ویسے بھی اگر عمران خان صاحب برطانیہ آئے تو میاں نواز شریف کو تو خیر کیا واپس لے کر جائیں گے‘ پہلے تو چودہ دن قرنطینہ میں رہنا پڑے گا اور اس کے بعد انکار ہوگا کہ ان چودہ دنوں میں تو ان کی کسی نے بات بھی نہیں سننی‘ ملزم حوالے کرنا تو دور کی بات ہے۔ برطانیہ آج کل جن لوگوں کو ٹائر ون انویسٹمنٹ ویزہ کے تحت محض دو لاکھ پونڈ کی سرمایہ کاری پر مستقل رہائش اور بعد ازاں شہریت دیتا ہے‘ ان کو واپس نہیں کرتا‘ میاں نواز شریف اینڈ کمپنی تو اپنی سرمایہ کاری کے حساب سے ان کے لیے بہت ہی موٹی پارٹی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved