ایک اور طوفانی نومبر شروع ہوچکاہے۔ وفاقی دارالحکومت میں ان دنوں حسب توقع افواہوں کے گہرے با دل چھائے ہوئے ہیں۔ ہر ایک دوسرے کو شکوک وشبہات کی نظر وںسے دیکھ رہا ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہورہا ہے؟کیا ہونے والا ہے اور کیا ہوسکتا ہے؟ تقسیم شدہ پی ڈی ایم کا شتر بے مہارکس کروٹ بیٹھے گا؟کیا سزایافتہ خاندان کو کوئی نکیل ڈال سکے گا یا پھر سسٹم گاڈفادر کے سامنے چاروں شانے چت ہو جائے گا؟ مطلع چونکہ ابرآلود ہی نہیں بلکہ سیاسی آلودگی بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اس لیے نتائج کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ نت نئی سازشی کہانیاں بھی سیاست کے بازار میں عام ہیں۔ کچھ کہانیاں خواہشات پر مبنی ہیں اور کچھ قیاس آرائیوں سے آراستہ۔ایسی کچھ کہانیوں کو پھیلانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ دیکھا جائے کہ مخالف فریق کے اعصابی حالات کیسے ہیں؟ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ سارے سیاسی زلزلے آخر نومبر میں ہی کیوں آتے ہیں؟
ملکی سیاست میں نومبر کب سے بھونچالی مہینہ بن چکا ہے؟یہ ایک اہم سوال ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اگست‘ ستمبر سے اُبال اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں اور نومبر میں اپوزیشن لاؤ لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے۔ جی ہاں! حالیہ ملکی سیاست میں یہ معاملہ نومبر 2007ء سے شروع ہوتا نظر آتا ہے جب فوج کی کمان تبدیل ہونا تھی۔ جنرل پرویزمشرف پر فوجی قیادت کا عہدہ چھوڑنے کے لیے کافی دباؤ ڈالا جارہا تھا ‘اپوزیشن میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو چیلنج کرسکے۔ جنرل مشرف نے جنرل کیانی کو اپنا نائب تو مقرر کردیا تھا لیکن خود کو وہ پاک فوج کی قیادت سے انتخابات 2007ء سے قبل الگ کرنے کاکوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے‘ کیونکہ پرویز مشرف کے حساب کتاب کی مطابق انتخابات کے نتیجے میں بھی( ق) لیگ اور ان کے اتحادیوں نے ہی کامیاب ہونا تھا۔ یہاں سے معاملات الجھنا شروع ہوئے اور پھر اس دوران عالمی کھلاڑیوں کی مدد سے پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف میں پاور شیئرنگ کا فارمولا طے پاگیا‘ جسے این آراو کا نام دیا گیا‘ جبکہ حقیقت میں اس این آراو کے پس پردہ انتخابات کے نتیجے میں اقتدار بے نظیر بھٹو کے حوالے کرنا مقصود تھا اور پرویزمشرف کو اقتدار سے الگ کر نا تھا۔پرویز مشرف کے ساتھ صلح کرنے پر پیپلز پارٹی کے اندر بہت زیادہ غصہ تھا اور عوامی سطح پر بھی این آر او کا دفاع پارٹی رہنماؤں کے لیے ناممکن ہوچکا تھا‘ لیکن یہ چونکہ سب کچھ پارٹی سے بالا بالا اور عالمی گارنٹرز کروارہے تھے اس لیے محترمہ کاحکم تھا کہ خاموشی اختیار کی جائے اور افتخار چوہدری صاحب کی تحریک کو زیادہ سے زیادہ ایندھن مہیا کیاجائے اور وکلا تحریک کو مدھم نہ ہونے دیاجائے۔ پارٹی کے ایک انتہائی معتمد نے بے محترمہ نظیر سے پوچھا کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ محترمہ کا جواب تھا کہ آپ دیکھتے جائیں میں پرویز مشرف کا حال اسحاق خان اور فاروق لغاری سے بھی بدتر کروں گی۔ دوسری جانب نواز شریف کو بھی ان کے گارنٹرز واپس بھیج چکے تھے اور جنرل پرویز مشرف کو وردی اتارنے پر مجبور کرنے کے لیے افتخار چوہدری کو کھڑا کیا گیا اور حالات ایسے بنا دیے گئے کہ جنرل پرویز مشرف نے کمان کی چھڑی 29 نومبر 2007ء کو جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سپرد کردی‘ جس کے بعد پرویز مشرف کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے اور ان کے بارے محترمہ کے الفاظ کو پھر صدر زرداری نے پورا کیا۔
جنرل کیانی کے تین سال نومبر 2010ء میں پورا ہونے تھے۔ ابال پھر اٹھنا شروع ہوگئے‘ لیکن اس سے پہلے کہ لاوا پکتا اور بحرانی کیفیت پیدا ہوتی‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جنرل کیانی کو ایک اور مدت کے لیے سپہ سالار مقرر کردیا اور اس کے لیے انہوں نے قوم سے خطاب بھی کیا۔جنرل کیانی کو توسیع دینے پر میں نے صدر زرداری کے ایک انتہائی معتمد سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس بات کو راز ہی رہنے دو‘ اگر یہ راز فاش ہوگیا تو زلزلہ آجائے گا۔ پھر 2013ء کے انتخابات ہوئے اور( ن) لیگ بیرونی فرمائش پر اپنی منشا کے مطابق سیٹیں لینے میں کامیاب ہوگئی۔ پھر یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ جنرل کیانی مزید تین برسوں کے لیے چیف آف ڈیفنس سٹاف بنائے جاسکتے ہیں۔
ابھی یہ کھچڑی پک ہی رہی تھی کہ اُبال پھر اٹھنا شروع ہوگئے ‘ پھر ہائبرڈ وار شروع ہوگئی اور جوابی خبریں آنا شروع ہوگئیں‘ لیکن میاں نواز شریف نے آخری دن اپنا کارڈ شو کیا اور جنرل راحیل شریف نئے آرمی چیف بن گئے۔ تین برس بعد ‘ 2016ء میں‘ پھر وہی ہوا۔اس بار احتجاج تو نہیں تھا‘ لیکن اقتدار کے ایوانوں اور راہداریوں میں پھر وہی کچھ ہوا اور ہائبرڈ وار پھر شروع ہوگئی۔ توسیع کی خبریں آنا شروع ہوگئیں‘ لیکن میاں نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف مقرر کردیا اور وہ اپنے انتخاب پر خوش اور مطمئن نظر آئے۔ نومبر 2019 ء سے بہت پہلے پھر کھچڑی پکنا شروع ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ ماحول گرمایا جاتا بحرانی کیفیت اور دباؤ سے بچنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے نومبر آنے سے بہت پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کی توسیع دے دی‘ لیکن بحران نے ٹلنے سے انکار کردیا اور عین آخری لمحوں میں ایسا بحران پیدا ہوا کہ جس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔سپریم کورٹ میں توسیع کا معاملہ چیلنج ہوا ‘ مگرخدا خدا کرکے صورتحال کو سنبھالا گیا۔
اب پھر نومبر شروع ہوچکا ہے اور وہی پرانا سکرپٹ ہے‘ لیکن اس بار سزا یافتہ خاندان کو میدان میں اتارا گیا ہے‘ جس کی اپنی کوئی سیاسی‘ قانونی اور اخلاقی حیثیت باقی نہیں ہے۔ اس خاندان اور اس کے پیچھے چھپے طاقتور عناصر کو بھی اندازہ ہے کہ جب تک سپہ سالار اور وزیر اعظم میں اتفاق و اتحاد ہے‘ ممکن نہیں کہ ان کی دال گل سکے۔ ایک بار پھر صورتحال نومبر 2007ء والی ہے۔ دباؤ صرف اور صرف اس لیے ہے کہ( ق) لیگ کی اصل قوت( جنرل مشرف) کی طرح پی ٹی آئی کی اصل قوت کو بھی پسپا کیا جائے۔ محترمہ بھی باہر بیٹھ کر این آر او لے رہی تھیں اور آج نواز شریف بھی لندن میں بیٹھے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں‘ لیکن صورتحال میں فرق ہے۔ ملک میں آج نہ تو آمرکی حکومت ہے اور نہ ہی پی سی او کے تحت عدالتیں کام کررہی ہیں۔اس کا نقصان نواز شریف کو ہورہا ہے اور آخری اطلاع تک اداروں میں مکمل اتحاد و اتفاق پایا جاتا ہے‘ لیکن نومبر کا آخری ہفتہ اور دسمبر کا پہلا ہفتہ بہت بھاری ہونے کا خدشہ موجود ہے‘ کیونکہ سب کچھ بلکہ چالیس برسوں کی سیاسی اور مالی جمع پونجی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ان حالات میں گلگت بلتستان کے انتخابات بہت اہم ہوچکے ہیں۔ اس سارے معاملے میں آصف علی زرداری کی سیاسی قوت اور فیصلے طاقت کے توازن کا فیصلہ کریں گے کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ موجودہ پارلیمانی اور جمہوری نظام کو تقویت دینے کی راہیں پانچویں صوبے گلگت بلتستان سے نمودار ہوسکتی ہیں‘ بشرطیکہ عمران خان کچھ دیر کے لیے ایک کایاں سیاستدان بن جائیں‘ کیونکہ کچھ وزن تو انہیں بھی اٹھانا پڑے گا۔