تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     02-11-2020

اگر ٹرمپ ہارے تو…؟

''جدوجہد کا اضطراب فرار کے سکون سے بہتر ہوتا ہے‘‘، ایساماننا ہے امریکی صدارتی امیدوارجو بائیڈن کا، جبکہ ڈونلڈٹرمپ میں دوسری بار صدر بننے کی آرزو اندھے غم میں بدل رہی ہے جوا پنے سوا کسی کو دیکھنے اور برداشت کرنے پر قادر نہیں ہوتی۔ ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن امریکی صدارت کا بوجھ اپنے کندھوں پراٹھائیں گے یا ر یپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ؟یہ عقدہ کھلنے میں اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ ساری دنیا کی نظریں اس الیکشن پر ہیں، مسلم کمیونٹی کی اپنی خواہشات ہیں تو ہندو لابی کی اپنی ترجیحات۔ یورپ کے اپنے مفادات ہیں تو چین اور روس کے اپنے نظریات۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر صرف امریکا کا صدر نہیں ہوتا بلکہ اقوام عالم کی امیدیں بھی اس سے جڑی ہوتی ہیں۔ کوئی ملک امریکا کو دشمن کی نظر سے دیکھتا ہے تو کوئی دوست کی۔ کسی کے امریکا سے معاشی مفادات جڑے ہیں تو کسی کے دفاعی۔ کسی کا امریکا کے ساتھ نظریاتی اتحاد ہے تو کسی کا اصولی اختلاف۔ ایک نکتہ جس پر سب کا اتفاق ہے‘ یہ کہ امریکا کو نظرانداز کرکے چین سے جیا جا سکتا ہے نہ سکون سے مراجاسکتا ہے۔
سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکا اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ وہ معاشی، عسکری اور سفارتی طور پر اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکا جغرافیائی قید سے آزاد ہے اور ہر ملک پر اپنا اثرو رسوخ رکھتا ہے۔ ورلڈا کنامک فورم کے مطابق امریکا واحد ملک ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں زمینی، بحری یا فضائی جنگ کی منصوبہ بندی کرکے اسے کافی عرصہ تک لڑ سکتا ہے۔ یہ بات ورلڈ اکنامک فورم نے شاید اس لیے کہی کہ امریکا کے دنیا بھر میں 800 سے زائد فوجی اڈے ہیں اور وہ کسی بھی ملک کے ساتھ کسی بھی لمحے جنگ چھیڑ نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف اعداد و شمار کے گورکھ دھندے پر نظر دوڑائی جائے تو امریکا کا دفاعی بجٹ 732 ارب ڈالر ہے جو چین کے دفاعی بجٹ سے تین گنا اور روس اور انڈیا کے بجٹ سے دس گنا زیادہ ہے۔ معیشت کے میدان میں بھی امریکا کا پہلا نمبر ہے۔ اس کے جی ڈی پی کو دیکھیں تو دنیا کی کل پیداوار میں سے 24.42 فیصد حصہ امریکا کا ہے۔ چین کا دوسرا اور جاپان کا تیسرا نمبر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کو دنیا بھر میں الگ مقام حاصل ہے اور اس کے الیکشن کو کینیڈاسے آسٹریلیا اور روس سے افریقہ تک‘ ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
اس بار امریکا کا الیکشن تاریخ کا دلچسپ ترین الیکشن ہے۔ یہ مقابلہ اس وقت ہو رہا ہے جب پورا ملک وبا کی لپیٹ میں ہے اور عوام میں ٹرمپ حکومت کے خلاف غم وغصہ عروج پر ہے۔ یہ الیکشن پانچ مختلف ایشوز پرلڑا جارہاہے۔ معیشت، کورونا وائرس، ہیلتھ کیئرسسٹم، موسمیاتی تبدیلی اور نسلی امتیاز۔ دونوں صدارتی امیدوار کھل کر ان مسائل پر بات کررہے ہیں اور عوام کو بھانت بھانت کی امیدوں کے بندھن میں باندھ رہے ہیں۔ Pew Research Center کے عوامی سروے کے مطابق 74 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک معیشت امریکا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، 65فیصد ووٹرز نے ہیلتھ کیئر سسٹم کو نمبر ون ایشو قرار دیا ہے جبکہ 55فیصد کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس امریکا کی سب سے بڑی خرابی ہے۔
امریکی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین متفق ہیں کہ اگر امریکا کے شہریوں نے معیشت کو ترجیح بنا کر ووٹ دیا تو ٹرمپ کو جوبائیڈن پر فوقیت حاصل ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا کی معیشت بہت پھلی پھولی ہے۔ ٹرمپ نے دنیا بھرمیں امریکا کی جانب سے ہونے والے اخراجات کو کم کیا ہے۔ اب ٹرمپ چاہتے ہیں کہ نیٹو ممالک اپنے دفاعی اخراجات کا زیادہ حصہ خود برداشت کریں، ٹرمپ کی خواہش ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا کوکہیں کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف اپنا دفاع خودکریں۔ ٹرمپ افغانستان سے فوجیں نکالنے اورمشرقِ وسطیٰ میں امریکی مداخلت کو کم کرنے کے بھی خواہاں ہیں۔ یہ سارے ایشوز امریکی معیشت پر بوجھ ہیں جس کی قیمت امریکا کے شہریوں کو چکانا پڑتی ہے۔ اگر امریکا ان ''خود ساختہ‘‘ مسائل سے چھٹکارا حاصل کرلیتا ہے تو امریکی معیشت مزید تگڑی ہوجائے گی۔ اگر امریکیوں نے اوباما کیئر (انشورنس قانون) کی وجہ سے ٹیکسز کے بے جا اضافے کو اپنے ذہن میں رکھا تو بھی ٹرمپ کی جیت کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ٹرمپ نسلی امتیاز کے بہت بڑے حامی ہیں وہ سفید فاموں کو کالوں اور دوسری اقوام پر ترجیح دیتے ہیں۔ ٹرمپ کا ماننا ہے کہ امریکا پر سب سے زیادہ حق اصل امریکیوں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے ممالک سے آئے لوگوں کا اثرورسوخ ٹرمپ کو پریشان کرتا ہے۔ امریکا میں یہودی لابی سب سے طاقتور لابی ہے اور ڈونلڈٹرمپ نے اسرائیل کے لیے جو کچھ کیا ہے‘ یہودی چاہتے ہیں کہ اگلی باری پھر ٹرمپ کی ہو۔ اسرائیلی دارالحکومت کی تبدیلی اور عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سلسلے کا سار ا کریڈٹ وہ امریکی صدر کو دیتے ہیں۔ یہودی اس وقت ٹرمپ کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں اوروہ کسی صورت ٹرمپ کو ہارتے نہیں دیکھنا چاہتے، اسی لیے انہوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔
دوسری طرف‘ اگر امریکیوں نے بے روزگاری، کورونا وائرس، ہیلتھ کیئر سسٹم اور موسمیاتی تبدیلیوں پر ووٹ دیا تو جو بائیڈن کی جیت پکی ہو گی۔ کورونا وائرس کی وجہ سے امریکا میں کروڑوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ موڈیز کے مطابق ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن جلد بے روزگاری کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ امریکا میں اس وقت بے روزگاری کی شرح 7.9 فیصد ہے۔ اگر جو بائیڈن جیتے تو 2022ء تک بے روزگاری کی شرح چار فیصد تک آجائے گی اور سات ملین افراد کو روزگار ملے گا۔ کورونا وائرس کے باعث امریکا کے ہر شہر‘ ہر گلی میں موت کا رقص جاری ہے۔ 87لاکھ سے زائد کورونا مریض اور سو ا دو لاکھ سے زیادہ اموات کی ساری ذمہ داری ٹرمپ انتظامیہ کے سر آرہی ہے جس کی وجہ سے ٹرمپ کی حامی خاصے پریشان ہیں۔ ہیلتھ کیئر سسٹم اور موسمیاتی تبدیلیوں پر ٹرمپ کے بیانات نے بھی جوبائیڈن کو تقویت فراہم کی ہے۔
اب تک کے سروے یہی بتار ہے ہیں کہ جوبائیڈن کو ٹرمپ پر سبقت حاصل ہے مگر پھر خیا ل آتا ہے اس سے کیا فرق پڑے گا۔ 2016ء کے الیکشن میں ہیلری کلنٹن کی جیت کے امکانات زیادہ تھے اوروہ ٹرمپ سے تیس لاکھ زائد ووٹ لے کر بھی ہار گئی تھیں کیونکہ ان کے الیکٹورل ووٹ کم تھے۔ ٹرمپ پہلی بار کیسے جیتے؟ اس پر بہت سی آرا موجود ہیں۔ روس نے مدد کی یا یہودی لابی نے الیکشن چرایا؟ یہ سارے مفروضے ثابت نہیں ہوسکے مگر ایک با ت جو ثابت شدہ ہے وہ یہ کہ ٹرمپ نے ایک پروپیگنڈا کمپنی Cambridge Analytica کے ذریعے سوشل میڈیا پر دو سال تک جی بھر کر اپنے حق میں پروپیگنڈا کروایا تھا۔ یہ وہی کمپنی ہے جس نے بعدازاں بریگزٹ کے معاملے پر انگلینڈ کے مفادات کے لیے بھی پروپیگنڈا کیا۔ اس کمپنی کے سی ای او کاکہنا ہے ''انسان مانتا نہیں ہے مگر پروپیگنڈا کام کرتا ہے‘ وہ ذہنوں کو بدلتا ہے اور ٹرمپ کی جیت میں پروپیگنڈے کا پورا کردار تھا‘‘۔ اگر ا س بار بھی امریکا میں ایسا ہی کھیل کھیلا گیا تو بازی پلٹ سکتی ہے۔
امریکی ووٹروں نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے دنیا بھر کے جنگ زدہ لوگوں پر پیار کی چھاؤں کرنی ہے یا نفرت کی چادر دراز کرنی ہے۔ وہ شمع کے گر دطواف کرتے ہوئے جل کر مرنے والا پتنگا بننا پسند کریں گے یا تاریکی میں زندہ رہنے والا چھچھوندر؟ اس وقت ساری دنیا کی نظریں امریکیوں کے ذوق پر ہیں کہ انہیں تاریک راہوں سے عشق ہے یا وہ روشنی کے طلبگار ہیں؟ انہوں نے شکستہ دل روحوں کو تسکین دینی ہے یا غم زدہ آنکھوں کو اشکوں سے مزید دھندلا کرنا ہے؟ امریکا کے باسیوں کے فیصلے کے اثرات سارے براعظموں پر پَر پھیلائیں گے اس لیے امریکیوں کو چاہیے کہ وہ پیچھے مڑ کے مت دیکھیں کیونکہ ماضی راکھ کا ڈھیر ہوتا ہے‘ صرف آگے کی طرف نظریں جمائیں۔ مستقبل تاریک خلا کی مانند ہوتاہے اور اس تاریکی میں اجالا امریکا کے ووٹرز ہی کر سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved