تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     03-11-2020

مہنگائی!

خبر ہے؛ پیاز، لہسن 1، ٹماٹر، مونگرے، گاجر، گھیا کدو 5، ادرک 10، سبز مرچ 12، آلو، توری، پالک2، کریلے 3 اور بھنڈی کی قیمت 6 روپے بڑھ گئی ہے۔ عام مارکیٹ میں سبزیاں105روپے کلو تک مہنگی فروخت ہو رہی ہیں، گراں فروشی پر 44 دکانداروں کے خلاف مقدمات درج، گرفتاریاں، ایک لاکھ سے زائد جرمانے۔
اگرچہ یہ خبر صرف لاہور کے حوالے سے ہے مگر راولپنڈی سمیت ملک بھر میں تقریباً ایسی ہی صورتحال ہے۔ پنجاب حکومت کی ہدایت پر لاہور اور راولپنڈی سمیت صوبے بھر میں سینکڑوں سستے ماڈل بازار فعال کر دیے گئے ہیں‘ جہاں لوگوں کو انتظامیہ کی جانب سے مقرر کردہ نرخوں پر سستے پھل اور سبزیاں دستیاب ہیں۔ ڈپٹی کمشنرز روزانہ سبزی منڈیوں کے دورے بھی کر رہے ہیں جبکہ سستے بازاروں پر چھاپے بھی مارے جا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر شہری کو ان سستے بازاروں تک بہ آسانی رسائی حاصل ہے؟ راولپنڈی شہر کا ہی جائزہ لیا جائے تو آبادی کے لحاظ سے ملک کے تیسرے بڑے شہر میں محض ایک درجن سستے بازار ہیں جو آبادی کے اعتبار سے قطعی ناکافی ہیں۔ ان ماڈل بازاروں میں عمومی طور پر غریب اور متوسط طبقہ ہی خریداری کرتا ہے جس نے روزانہ کے اعتبار سے ایک آدھ کلو گرام سبزی خریدنا ہوتی ہے، اس قلیل مقدار کیلئے ایک عام شخص دس‘ پندرہ کلومیٹر کا سفر طے کرکے سستے بازار نہیں جا سکتا، مجبوراً وہ گلی محلے کی دکان سے ہی روزمرہ کی سبزیاں اور پھل خریدتا ہے‘ جو اسے مہنگے داموں ملتے ہیں کیونکہ عام مارکیٹ میں روزانہ کی بنیاد پر ریٹ لسٹ آویزاں کرنے کارواج کم ہی پایا جاتا ہے۔ عام مارکیٹ میں پرائس چیکنگ کا نظام بھی زیادہ موثر نہیں ہے۔
عام طور پر جب بھی مہنگائی کا شور اٹھتاہے تو انتظامیہ پھل و سبزی فروشوں پر چھاپے مارنا شروع کر دیتی ہے جیسے ملک میں صرف پھل اور سبزیاں ہی مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں اور باقی ہر چیز تو جیسے مفت مل رہی ہے۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ گلی محلے کی چھوٹی دکانوں، ریڑھیوں اور چھابہ فروشوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں جن کی روزانہ آمدن چند سو یا ایک ڈیڑھ ہزار روپے تک ہوتی ہے، ان سبزی فروشوں کو گراں فروشی پر ہزاروں روپے جرمانے کر دیے جاتے ہیں، دکانیں سربمہر کر دی جاتی ہیں، مقدمات درج کر لئے جاتے ہیں اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جاتی ہیں، لیکن آج تک تھوک کے تاجروں پر کسی نے نہ تو جرمانہ کیا اور نہ ہی ان بڑے مگرمچھوں پر کوئی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جو چیزیں زیادہ ضروری ہیں‘ جیسے دودھ، گھی، آٹا، چینی وغیرہ ان پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے قوم کو خوش خبری سنائی کہ دو مہینوں میں مہنگائی کنٹرول ہو جائے گی۔ کاش کہ ایسا ہو جائے کیونکہ اب تو مہنگائی نے واقعی عوام کی چیخیں نکال دی ہیں اور حقیقی معنوں میں نوبت فاقہ کشی کی طرف جا رہی ہے۔ لوگوں کے ذرائع آمدن وہی ہیں‘ جو آج سے تین‘ چار سال قبل تھے جبکہ مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو چکاہے جس سے عام آدمی کی قوتِ خرید تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے مہنگائی کا نوٹس لئے جانے پر پنجاب حکومت نے عوام کوریلیف دینے کے لئے اُنہی سستے بازاروں کا سہارا لیا ہے جو گزشتہ دورِ حکومت سے چلے آ رہے ہیں۔ٹائیگر فورس بھی گرانفروشی اور ذخیرہ اندوزی کی نشاندہی کیلئے سرگرم عمل ہے لیکن اس کی کارروائیاں بھی چھوٹے تاجروں تک ہی محدود ہیں بلکہ ایسی بھی شکایات سننے میں آ رہی ہیں کہ ہول سیل ڈیلروں کو عام سٹاک پر بھی ذخیرہ اندوزی کے نام پر بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ 
