تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     02-11-2020

بھارتی رافیل اور قومی راز

انڈین ایئر فورس کے انتہائی سینئر اور تجربہ کار سمجھے جانے والے فائٹر پائلٹس 27 فروری 2019ء کو جب پاکستان کے شاہینوں کے ہاتھوں زمین بوس ہوئے تو بھارت نے جھوٹ کے بھجن گانا شروع کر دیے کہ ہمارے پائلٹس نے پاکستان کا ایک ایف سولہ فائٹر طیارہ مار گرایا ہے۔ ایف سولہ کے بجائے اگر بھارت نے کسی دوسرے طیارے کا نام لیا ہوتا تو شاید دنیا اتنی نہ چونکتی لیکن چونکہ امریکی ایف سولہ کا نام لیا جا رہا تھا‘ اس لئے ایف سولہ کا حوالہ آتے ہی دنیا بھر کے دفاعی ماہرین اور عسکری رپورٹرز کی ایک بھاری تعداد نے پاکستان اور بھارت کا رخ کر لیا، ان میں سے ایک مشہور رپورٹر ''کرسٹائن فیئر‘‘ ہیں جو جارج ٹائون یونیورسٹی میں سکیورٹی سٹڈیز کی پروفیسر ہیں اورجن کی ہمدردیاں ہمیشہ سے ہی بھارت کے کھاتے میں رہی ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھنے کے بعد چندی گڑھ میں فوجی لٹریچر فیسٹیول میں بھارتی میڈیا اور بہت سے سینئر اور ریٹائرڈ جرنیلوں کی گفتگو سننے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزراء کے دعوے اور فلسفے سننے کے بعد وہاں موجود انڈین ایئر فورس کے (سابق) چیف دھون سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگیں '' IAF story of the operation and aftermath is based on 'Dubious' claim‘‘۔ یعنی بھارتی فضائیہ کے آپریشن کی ساری کہانی مشکوک دعووں پر مبنی ہے۔
بھارتی ایئر فورس کی وہ شکست‘ جس نے دنیا بھر کے سامنے اس کی پیش کی گئی فوجی طاقت کا گھمنڈ پاش پاش کر کے رکھ دیا تھا اور ابھینندن کی پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتاری اور بعد ازاں لداخ میں چینی فوج کے ہاتھوں پے در پے شکستوں اور بار بار بھارتی علاقے میں چینی فوج کی پیش قدمی پر عالمی میڈیا کی طرف سے سامنے آنے والی خبروں اور مودی حکومت کی کار کر دگی اور فوج پر بھارتی عوام کے کھربوں ڈالر ضائع کرنے پر بھارت کی اپوزیشن نے سوالیہ نشان کھڑے کر دیے جس کے باعث اپنے ہی ملک کے اندر نریندر مودی کے ہمدردوں نے بھی ان کے خوب لتے لینا شروع کر دیے۔ بھارتی میڈیا‘ جس کے متعلق اب کسی کو بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ وہ علاقائی میڈیا اور مودی میڈیا کی حیثیت اختیار کر چکا ہے‘ نے چین کی ایک ہفتہ قبل لداخ میں مزید دس کلومیٹر کی پیش قدمی کی خبروں کا مکمل بلیک آئوٹ کیا۔ ایسے میں جب چین کی پیش قدمی کی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے بھارتی عوام اور فوج میں پھیلنا شروع ہوئیں تو عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان میں موجود اپنے مہروں کو آگے لانے کا پروگرام بنایا گیا۔ اور پھر‘ میری اطلاعات کے مطابق‘ میاں نواز شریف کے ایک ایسے ساتھی سے‘ جو ریاستی اداروں کے بارے میں اپنے لہجے کو دوسروں سے علیحدہ رکھے ہوئے تھے‘ پوچھا گیا ''ہمارے ساتھ ہو یا ان کے ساتھ؟‘‘ اگر ہمارے ساتھ ہو تو پھر یہ کہانی بیان کر دو تاکہ ہمیں یقین ہو جائے کہ تم ہمارے ساتھ ہو۔ اور پھر ماضی میں سپیکر قومی اسمبلی جیسے اہم عہدے پر فائز رہنے والے شخص نے دانستگی میں یا نا دانستگی میں یہ کہانی پھیلا دی کہ ستائیس فروری کو بھارتی فوج کے پاکستان پر حملے کی اطلاع پا کر ہمارے اربابِ اختیار اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ ان کی ٹانگیں کانپنے لگ گئیں‘‘۔ یہ کوئی معمولی وار نہیں تھا‘میرا اندازہ ہے کہ اس کے پیچھے ایک پوری سازش تھی اور یہ ایک سازش کا تسلسل تھا۔ اب سارے معاملات کو ذراغور سے دیکھنا ہو گا۔ ایک طرف یہ معاملہ ہے اور دوسری طرف میاں نواز شریف کوئٹہ میں اپوزیشن کے جلسے میں افسروں اور جوانوں کو منفی تحریک دے رہے ہیں۔اب اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ سینئر افسران کی جانب سے دیا گیا حکم قانونی ہے یا غیر قانونی؟ کسی بھی ملک کے اداروں بالخصوص سکیورٹی سے متعلق اداروں میں کمانڈر چاہے وہ ایک درجے ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ کے احکام اس کے جونیئرز کیلئے من و عن تسلیم کرنا ہی ڈسپلن اور فتح کی منزل ہوتی ہے۔ کیا نوا ز شریف صاحب یہ بتانا پسند کریں گے کہ اگر ان کی جماعت کے اندر سے کچھ لوگ اٹھ کر کہنا شروع کر دیں کہ ہم پارٹی قیادت کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہیں تو کیا ہو گا؟ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ایاز صادق سے یہ الفاظ کیوں کہلوائے گئے کہ ابھینندن کو رہا کرتے وقت ٹانگیں کانپ رہی تھیں کہ کہیں بھارت 9 بجے حملہ نہ کر دے۔ یہ کہتے ہوئے ریاستی اداروں پر حملہ آور گروہ نہ جانے نریندر مودی کا وہ رونا کیوں بھول جاتا ہے کہ جب اس نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بے بسی سے کہا تھا کہ کاش! ہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے‘ پھر ہم پاکستان کو مزہ چکھا دیتے۔ یہ الفاظ پاکستان سے بری، بحری اور فضائی فوج کی دوگنی تعداد اور طاقت رکھنے والے بھارت کے وزیراعظم نے اپنے عوام کے سامنے ادا کیے تھے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ تھرڈ کلاس کن ٹُٹا اپنے مقابل سے بری طرح مار کھانے اور مجمع کے سامنے بے عزت ہونے کے بعد اس طرح کی گفتگو کرتا ہے کہ اگر میرا بھائی ساتھ ہوتا یا میرے پاس فلاں ہتھیار ہوتا تو آج اسے مزہ چکھا دیتا۔ ابھینندن کے مِگ 21 طیارے سمیت جب بھارت کے دوطیارے اللہ کی نصرت اور پاکستانی ایئر فورس کی پیشہ ورانہ مہارت کے طفیل27 فروری کو زمین بوس ہوئے تو بھارتی عوام اور دنیا بھر کے سامنے نریندر مودی کی جو سبکی ہوئی‘ اس نے اسے منہ دکھانے کا قابل بھی نہ رہنے دیا کیونکہ بھارتی حکومت کی زبان اور بھارت کے فوجی سربراہان کی ہر تان سے ایک ہی فقرہ نکلتا تھا کہ ہم سبق سکھا دیں گے‘ ہم یہ کر دیں گے‘ ہم وہ کر دیں گے، بلکہ مودی حکومت تو یہاں تک بڑھکیں مارنے لگی تھی کہ بھارت بیک وقت پاکستان اور چین سے جنگ کرنے کی پوزیشن میں آ گیا ہے لیکن پلوامہ کے ڈرامے کے بعد جب نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کے نا م پر پاکستان سے پلوامہ کا بدلہ لینے کا کہہ کر پاکستان میں شب خون مارا گیا تو اس کا جواب 27 فروری 2019ء کو پاکستان نے دن کے اجالے میں دیا‘ اس کے جواب میں بھارت نے اپنے انتہائی سینئر اور تجربہ کار پائلٹس جن میں ونگ کمانڈر ابھینندن بھی شامل تھا‘ کو پاکستانی شاہینوں کے تعاقب میں بھیجا جو انڈیا کی فضائی حدود کراس کرتے ہوئے جب پاکستان میں پہنچا تو اللہ کے شیروں نے پلک جھپکتے میں دونوں انڈین فائٹر جیٹ طیاروں کا بھرکس نکال کر انہیں زمین بوس کر دیا۔ کچھ گروہوں نے ریاستی اداروں کو کمزور کرنے‘ رینکس کے اعتبار سے ان میں تفرقہ ڈالنے کی جو گھنائونی سازش شروع کر رکھی ہے‘ اسے انڈین اور اسرائیلی میڈیا دنیا بھر میں ہوا دے رہا ہے‘ جس کا مشاہدہ سوشل میڈیا پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
جب سے رافیل طیاروں کی تیسری کھیپ بھارت پہنچی ہے‘ نریندر مودی اور اس کی بزدل فوج نے پھر وہی شرلیاں داغنا شروع کر دی ہیں کہ اب دیکھنا ہم کیا کرتے ہیں، گویا اس سے پہلے بھارت کی ہم سے تین گنا زیادہ ایئر فورس صرف اڑن کھٹولے کے طور پر ہی استعمال ہوتی رہی ہے۔ رافیل ملنے کے بعد نریندر مودی اور اس کی فوج پاکستان پر حملے کے لیے بہت اتاولی ہو رہی تھی کہ نجانے کس نے ان کے کانوں میں ایک ایسی اطلاع انڈیل دی کہ مودی کا رنگ فق، ہونٹ خشک اور چہرہ پیلا پڑ گیا۔ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ پاکستان بھارت تک رافیل پہنچنے سے پہلے ہی ان کا توڑ کر چکا ہے۔ ہائی ٹیک ریڈار سسٹم جسے چین کیCETC (چائنا الیکٹرونکس ٹیکنالوجی گروپ کارپوریشن) نے JY-27A کے نام سے تیار کیا ہے‘ پاکستان ایئر فورس کی ایئر بیس پر نصب بھی کئے جا چکے ہیں۔ جب ایئر فورس اور دفاعی ماہرین نے نریندر مودی کو اس ریڈار کے متعلق مزید معلومات دیتے ہوئے اس کی چند اہم تفصیلات سے متعلق بتایا کہ یہ ریڈار بیلسٹک میزائلوں کی بھی پیشگی اطلاع دیتا ہے تو مودی کو اپنے اربوں ڈالر ڈوبتے ہوئے محسوس ہوئے۔
قومی سیاستدانوں نے آئین کے تحت قومی رازوں کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوا ہے لیکن اب ایک بار پھر کہا جا رہا ہے ''میرے پاس ابھی بہت سے قومی راز ہیں‘‘۔ جو لوگ دیگر اداروں کو اپنے حلف کی پاسداری کا درس دیتے ہیں‘ وہ پہلے خود تو مثال بن کر دکھائیں‘ پہلے اپنے حلف کی پاسداری تو کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved