''No Never ‘‘سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ میں کبھی بھی پسند نہیں کروں گا کہ انڈین ایئر فورس کی میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو ‘‘ یہ الفاظ 30 مئی1999ء کو بھارتی ہائی کمشنر جی پارتھا سارتھی کے تھے جو پاکستان کی قید میں انڈین فلائٹ لیفٹیننٹ کو لینے آئے تھے۔انڈین پائلٹ کی حوالگی کی اس تقریب کے موقع پر ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو دیکھ کر انڈین ہائی کمشنر کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور اس نے وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد سے رابطہ کیا‘ جہاں سے کسی شخصیت نے متعلقہ افسران کو حکم دیا کہ تمام میڈیا واپس بھیج دیا جائے ۔ انڈین ہائی کمیشن کے یہ الفاظ وہاں موجود تمام میڈیا اور افسران نے جیسے ہی سنے ان کی گرفت انڈین پائلٹ پر مزید سخت ہو گئی ‘لیکن پرائم منسٹر ہائوس سے ملنے والے احکامات نے انہیں انڈین ہائی کمشنر اور اس کے ایئر اتاشی کے سامنے شرمندہ کر دیا۔ اس کے دو دن بعد یعنی یکم جون1999ء کی رات9 بجے کا وقت تھا کہ بھارتی ہائی کمشنر جی پارتھا سارتھی کے کمرے میں رکھے سپیشل فون کی گھنٹی بجنے لگی اور جیسے ہی انڈین ہائی کمشنر نے اپنے خصوصی فون کو اٹھایا تو دوسری جانب سے انہیں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے سٹاف کی جانب سے کہا جانے لگاکہ آپ کے پاس آئے ہوئے ایک خصوصی مہمان سے پردھان منتری اٹل بہاری واجپائی بات کریں گے‘ مہمان کوفوری طور پر اپنے کمرے میں بلا کر ان کی پردھان منتری سے بات کرائی جائے۔ چند منٹوں بعد اس خصوصی مہمان کو اس سائونڈپروف کمرے میں لانے کے بعد نئی دہلی کے پردھان منتری ہائوس کے آفس کو ہائی کمشنر کی جانب سے اطلاع کر دی جاتی ہے کہ وہ مہمان پہنچ چکا ہے اور پھر ایک ہلکی سی گھنٹی بجنے کی آواز کے ساتھ ہی وہ خصوصی فون اٹھانے کے بعد دوسری طرف سے چند سیکنڈ فون سننے کے بعد کریڈل اس خصوصی مہمان کے حوالے کر دیا جاتاہے جو دوسری طرف سے اپنے ملک بھارت کے پردھان منتری واجپائی جی سے انتہائی ادب اور مسرت آمیز لہجے میں گفتگو شروع کر دیتا ہے۔ تقریباً چار پانچ منٹ تک یہ گفتگو جاری رہتی ہے اس کے بعد ہائی کمیشنر بھی اس گفتگو میں شریک ہو جاتے ہیں جنہیں بتایا جاتا ہے کہ اس خصوصی عنایت اور بہترین سلوک پر پردھان منتری جلدہی پاکستان کے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کریں گے۔ انڈین ہائی کمیشن میں بھجوائے گئے خصوصی مہمان کو خوش خبری سنا دی جاتی ہے کہ آپ کوکل ایک خصوصی جہاز سے لاہور اور پھر وہاں سے واہگہ کے راستے نئی دہلی بھجوایا جا رہا ہے۔ اپنی بھارت روانگی کی خبر سننے کے بعد ہائی کمیشن کے اندر بھجوائے گئے خصوصی مہمان کو کچھ زیا دہ تعجب نہیں ہوتا‘ جب اس پائلٹ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ کو اپنے دیس اور فیملی کے پاس جانے کی اطلاع سن کر خوشی نہیں ہوئی تو اس کا جواب تھا'' سر میرے لئے تو اسی دن تمام راستے کھل گئے تھے جب مجھے ایک شام پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی قید سے نکال کر آپ لوگوں کے درمیان پہنچا دیا گیا تھا‘ اس کے بعد مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب میرے بھارت جانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ ہی یہاں کسی کی جرأت ہے کہ مجھے اپنے پاس تفتیش یا کسی بھی مقصد کے لیے آپ کی موجو دگی کے بغیر ایک لمحے کے لیے بھی رکھ سکے اور نہ ہی اپنے کسی دوسرے مقصد سمیت ہماری حکومت یا فوج پر کوئی دبائو ڈالنے کی انہیں ہمت ہو گی۔مجھے تو دشمن کی قید میں رہتے ہوئے چند دن خوف اور دہشت کا جو احساس رہتا تھا اس وقت ذہن کے ہر گوشے سے نکل گیا تھا جب آپ مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے میرے سامنے کھڑے مسکرا تے ہوئے میرے کندھے تھپتھپا رہے تھے‘‘۔
