اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے پاکستان میں عددی اعتبار سے جامعا ت کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت صرف دو یونیورسٹیاں تھیں‘ تہتر برس میں جامعات اور ڈگری دینے والے اداروں کی تعداد بڑھ کر 216ہو گئی ہے ۔ان میں سے بہت سی یونیورسٹیوں کے کیمپس وسیع احاطہ ٔ اراضی پر قائم ہیں اور انہیں مادی سہولتیں بھی میسر ہیں۔ ان مادی مسائل کو ہم ان جامعات کا ہارڈویئر (Hardware) کہہ سکتے ہیں جس کی اپنی اہمیت ہے‘ لیکن ہارڈ ویئر کے ساتھ ساتھ سافٹ ویئر (Software) کا معیاری ہونا بھی اہم ہے۔ جامعات کا سافٹ ویئر اس کے اساتذہ اور اس کے تعلیمی پروگرامز ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں کوئی بھی یونیورسٹی محض اپنے کیمپس یا سہولتوں کی وجہ سے نہیں جانی جاتی بلکہ اس کا تعلیمی معیار ہی اس کی وجہ ٔ شہرت بنتا ہے ۔اس کے فیکلٹی ممبرز کا معیار، علمی حلقوں میں ان کی پہچان اور وہاں کے فارغ التحصیل طلباء کا امیج یونیورسٹی کا تعارف بنتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی معیاری جامعات مسلسل اپنے سافٹ ویئر کو بہتربنانے کے عمل میں مصروف رہتی ہیں۔
جامعات کا اوّلین مقصد علم کی تخلیق (Creation of Knowledge) ہے ۔ ایک یونیورسٹی اور سکول میں بنیادی فرق یہی ہے کہ سکول میں علم تقسیم کرنے پر زور دیا جاتا ہے جبکہ جامعات سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تمام توانائیاں علم کی تخلیق اور ترویج پر صرف کریں۔ علم کی تخلیق کا سب سے بڑا ذریعہ تحقیق ہے یوں یونیورسٹیوں میں تحقیق کے کلچر کے فروغ کی ضرورت ہے تاکہ اساتذہ اور طلباء علم کی تخلیق کے عمل میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اس تحقیق کے نتائج کو دوسروں تک پہنچانا بھی ریسرچرز کا اہم فریضہ ہے ۔ اس کیلئے ریسرچ کانفرنسز یا ریسرچ جرنلز کے ذریعے تحقیق کے نتائج وسیع پیمانے پر دوسروں تک پہنچتے ہیں۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ یونیورسٹی کے استاد کا کام محض تدریس نہیں بلکہ اس کے ساتھ اسے تحقیق کے عمل میں شریک ہونا چاہیے ۔اب وہ دور گُزر گیاہے جب تحقیق تو کوئی اور کرتا تھااور استاد محض اس کی سفارشات پر عمل کرتے تھے۔یوں استاد کا کردار محض ایک صارف (Consumer) کا تھا جو خود نہیں سوچتا او ر محض فراہم کردہ معلومات کا استعمال کرتا ہے ۔تحقیق کی اہمیت مسلمہ ہے مگر لگ بھگ دو دہائیاں پیشتر تحقیق اور تحقیقی جرائد میں ریسرچ پیپرز کی اشاعت کی ایک بے سمت آندھی چلی جب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ایک طرف یونیورسٹیوں کو پی ایچ ڈی کی بے ہنگم دوڑ پہ لگا دیا دوسری طرف ریسرچ پیپرز کی تعداد میں مصنوعی عددی اضافے کو معیارِ تعلیم کا آخری ہدف بنا دیا اور یونیورسٹی میں تقرری ،اعلیٰ سطح پر ترقی، ایوارڈز کے حصول کے لیے ریسرچ پیپرز لکھنا اور شائع کرنا لازمی قرار پایا ۔ جس طرح کسی بھی چیز کے جبری اور غیر فطری اضافے سے مسائل جنم لیتے ہیں ریسرچ اور ریسرچ پیپرز کے حوالے سے بھی یہی ہوا۔ میں جب یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو میرے اساتذہ میں مائیکل فُلن (Michal Fullan) بھی شامل تھے۔ وہ Educational Change میں اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے اس کی متعدد کتابیں عالمی درسگاہوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان کے مطابق تبدیلی ایک سست رو عمل ہے جوبتدریج افراد اور اداروں میں سرایت کرتا ہے لہٰذاکسی بھی تبدیلی کے عمل میں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ راتوں رات آجائے گی۔فُلن کا کہنا تھا کہ تبدیلی ایک Incremental پراسیس ہے جب بھی تبدیلی کو ٹھونسا جاتا ہے توکبھی اس کے بامعنی اور دیر پا نتائج برآمد نہیں ہوتے۔لوگ ایسی تبدیلی پر مجبوری سے تو عمل کرتے ہیں لیکن دل سے اس کے قائل نہیں ہوتے۔پاکستان میں یک لخت ریسرچ پیپرز کی جبری دوڑ سے ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی۔ اساتذہ کا کہنا تھا کہ ان کا ٹیچنگ لوڈ اتنا ہے کہ انھیں ریسرچ کا وقت ہی نہیں ملتا۔ ریسرچ کے لیے وسائل کی کمی کے باعث بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایچ ای سی کے دباؤ کے پیشِ نظر جامعات نے تحقیق کے ساتھ ساتھ بہت سی مراعات جوڑ دیں۔ یوں غیر معیاری تحقیق اور ریسرچ پیپرز کا دروازہ کھل گیا جن کا مقصد نئے علم کی تخلیق نہیں بلکہ ان شرائط کو پورا کرنا تھا جو ان پر ایچ ای سی کی طرف سے نافذ کی گئی تھیں۔ ہمارے ہاں اکثر تحقیق کا سفر پی ایچ ڈی سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتا ہے۔پی ایچ ڈی کے بعد الاؤنس شروع ہو جاتا ہے۔اسی تھیسز سے کچھ ریسرچ پیپرز نکال کر شائع کرائے جاتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری تحقیق کے سفر کا اختتام نہیں آغاز ہونا چاہیے۔
ریسرچ پیپرز کی اندھا دھند دوڑ میں شامل رہنے کے لیے نت نئے طریقے شروع ہو گئے ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی پیپر میں تھوڑی بہت تبدیلیاں کر کے مختلف رسالوں میں شائع کرایا جاتا ہے۔ایک ہی پیپرکو مختلف عنوانات سے لکھ کر ان کا الگ الگ کریڈٹ لیا جاتا ہے۔اکثر اساتذہ اپنے شاگردوں کی تحقیق پر مبنی ریسرچ تھیسز میں اپنا نام لکھ کر اس میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔دوسری طرف بعض اوقات شعبوں کے سربراہان کی خوشنودی کے لیے جونیئر فیکلٹی ممبر ان کا نام بھی ریسرچ پیپرلکھنے والوں میں شامل کر لیتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک اچھی تحقیق اور اس کے حوالے سے لکھا گیا ریسرچ پیپر کسی مسئلے یا سوال کی بہتر تفہیم ،تشریح اور جائزہ میں مدد دیتا ہے۔یوں ایک سنجیدہ تعلیمی تحقیق علم کی تخلیق بھی کرتی ہے اور معاشرے کے مسائل کا حل بھی پیش کرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک معاشرے کی تشکیل اور تعمیر میں معیاری اور متعلقہ تحقیق کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔پاکستانی جامعات میں کچھ تحقیق یقینا معیاری درجے کی ہے۔لیکن تحقیق کا ایک حصہ ان غیر معیاری تحقیقی پیپرز پر مشتمل ہے جن کا نہ تو معاشرے کے دھڑکتے مسائل سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ان میں کوئی Academic Rigour ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کے لیے تو یہ ریسرچ پیپرز لکھنا ایک فارمولا ہے جس پر دسترس سے ریسرچ پیپر لکھنا بائیں ہاتھ کا کھیل بن جاتا ہے۔یہ تحقیق محض ریسرچ پیپرز کی تعداد میں اضافے کا سبب بنتی ہے ورنہ اس طرح کی تحقیق کا علم میں اضافے اور معاشرے میں بہتری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بہت سے تحقیقی مقالوں میں پہلے سے کی گئی تحقیق کو دہرایا جاتا ہے اور یوں علم کے پہلے سے موجود ذخیرے میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔نتیجے کے طور پر یہ نام نہاد تحقیق مقالے اور ریسرچ پیپرز وقت کی دھول میں چھپ جاتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کے لکھنے والوں کی شعوری کوشش ہوتی ہے کہ ان کا مقالہ یا ریسرچ پیپردوسروں کی نظر سے اوجھل رہے تو بہتر ہے۔
تحقیق کی یہ ناگفتہ بہ صورتحال ہماری فوری توجہ کی مستحق ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ جامعات میں تحقیق کی ایک واضح پالیسی ہو اور اس پر عمل درآمد کا شفاف نظام موجود ہو۔ جامعات ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے لیے مناسب فنڈز مختص کریں ۔ فیکلٹی ممبرز کو تحقیق کے لیے وقت اور سہولتیں میسر ہوں۔ان سہولتوں میں بنیادی سہولت بیٹھنے اور کام کرنے کی مناسب جگہ ہے۔تحقیق کو اساتذہ کے ورک لوڈ کا حصہ بنایاجائے ۔اساتذہ کو کانفرنسز میں پیپرز پڑھنے کی سہولتیں مہیا کی جائیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم نکتے کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ تحقیق کے ساتھ وابستہ مراعات بعض اوقات اتنی پُر کشش ہیں کہ اساتذہ نے تدریس سے زیادہ تحقیق کی طرف رُخ کر لیا ہے جس کا منفی اثر کلاس روم میں تدریس کے معیار پر پڑا ہے۔ ایچ ای سی اورجامعات میں پالیسی سازوں کو تحقیق اور تدریس میں ایک توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔اس لیے کہ تحقیق اور تدریس ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث ہیں۔