دوسری جانب اصل مہنگائی یوٹیلیٹی بلوں کی ہے، بجلی کے نرخ آئے روز بڑھتے جا رہے ہیں، کبھی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی مہنگی کی جاتی ہے تو کبھی کسی دوسری مد میں نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں جبکہ الیکٹریسٹی بل میں بجلی کی قیمت سے زیادہ تو ٹیکس ہوتے ہیں۔ چند ہفتے قبل وزیراعظم صاحب نے قوم کو سستی بجلی فراہم کرنے کی خوشخبری دی تھی لیکن اس کے بعد بھی نرخ کم کرنے کے بجائے تین بار بجلی مہنگی کی جا چکی ہے۔ اسی طرح گیس کی قیمت میں بھی گزشتہ دو سالوں میں متعدد بار اضافہ کیا گیا ہے جو عام آدمی کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں نمایاں طور پر کم ہوئیں تو پاکستان میں ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی گئی جس سے قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ سکا۔ جب تک بجلی، گیس اور تیل کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی‘ اس وقت تک پھل اور سبزیاں توکیا، کوئی چیز بھی سستی نہیں ہو سکے گی کیونکہ تمام چھوٹی و بڑی صنعت و تجارت کا دار و مدار انہی پر ہے۔ 
گزشتہ دو سالوں میں چینی پچاس روپے فی کلوگرام سے بڑھتے بڑھتے ایک سو روپے سے زائد پر پہنچ چکی ہے‘ صرف چینی کی قیمت میں ایک سو چالیس فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے اور اب بھی اس میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ شوگر کمیشن سمیت کئی انکوائریاں ہوئیں، رپورٹیں منظر عام پر آئیں، بڑے بڑے دعوے کئے گئے لیکن آج تک کوئی مؤثر کارروائی نہیں ہو سکی بلکہ چینی کے شدید بحران میں جب بعض شوگر ملوں کی جانب سے ذخیرہ شدہ ہزاروں ٹن چینی یوٹیلیٹی سٹوروں کو فراہم کی گئی تو کسی نے بھی اسے ذخیری اندوزی قرار نہیں دیا اور ذخیرہ اندوزوں نے اربوں روپے کما لیے۔ اسی طرح ملک میں گندم کی وافر مقدار ہونے کے باوجود فی کلوگرام آٹے کی قیمت ستر سے اسی روپے تک جا پہنچی ہے۔ صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی تشہیر اور دعووں کے باوجود مقررہ نرخوں پر بیس کلوگرام آٹے کے تھیلے نایاب ہو چکے ہیں اور گلی محلوں میں آٹے کی مہنگے داموں فروخت جاری ہے۔ آٹا مہنگا ہونے کی وجہ سے نانبائیوں نے تنوروں پر روٹی اور نان کے نرخوں میں بھی ازخود اضافہ کر رکھا ہے جبکہ ان کا وزن بھی کم کر دیا گیا ہے۔ روٹی آٹھ روپے سے بڑھ کر دس روپے کر دی گئی ہے اور نان دس روپے کے بجائے پندرہ روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس طرف بھی کوئی توجہ نہیں دے رہا۔
یوٹیلیٹی سٹوروں پر دالوں کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں، اب اگر حکومت غریب آدمی کو یہ مشورہ دے کہ دال مہنگی ہونے کی صورت میں چکن کھانا شروع کر دیں تو یہ سنگین قسم کا مذاق ہو گا کیونکہ غریب کی خوراک تو دال‘ سبزی ہی ہے۔ پھر یوٹیلیٹی سٹوروں پر آٹے اور چینی کی فروخت بھی محدود ہے، ایک خریدار کو صرف ایک کلو چینی ہی فراہم کی جا رہی ہے، اب کوئی شخص صرف چینی کیلئے تو ہر دوسرے دن یوٹیلیٹی سٹور کا رخ نہیں کر سکتا لہٰذا ایک فرد کو کم از کم پانچ کلوگرام تک چینی تو ضرور ملنی چاہئے کیونکہ پانچ کلوچینی کا پیکٹ کوئی ذخیرہ اندوز نہیں بلکہ ایک عام صارف خریدتا ہے۔
صرف سبزی فروشوں پر چھاپے مارنے، جرمانے کرنے اور انہیں جیل بھیجنے سے مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور نہ ہی عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے کیونکہ اگر غریب آدمی ایک ہفتہ ٹماٹر نہ بھی خریدے توگزارا ہو سکتاہے لیکن گھر میں آٹا نہیں ہو گا تو اس کے بچے بھوکوں مریں گے۔ حکومت اگر مہنگائی کنٹرول کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو سستے بازاروں کی تعداد بڑھائی جائے اور ہر علاقے میں کم از کم ایک ماڈل بازار ضرور قائم کیا جائے اور وہاں تمام بنیادی اشیائے ضروریہ کی فراہمی بھی یقینی بنائی جائے، نیز پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز کی شرح کم کی جائے اور غیر ضروری ٹیکسوں کو ختم کر کے قیمتوں میں واضح کمی کی جائے کیونکہ ٹرانسپورٹیشن چارجز کم ہوں گے تو خود بخود قیمتوں میں کمی آئے گی۔ بجلی اورگیس کے نرخ بھی حتی الوسع کم کئے جانے چاہئیں تاکہ گھریلو صارفین کو ریلیف مل سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved