محمد عربیؐ کہ آبروئے ہر دو سرا است
کسی کہ خاک درش نیست خاک بر سر او
ترجمہ: محمدﷺ ہی دو جہانوں کی عزت و آبرو ہیں‘ جو آپﷺ کے قدموں کی خاک نہیں بنتا‘ اس کے سر میں خاک ہو۔
مسلمانوں کی رسول پاکﷺ سے جذباتی وابستگی کسی تعارف کی محتاج نہیں‘ یہ مسلمان کے ایمان کا جزو لازم ہے۔ آج نہ صرف مسلمان بلکہ پوری انسانیت رسولﷺ کی تعلیمات کی احسان مند ہے۔ آپؐ تمام انسانیت کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے ‘ اور آپؐ کی تعلیمات کا فیض صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ یہ پوری بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضورﷺ کی ذاتِ اقدس اخلاقِ حسنہ کا نمونۂ کامل ہے۔ قرآن پاک میں اللہ نے جا بجا مسلمانوں کو حکم دیا کہ میری اطاعت کرو اور اطاعت کرو میرے رسولؐ کی، اور یہ کہ جب نبیؐ تم لوگوں کو پکاریں تو رسول اللہ کے حکم کی طرف لپکو کیونکہ رسولؐ کی اطاعت ہر مسلمان کا فرضِ اولین ہے۔ مسلمانوں کے دل پیغمبر اسلامؐ کی محبت سے سرشار ہیں۔ جس نے ظلم و ستم کو مٹا کر امن کا پرچم لہرایا وہ اور کوئی نہیں بلکہ اللہ کے حبیب ہمارے پیارے رسول‘ محسن انسانیت، امام الابنیاء، بے کسوں کے والی سیدنا محمدﷺ ہیں۔ آپؐ نے سسکتی ہوئی انسانیت کو سکون فراہم کیا۔
درحقیقت اسلام کے خلاف زہر افشانی یورپ کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے۔ مسلمانوں کا شاندار ماضی ان کے تعصب زدہ دل و دماغ میں کچوکے لگاتا رہتا ہے اور وہ اپنا ذہنی خلفشار اسلام کے خلاف زہر افشانی کرکے دور کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن اس کارِ بدمیں یورپ انتہائی چالاکی سے کام لیتا رہا ہے۔
''اسلامو فوبیا‘‘دو لفظوں پر مشتمل ایک اصطلاح ہے جس کا پہلا لفظ اسلام‘ عربی ہے،اوردوسرا لفظ فوبیا یونانی ہے، فوبیا کی اصل فونوس ہے،جس کا مطلب خوف و دہشت ہے۔اس اعتبار سے اسلاموفوبیا کے معنی ہوئے اسلام سے وحشت،دہشت، خوف اور بیزاری۔ آج جو مسلم مقامات اور علامات پر حملے ہورہے ہیں‘اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر نفرت پھلائی جارہی ہے‘دانستہ توہین آمیز خاکوں کے مقابلے کرائے جارہے ہیں،مسلمان جن ممالک میں اقلیت میں ہیں‘ وہاں انہیں خاص طورپر منفی انداز سے پیش کیا جارہا ہے، ان کے خلاف نسلی تعصب کو ہوا دی جارہی ہے، مسلمانوں کو سفید فام پر بوجھ قرار دے کر عصبیت کو ابھارا جارہا ہے،اسلام کے نظامِ حجاب پر برملا تنقید کی جارہی ہے یہ سب اسلاموفوبیا کا حصہ ہے۔ غور کیا جائے تو مغرب میں اسلامو فوبیا اور اہانتِ رسول کی بنیادی وجہ اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور غیر مسلموں کا تیزی کے ساتھ اِسلام قبول کرناہے۔ بعض اندازوں کے مطابق 2030 ء تک دنیا میں اِسلام کے پیروکاروں کی تعداد عیسائیت کے پیروکاروں سے بڑھ جائے گی‘ ان شاء اللہ!مغربی دنیا اِسی لیے سراسیمگی اور خوف کا شکارہے کہ بہت جلد اِسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بننے والا ہے،یہی وجہ ہے کہ مستقل سازشوں کے تحت اِسلام کا حسین اور خوب صورت چہرہ مسخ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایسے میں ہمیں دنیا کے سامنے اِسلام کا حقیقی رخ پیش کرنا ہو گا، مذہبی سکالرز کو عصری تقاضوں کے مطابق اسلوبِ دعوت اختیار کرنا ہو گا اور غیر مسلموں کو اسلام کی آفاقی تعلیمات سے روشناس کرانا ہوگا، تب کہیں جا کر اسلامو فوبیا کا یہ طوفان تھم سکتا ہے۔
فرانس کہنے کو ایک لبرل اور سیکولر ریاست ہے جہاں مسلم عورتوں کے حجاب پر اس لئے پابندی عائد ہے کہ ا س سے مذہب کی نمائندگی ہوتی ہے مگر اسی سیکولر ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی کے تحت کسی بھی مذہب اور مذہبی شخصیات کا مذاق اڑانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ فرانس اور یورپ میں عیسائی مذہب یا ان کی مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کو اکثریت کی دل آزاری قرار دے کر قابل گرفت تصور کیا جاتا ہے مگر اقلیتوں کے جذبات کی کوئی قدر نہیں ہے اور جب بات رسولِ کائنات محمد مصطفیﷺ کی ذاتِ مقدسہ کی ہوتی ہے تو معاملہ کہیں زیادہ نازک ہو جاتا ہے۔
مسلم ممالک میں ملعون فرانسیسی صدر میکرون کے اسلام مخالف بیانات پر غم و غصہ کا سلسلہ جاری ہے۔ سراپا احتجاج مسلم برادری کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس موقع پر ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ بھی مملکتِ خداداد کو کمزور کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہے کیونکہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھ کر اس کے خلاف برسرپیکار ہے۔ مودی کے یار ٹرمپ کی ہرزہ سرائیاں بھی اسی طرح جاری ہیں‘ گزشتہ دنوں فرانس میں ہونے والے حملوں کے ردعمل میں انہوں نے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرکے مسلم دنیا پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کی بھونڈی کوشش کی۔
موجودہ حالات کے پیش نظر ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر بھی ملکی اور قومی مفادات کی روشنی میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بانیانِ پاکستان اقبال و قائداعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطے کے حصول کی جدوجہد اس خطے کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کیلئے کی تھی اور دو قومی نظریے کے تحت تشکیل پانے والے اس ملک کو محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیﷺ کی تعلیمات اور قران مجید کی شکل میں نازل کئے گئے احکام خداوندی کی روشنی میں ایک مثالی اسلامی‘ فلاحی اور جمہوری معاشرے کے قالب میں ڈھالنا ہی مقصود تھا۔ آئین پاکستان کی دفعہ 2 کے تحت دین اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے اور دفعہ 2 الف میں درج قراردادِ مقاصد کے ذریعے اس امر کا مستقل تعین کر دیا گیا ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون اور کوئی آئینی شق وضع نہیں ہو سکتی۔ ختم نبوت پر ایمان شریعت کا بنیادی تقاضا ہے۔ بلاشبہ غیرمسلم اقلیتوں کو آئین کے تحت تمام حقوق حاصل ہیں مگر خود کو مسلمان ظاہر کرکے کسی کذاب کو خدا کا نبی (نعوذ باللہ) تسلیم کرنے والوں کی مسلم معاشرے میں بطورِ مسلمان کبھی قبولیت نہیں ہو سکتی۔ آج اس فتنے کا دوبارہ سر اٹھانا ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ ہمیں بہرصورت اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنا ہے اور حرمت رسولﷺ پر کوئی آنچ نہ آنے دینا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ خدائے رب العزت ہمیں اپنے دینِ کامل پر کاربند رہنے اور اپنے پیارے نبی محمد مصطفی ﷺکی حرمت و تقدس پر کوئی بھی آنچ نہ آنے دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے رکھے، آمین!
آ ج اہل اسلام شدید مصائب و مشکلات سے دو چار ہیں، باہمی ناچاقیوں کی وجہ سے مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ افسوس جب مسلم امہ آپس میں انتشار کا شکار ہوئی تو پھر اس کا زوال بھی شروع ہو گیا۔ پھر کہیں غرناطہ، کہیں بغداد اور کہیں ڈھاکہ کے سقوط کا سانحہ پیش آیا تو کہیں کشمیری‘ فلسطینی اور روہنگیا مسلمانوں پر طاغوتی طاقتوں کے ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹنے لگے، اس وقت مسلم ممالک ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے نظر آتے ہیں۔ آپس میں خونریز جنگیں زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کر رہی ہیں۔ 57 مسلم ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم پر موجود تو ہیں مگر متحد نہیں، فرقہ واریت کی لعنت نے مسلم بھائی چارے کے آفاقی جذبے کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے اس انتشار اور دشمنی پر مبنی رویوں سے سامراج کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں آسانی مل رہی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلامو فوبیا کا وائرس مغربی معاشرے میں نہ صرف پھر سرگرم ہو چکا ہے بلکہ تیزی کے ساتھ پھیلتا بھی چلا جا رہا ہے۔ اب مزید وقت ضائع کیے بغیر ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، وگرنہ عالمی امن کو بچانے کی کوئی تدبیر کامیاب نہ ہو سکے گی۔