پردھان منتری واجپائی سے فون پر گفتگو کرنے کے بعد خصوصی مہمان اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کی عمارت کے ایک شاندار اور آرام دہ کمرے میں کافی اور سینڈ وچز سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ ایک گارڈ نے سلیوٹ کرتے ہوئے اس سے درخواست کی کہ انڈین ایئر فورس کے چیف Anil Tipnis آپ سے فون پر گفتگو کرنے والے ہیں اس سلسلے میں ان کے چیف آف سٹاف نے ہم سے درخواست کی ہے کہ آپ کو آن لائن لیا جائے۔ خصوصی مہمان یہ سنتے ہی فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے جنہیں ایک بار پھر ہائی کمشنر کے کمرے میں لے جایا گیا۔
بھارتی ایئر فورس کے ایئر چیف مارشل اور بھارتی ہائی کمیشن کے عمارت کے اس سائونڈ پروف کمرے میں بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور پھر انڈین ایئر فورس کے ایئر چیف مارشل سے گفتگو کرنے والا بھارتی ایئر فورس کا پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ Kambampati Nachiketa ‘تھا جسے کارگل جنگ کے دوران27 مئی 1999ء کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ کارگل کی چوٹیوں پر ڈٹے ہوئے ہمارے جانبازوں پر بمباری کرنے کے لیے آیا اور اس کے جہاز کو پاکستانی فوج کے نشانہ بازوں سے تباہ کر دیا اوریہ جہاز سے اپنے پیرا شوٹ کے ذریعے نیچے کودا تو زمینی فورس نے اسے گرفتار کر نے کے بعد ایئر فورس حکام کے حوالے کر دیا۔
اب مسلم لیگ (ن) کی لندن اور رائے ونڈ میں بیٹھی ہوئی قیا دت نے اپنے ایک نہایت ہی قابل اعتماد رکن اسمبلی کے ذریعے بھارت کی دنیا بھر میں مانی ہوئی فضائی شکست کے بد نما داغ کو جس طرح دھونے کی کوشش کی ہے‘ تو اس دوران ان کا ماضی کا ریکارڈ بھی ضرور دیکھنا چاہیے اور ان کا ریکارڈ یہ ہے کہ پاکستان ایئر فورس اور ہماری حساس ایجنسیاں جب بھارت کے پائلٹ سے تفتیش کرنے میں مصروف تھیں تو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ایک فون کال پر اُس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے افواج پاکستان کے چیف جنرل پرویز مشرف کو حکم دیا کہ بھارت کے گرفتار کئے گئے اس پائلٹ کو فوری طور پر بھارت واپس بھیجنے کے اقدامات کئے جائیں اور انڈین ایئر فورس کے اس پائلٹ کو جو اس وقت انٹیلی جنس کی تحویل میں ہے اسے آج ہی ایک فوجی میس میں پہنچا دیا جائے۔
میاں محمد نواز شریف جو اُس وقت پاکستان کے وزیر اعظم تھے‘ ان کے حکم پر انڈین ایئر فورس کے پائلٹ Kambampati Nachiketa کو اسلام آباد پہنچایا گیا اور پھر بجائے اس کے کہ انہیں اسلام آباد میں آرمی کے کسی سیف ہائوس میں رکھا جاتا‘ چند گھنٹوں بعد جنرل مشرف کو ایک بہت ہی عجیب اور نرالا حکم جاری ہوا کہ آپ اس انڈین پائلٹ کو فوج کی تحویل میں رکھنے کی بجائے ابھی انڈین ہائی کمشنر کے حوالے کر دیں۔ اگلے آدھ گھنٹے میں آپ کے آدمی بھارتی ہائی کمشنر اور ان کے سٹاف کو ساتھ لے کر اس جگہ پہنچیں اور با حفاظت گرفتار کئے گئے اس انڈین ایئر فورس کے 26 سالہ فلائٹ لیفٹیننٹ کو عزت و احترام کے ساتھ انڈین ہائی کمیشن کی عمارت میں پہنچانے کے بعد اگلے حکم کا انتظار کریں۔انڈین ایئر فورس کا یہ26 سالہ فلائٹ لیفٹیننٹ کارگل جنگ کے دوران انڈین ایئر فورس کےMiG27 فائٹر طیارے پر کارگل کی چوٹیوں پرپوزیشن سنبھالے ہوئے پاکستانی جانبازوں کو نشانہ بنا رہا تھا کہ پاکستانی ایئر ڈیفنس کی مہارت کا نشانہ بن گیا۔جیس ہی اس نے ہدف کا انتخاب کیا اور اپنے طیارے میں نصب 30ایم ایم کے ہتھیار سے فائرنگ شروع کی‘ اُس کے انجن نے کام چھوڑ دیا۔انڈین ایئر فورس کے ریکارڈ میں بھارت کے اس فائٹر پائلٹ کو ‘جسے پاکستانی فوج نے نشانہ بنا کر گرانے کی اہلیت تسلیم کرنے کی بجائے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ اچانک اس کا انجن فلیم آؤٹ ہو گیا‘ جس کی وجہ سے وہ پیرا شوٹ سے نیچے کود گیا اور جب ہوش میں آیا تو خود کو دشمن کی قید میں پایا‘ اب نہ جانے ٹانگیں کس کی کانپ رہی تھیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved