تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-11-2020

سرخیاں، متن اور انجم قریشی کی نظم

کمزور طبقے مسائل بتائیں، جو ہو سکا کر گزروں گا: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''کمزور طبقے مسائل بتائیں، جو ہو سکا کر گزروں گا‘‘ اگرچہ کمزور طبقے کے مسائل کا علم مجھے خود ہی ہونا چاہیے لیکن ہم طاقتور طبقوں میں ہی اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ کمزور طبقے کے مسائل کا علم ہی نہیں ہو سکا۔ طاقتور نے بہر حال مزید طاقتور اور کمزور طبقے نے مزید کمزور ہونا ہے اس لیے ہم اپنی اس بہت بڑی روایت سے چشم پوشی کیسے کر سکتے ہیں؟ اس لیے کمزور طبقے کو چاہیے کہ ہمیں اپنے مسائل کی فہرست بنا کر بھیج دیں تا کہ اس پر غور و خوض کیا جا سکے لیکن اس پر بھی زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ کمزور طبقوں میں فہرست بنانے کی بھی توفیق نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ایک پناہ گاہ میں مقیم افراد کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔
ووٹ کو عزت دو کے لیے میدان میں آئیں: مریم نواز
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ووٹ کو عزت دو کے لیے میدان میں آئیں‘‘ اگرچہ حکومت کے خاتمہ سے ووٹ کو خود بخود ہی عزت مل جاتی لیکن ہمارے جلسوں کی وجہ سے حکومت مزید مضبوط اور خبردار ہو گئی ہے اور جن کے لیے ہم عزت کا مطالبہ کر رہے تھے ان ووٹوں نے خود ہی ہماری بات پر دھیان نہیں دیا، حتیٰ کہ نواز شریف کے بیانیے سے بھی پارٹی میں کافی فتور پیدا ہو گیا ہے اور متعدد رہنما پارٹی چھوڑنے کا عندیہ ظاہر کر رہے ہیں جس کے جواب میں ہم نے یہی کہا ہے کہ جسے جانا ہے‘ چلا جائے جبکہ پارٹی کے لیے لندن میں والد صاحب اور یہاں پاکستان میں ہم چند لوگ ہی کافی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک ٹویٹ کے ذریعے خطاب کر رہی تھیں۔
مولانا فتنے اور شر کی حمایت کر رہے ہیں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''مولانا فتنے اور شر کی حمایت کر رہے ہیں‘‘ تاہم‘ ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے کے لیے مشاورت جاری ہے جس میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں کیونکہ ہم ہر کام مشاورت سے کرتے ہیں اور جو کام نہ کرنا ہو اس پر بھی مشاورت کیا کرتے ہیں بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مشاورت جاری رہنی چاہیے کیونکہ یہی وہ کام ہے جو ہم پوری رغبت کے ساتھ کیا کرتے ہیں اور اس میں ہمیں کوئی جلدی بھی نہیں ہوتی کیونکہ ہم انتظار کرتے ہیں کہ یہ لوگ جو کرنا چاہتے ہیں‘ کر لیں تا کہ اسی حساب سے اس کا جواب بھی دیا جا سکے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
جنوری میں وفاقی حکومت کو گھر بھیج دیں گے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جنوری میں نا اہل وفاقی حکومت کو گھر بھیج دیں گے‘‘ البتہ یہ ابھی نہیں بتا سکتے کہ یہ جنوری آنے والا ہو گا یا اگلے سال، یا اس سے بھی اگلے سال کیونکہ حکومت کو گھر بھیجنے کے علاوہ بھی ہمیں بہت سے کام رہتے ہیں، اگرچہ اب عدالتوں اور دیگر اداروں کی طرف سے ایسے کاموں پر کافی پابندی اور سختی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بہت سی تہمات کو یا تو منسوخ کرنا پڑتا یا مؤخر۔ اس لیے سرکاری اراضی اور دیگر املاک پر قبضے وغیرہ بھی نہیں ہو رہے اور نہ ہی کھل کر عوام کی خدمت کی جا رہی ہے، اور زندگی کا مزہ ہی کرکرا ہو کر رہ گیا ہے، کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہ دن بھی آنا ہیں۔ آپ اگلے روز گلگت بلتستان کے دورے کے دوران ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف کی تھپکی کے بغیر ایاز صادق بیان
نہیں دے سکتے: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی تھپکی کے بغیر ایاز صادق ایسا بیان نہیں دے سکتے‘‘ جس طرح وزراعظم کی تھپکی کے بغیر ہم میں سے کوئی بیان نہیں دے سکتا، کیونکہ سارے کام اپنے اپنے قائد کی منشا کے مطابق ہی کرنے چاہئیں اس لیے ایاز صادق کا بیان پارٹی اصولوں کے تو عین مطابق ہے کیونکہ پارٹیاں ایک ڈسپلن کے تحت ہی چلتی ہیں جس کی خلاف ورزی پر کسی کو پارٹی سے نکالا بھی جا سکتا ہے اس لیے اس انتہائی اقدام کی نوبت نہیں آنی چاہیے جبکہ قائد کی تھپکی کی بدولت ہی وزارتیں وغیرہ بھی ملتی ہیں اور اسی تھپکی کی وجہ سے قائم بھی رہتی ہیں چاہے عوام جتنا بھی شور مچاتے رہیں کیونکہ قائد‘ قائد ہوتا ہے اور عوام‘ عوام۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں انجم قریشی کی پنجابی نظم:
مست
نالے تیریاں اکھاں چ مینوں ست رنگیاں گڈیاں
اُڈدیاں دسدیاں نیں
اِک دوجے اندر دسنے آں تیریاں اکھاں وچ
متاں تے چیتے دوجے دے اِک
تے اِک دے دوجے ہو جاندے نیں
میرے کناں وچ پیندی تیری واج، جھال وانگر
میرے اندر ڈگ رہی اے
ایہہ سُفنا سچ ہو سکدا اے
کہ میں تیرے اندر لہہ جاواں
ایس لہن وچ کِنا سُکھ اے
میں ڈردی ساں تیرے لیے بوہا کھولن توں
پر ہُن میں سِکھ گئی آں
ڈردیاں موہ، چاہ نہیں ہوندے
آس، وساہ، نہیں ہوندے
چار چوفیرے جِنیاں کندھاں سن، ڈھہہ گئیاں نیں
نہ بوہے دسدے نہ باریاں
تے نہ ای مینوں دھرتی جاپدی اے
نہ اوس تے کھلے اپنے پیر
میں بس لہندی جا رہی آں تیرے اندر
ایہہ سفنا سچ ہو سکدا اے
جیویں ندی لہندی اے
جیویں اسماناں توں تارے
تیریاں اکھاں راہیں،
اوتھے لہہ رہی آں جتھے توں ایں
آج کا مقطع
کوئی پودا جدائیوں کا‘ ظفرؔ
پھولنے اور پھلنے والا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved