' 'یہ دیکھئے یہ وہ تختی ہے جو بّرصغیر پاک و ہند میں پائی جانے والی قدیم ترین تحریر وں میں سے ہے۔انتہائی نادر اور انتہائی اہم۔اس کو حاصل کرنے والا عجائب گھر اس کی موجودگی پر اتراتا ہے اور دور دور سے ماہرین آثار ِقدیمہ اس کو محض ایک نظر دیکھنے آتے ہیں۔یہ چھوٹی سی تختی بہت بڑی ہے۔اس کا کاتب کون ہوگا معلوم نہیں لیکن یقیناً وہ اپنے زمانے کا بہت بڑا عالم رہا ہوگا کہ اس وقت آواز کو نقوش میں تبدیل کرنے کا علم کسی کسی کے پاس تھا۔ہم آپ خوش قسمت ہیں کہ اس لوح کو دیکھنے والوں میں ہیں ‘ ‘ ۔
میرے مہمان نے مجھے ایک اکتاہٹ بھری مسکراہٹ سے نوازااور ہاتھ کے ایک اشارے سے اس گیلری سے باہر چلنے کا اشارہ کیا۔اس کی عدم دلچسپی اور لا تعلقی سے آگاہ ہونے کے لیے کسی خاص علم کی ضرورت نہیں تھی۔' ' سنیے یہاں کہیں زنگر برگر مل جائے گا؟ ‘ ‘ اس نے بے تابی سے پوچھا۔''کیوں نہیں۔ہمارے ہاں ساڑھے پانچ ہزار سال پرانا زنگر برگر ملتا ہے۔وادیٔ سندھ کے قدیم باشندوں کی اصل خوراک یہی تو تھی ‘ ‘ میں نے ٹھنڈے لہجے میں اسے جواب دیا۔
غلطی میری ہی تھی۔وہ لاہور دیکھنے آیا تھا اور میرے اصرار پر عجائب گھر بھی چلا آیا تھا۔میں آدابِ میزبانی کا شکار تھا اور وہ آداب مہمانی کا اسیر۔سو‘ دو قیدی ایک ہی بندھن میں بندھ گئے تھے ۔لیکن سچ یہ ہے کہ اس کا بھی قصور نہیں ۔یہ بات صرف اس کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ہر ایک شخص تاریخ سے شغف نہیں رکھتا اور ہر ایک کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے کے لوگ کن جتنوں سے کیا لکھتے تھے۔میں ایسے ہر موقع پر بد مزہ ہونے کے بعد یہ ایک بار پھر عہد کرتا ہوں کہ کسی بھی عجائب گھر میں کسی کے ساتھ نہیں آؤں گا لیکن مقدر پر کس کو اختیار ہے۔ ہر بار عہد شکنی ہوجاتی ہے‘اور ہر بار بدمزہ ہونا پڑتا ہے ۔خیر چھوڑئیے ان باتوں کو ۔ ایسا کرتے ہیں کہ ان مہمانوں کو برگر کے حوالے کرتے ہیں۔ آپ اگر یہ ذوق رکھتے ہیں تو میرے ساتھ آئیے۔یہ نوادر ٹھیک سے دیکھتے ہیں۔اپنی تاریخ سے ملاقات دراصل اپنے مستقبل سے آگاہی ہے۔
لاہور‘پشاورـ‘ہڑپہ اور موہنجودڑو کے عجائب گھروں سمیت کئی عجائب گھروں میں وہ تحریریں محفوظ ہیں جو وادیٔ سندھ کی تہذیب کی یادگار ہیں۔مٹی کی تختیاں اور چاک پر بنائے ہوئے برتن وہ نقوش اور خطوط محفوظ کرکے ہم تک پہنچا چکے ہیں جو اس زمانے کی تحریریں تھیں۔یہ تو صرف برّصغیر کی ایک قدیم تہذیب ہے۔دنیا بھر کے نوادر خانوں میں سیاحوں کے ہجوم ان مکتوبہ الفاظ کے چشم دید گواہ بننے آتے ہیں جو کہیں گِلی الواح پر‘کہیں تانبے اور لوہے کی پلیٹوں پر ‘کہیں پتھروں اور خشتی سلوں پر‘کہیں ہرن کی کھال پر‘کہیں دیگر جانوروں کے چمڑے پر ‘کہیں پائپرس پر ثبت ہیں اور جریدۂ عالم پر اپنے دوام کا بولتا ثبوت ہیں۔غاروں ‘چٹانوں‘ تباہ شدہ شہروں‘اجڑے محلوں اور متروک بستیوں میں تحریریں اس کے علاوہ ہیں۔انسان جانے کتنے ہزار سال کتنی نسلوں اور کتنے جتنوں کے بعد اس درجے پر پہنچا تھا کہ ان آوازوں کو تحریر کی شکل دے سکے۔یہ تحریر جو ہم اب سمجھ ہی نہیں سکتے اور وہ چمڑے کے ٹکڑے جو کتاب کی ابتدائی شکل ہیں۔کہیں غلافی شکل میں‘کہیں تصویری زبان میں اور کہیں آڑے ترچھے نقوش کی صورتوں میں وہ ا بتدائی کتابیں ہیں جن تک پہنچ جانا اس وقت کی انسانی ترقی کی معراج تھی۔ چمڑے اور کھالیں ان تحریروں کی امین اور رکھوالی تھیں اور لکھنے کا علم خال خال لوگوں کے پاس تھا‘پھر پائپرس نامی درخت کی چھال نمودار ہوئی۔مصر میں بحر ِ احمر کے کنارے وادیٔ الجرف سے ملنے والے پائپرس پر لکھے ہوئے کاغذات کم و بیش2550سال قبل از مسیح کے ہیں۔ پائپرس کے رول کتاب کی پہلی اور ابتدائی شکل تھی اور یہ اس وقت تک مروج رہی جب تک عرب مسلمانوں نے مصر میں کاغذ بنانے کا آغاز نہیں کیا۔یہ وہ مسلمان تھے جنہوں نے یہ فن چینیوں سے سیکھا تھا۔
یہ 1946ء کی بات ہے جب محمد الذئب نامی گڈریا بحیرہ ٔ مردار کے پاس قمران نامی بستی کے قریب نزدیکی پہاڑیو ں میں اپنی بکری کا تعاقب کرتے ہوئے ایک غار میں گھسا جہاں اس نے مٹی کے بیشمار مرتبان دیکھے۔ان مرتبانوں میں پائپرس کے طومار تھے جو تمام تر مذہبی تحریروں پر مشتمل تھے ۔وہ چند کاغذات جو وہ گڈریا اس غار سے اٹھا لایا تھا'وہ اس نے سات برطانوی پونڈز کے عوض برطانوی مستشرقین کے ہاتھ فروخت کردئیے اور اس طرح علمی دنیا اس لائبریری سے پہلی بار آگاہ ہوئی۔بعد ازاں قمران کے بارہ مختلف غاروں سے یہ تمام لائبریری نکالی گئی اور اسے بحیرۂ مردار کے طومار (ڈیڈ سی سکرولز ) کا نام دیا گیا ۔پائپرس کے یہ رول تیسری صدی قبل از مسیح سے پہلی صدی بعد از مسیح تک کی کتابوں اور کاغذات پر مشتمل تھے۔مختلف طرح کی 981کتابوں اور کاغذات پر مشتمل یہ لائبریری زیادہ تر عبرانی زبان میں‘ چند ایک کتب آرامی زبان میں اور اکا دکا یونانی زبان میں لکھی کتابوں پر مشتمل تھی۔یہ کتاب کی اور کتب خانے کی وہ شکل تھی جو تیسری صدی قبل مسیح میں علمی دنیا تک پہنچی تھی اور جس تک انسان سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال کی جدو جہد کے بعد رسا ہوا تھا۔
کاغذ کی ایجاد سے کتاب کے زرّیں دور کا آغاز ہوا۔تحریر ترقی کرتی گئی اور کتابت کے فن کا آغاز ہوا جسے مسلمانوں نے بامِ عروج تک پہنچا دیا۔مخطوطات کا دور شروع ہوا ور پوری دنیا سے آگے بڑھ کر مسلمانوں نے خاص طور پر کتاب کی بے پناہ خدمت کی۔کاغذ‘خطاطی‘ نقش و نگار ‘ جلد بندی غرضیکہ مخطوطہ کتاب کا ہر ہر پہلو اِن کی توجہ سے اعلیٰ مقام تک پہنچا اور ایک زمانے نے اس کتاب سے فیض اٹھایا۔اس دور میں کسی شخص کے پاس کتب خانہ نہ ہونا اس کے افلاس کی نشانی تھی۔یہ کتاب اور کتب خانوں کی اگلی نسل تھی۔ پھر وقت نے ایک طویل جست بھری اور کتاب کی اگلی نسل ظہور پذیر ہوئی۔1450کے لگ بھگ یعنی آج سے تقریباً پانچ سو ستر سال پہلے پہلی مطبوعہ کتاب شائع ہوئی۔جرمنی کے شہر مینز میں جوہانیز گوٹن برگ نے پہلی کتاب چھاپ کر ایک انقلاب برپا کردیا اور کتاب کو وسیع اور تیز رفتار دنیا سے آشنا کرایا۔مخطوطات نے مطبوعات سے ہاتھ ملایا۔دنیا کے ہر حصے میں کتابیں سینکڑوں‘ہزاروں اور پھر لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونا شروع ہوئیں۔یہ کتاب کے دورِ زریں کا آغاز تھا۔ہم سے پہلی نسل اور ہماری نسل شاید وہ خوش نصیب نسلیں ہیں جنہوں نے کاغذی کتاب کا بہترین زمانہ پایا۔ لفظ اب لتھو گرافی سے آفسٹ پرنٹنگ پر منتقل ہوچکے تھے۔ اعلیٰ ریشمی کاغذ‘ برّاق صفحات‘سیاہ چمکدار حروف اور حسین سر ورق۔کتاب دلہن بن گئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔کتاب نے تاریخ میں پہلی بار خود کو مکمل رنگین لباس میں دیکھا۔کتاب خوبصورتی کے ہر تصور کے مطابق ملنے لگی۔شرق و غرب کی تمام زبانیں اور تمام علوم و فنون کتاب کے محتاج تھے اور کتاب دور دور اپنا کوئی مد مقابل اور ثانی نہیں رکھتی تھی۔
لیکن ذرا ٹھہریے عجائب گھر کی سیر تو کرچکے اور کتاب کی مختلف نسلوں سے ملاقات بھی ہولی۔وہ جو میرے دل میں ایک سوال اپنے پر کھولے منڈلا رہا ہے‘ کیا آپ کے دل میں بھی ہے؟ایسا سوال جس سے آنکھیں ملانے کو جی نہیں چاہتا مگر آنکھیں چرائی بھی نہیں جاسکتیں‘ یہ کہ کتاب کی اگلی نسل کیا ہے ؟ کیا برقی کتاب کاغذی کتاب کو پچھاڑ دے گی ؟ کیا کاغذ کتاب کیلئے پیدا ہونا اور استعمال ہونا بند ہوجائے گا۔ کیا کتاب خواں اور کتابچی کاغذ کے لمس اور خوشبو سے محروم ہوجائیں گے ؟ کیا اگلی انسانی نسلیں کاغذی کتاب کو عجائب گھروں میں دیکھ کر حیران ہوا کریں گی؟
بارا لٰہا ! کیا واقعی یہ ہونے والا ہے ؟کیا یہ کاغذی کشتی آب ِرواں پر ٹھہرنے والی نہیں؟
کاغذ کی یہ مہک‘ یہ نشہ روٹھنے کو ہے؟
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی؟