تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     04-11-2020

گم شدہ منشور

پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ویژن کا فقدان اور خیالات کی آمدن نہ ہو تو الفاظ کی فضول خرچی سے گریز کرنا چاہئے۔ حضرت لقمان نے بھی اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا ''میں جب پچھتایا اپنے بولنے پر پچھتایا‘‘ نجانے کون سا آسیب ہے جو حکمرانوں کو اپنے قول و فعل میں تضادات کا احساس ہی نہیں ہونے دیتا۔ قو ل و فعل میں تضاد تو اپنی جگہ‘ کنفیوژن اور منتشر خیالی کے نتیجے میں اپنے کسی حالیہ بیان کی نفی کرکے نیا بیانیہ جاری کرتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ اور سبکی محسوس نہیں کرتے۔ گزشتہ عام انتخابات سے پہلے عمران خان صاحب کا ایک بیان جو نہ صرف اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنا بلکہ عوام کو بھی ایک دل فریب خواب دکھلا گیا‘ کچھ یوں تھا ''الیکشن جیت کر مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنائیں گیا‘‘ اسی طرح برسر اقتدار آنے کے بعد 23 اپریل 2019 کو وزیر اعظم کے بیان پر مبنی ایک قومی روزنامہ کی شہ سرخی کچھ یوں تھی ''نئے پاکستان کو ایران جیسے انقلاب کی تلاش‘‘ اور اب صرف تین روز قبل وزیر اعظم صاحب کا ایک اور بیان شہ سرخی بن کر کچھ یوں شائع ہوا ہے کہ ''چین جیسا نظام لانا چاہتا ہوں‘‘ گویا ریاست مدینہ کے ماڈل کی بھرپور مقبولیت اور کامیابی کے بعد انقلاب ایران سے ہوتے ہوئے اب تان چینی ماڈل پر آن ٹوٹی ہے۔
سوا دو سالہ عرصۂ اقتدار میں سماجی انصاف سے لے کر، آئین و قانون کی حکمرانی تک‘ معاشی انقلاب سے اقتصادی اصلاحات تک‘ میرٹ اور گورننس سے لے کر قول و فعل میں مطابقت تک‘ سبھی معاملات میں ناکامی ہی مقدر ٹھہری۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دور حاضر کے‘ کرموں جلے عوام نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ کیسے کیسے حکمران ان کے نصیب میں لکھے گئے‘ جو اپنی اپنی باریاں لگا کر چلتے بنے۔ سرکاری وسائل اور ریاستی اداروں پر غول در غول حملہ آور ہوئے، انہیں ملیامیٹ کیا، وسائل کو بھنبھوڑا اور کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ کرکے کنبہ پروری کے ساتھ ساتھ اقربا پروری کو بھی خوب رواج دیا۔ انصاف سرکار پر بھی جب وقت عمل آیا تو سماج سے لے کر ریاست تک‘ نہ تو انصاف کا دور دورہ ہوا اور نہ ہی گورننس پروان چڑھی، میرٹ کا بول بالا تو درکنار اس کا حشر نشر بھی ناقابل بیان ہے۔ ان حکمرانوں کو بھی ماضی کی طرح بداعمال پالیسی ساز اور بوئے سلطانی کے مارے سہولت کار میسر آ گئے۔
وطنِ عزیز کو سب سے زیادہ نقصان حکمرانوں اور ان کے سر چڑھے اور ''عالی دماغ‘‘ وارداتی افسران نے پہنچایا ہے۔ سیاسی دبائو اثرورسوخ، دھاندلی اور سہولت کاری کے نتیجے میں انتہائی اہم محکموں میں چن چن کر نااہل، خوشامدی، احساس ذمہ داری سے عاری اور ''بوئے سلطانی‘‘ کے نشے میں دھت افسران کو کلیدی عہدوں پر فائز جاتا رہا۔ ایک نااہل خوشامدی اور ذاتی ایجنڈے پر عمل پیرا سربراہ سے توقع ہی عبث کہ وہ مفاد عامہ پر پالیسی بنائے‘ قانون اور ضابطے پروموٹ کرے۔ ایسے سربراہ بھلا کسی ادارے کو چلانے کا بار کیسے اٹھا سکتے ہیں؟ حکمرانوں کے اہلیت اور میرٹ کے برعکس کیے جانے والے فیصلوں کا خمیازہ ہمیشہ عوام نے بھگتا ہے۔
احتساب صرف مالی بدعنوانی اور بے ضابطگی کا ہی نہیں بلکہ نااہلی کا بھی ہونا چاہیے۔ نااہلوں سے یہ پوچھا جانا کیا عین منطقی نہیں کہ جس کام کی تکمیل سے غیر معمولی پیکیج، مراعات، فائیو سٹار دورے، ضیافتیں، سیر سپاٹے، طویل دورانیے کی میٹنگز مشروط تھیں‘ جب وہ نہیں ہو سکا تو یہ سب کچھ کس کھاتے میں؟ ان سے یہ پوچھا جانا بھی لاجیکل ہے کہ کلیدی عہدوں پر غول در غول حملہ آور ہونا‘ انہیں ملیامیٹ کرکے آگے بڑھنا اور نئی گھات لگانا کون سی قومی خدمت ہے؟ 
''لٹنا اور مٹنا‘‘ کیا صرف عوام ہی کا نصیب ہے؟ ان کاریگر اور سہولت کار حکام کا صرف ایک ہی مشن ہے ''عوام کی مت مار دو‘‘ اور ''خواص کا ضمیر مار دو‘‘۔ اس کے بعد دروغ گوئی اور فرضی اعدادوشمار کے ساتھ کارکردگی اور گورننس کا ایسا ''ڈھول پیٹو‘‘ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ سابقہ ادوار کا موجودہ دور حکومت سے موازنہ کریں تو سبھی ایک دوسرے کا ریکارڈ توڑتے نظر آتے ہیں۔ کوئے اقتدار کے اس حمام میں منتخب نمائندے ہوں یا سرکاری بابو‘ کوئی سیر ہے تو کوئی سوا سیر۔ نہ عوام کسی کا مسئلہ ہیں اور نہ ہی عوام کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار۔ انصاف سرکار نے برسراقتدار آنے کے بعد کرپشن پر سزائے موت کا قانون بنانے کا جھنڈا تو ضرور اٹھایا لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ جھنڈا نجانے کہاں رہ گیا‘ البتہ اس جھنڈ ے کا ڈنڈا ہاتھ میں یوں لیے پھرتے ہیں جیسے عقل کے پیچھے لٹھ۔
ملک کے سیاسی منظر نامے پر جب بھی ایک نظر ڈالوں تو مجھے سنسکرت کی تین ضدیں بے اختیار یاد آ جاتی ہیں ''بال ہٹ (بچے کی ضد)، تریا ہٹ (عورت کی ضد) اور راج ہٹ (حکمران کی ضد)‘‘ ہمارے ہاں سیاست میں یہ سبھی ضدیں کثرت سے مشاہدے میں آتی ہیں۔ اکثر فیصلہ ساز اور اربابِ اختیار بچے کی طرح ضد لگا بیٹھتے ہیں جس پر سننے اور دیکھنے والا بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے ''یہ کیا بچوں والی ضد ہے‘‘ گویا اس ضد کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے اور اقدامات طفلانہ حرکت سے کم نہیں ہوتے۔ عورت کی ضد کے بے شمار واقعات اور مناظر ہماری ریاست و سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست ہو یا ریاست‘ عورت کا کردار بہرحال کلیدی اور بعض اوقات فیصلہ کن بھی نظر آتا ہے۔ ماضی سے لے کر دورِ حاضر تک‘ خواب سے تعبیر تک‘ خیال سے تکمیل تک‘ ذاتی خواہشات سے من مانی اور بغاوت تک‘ رائے اور مشورے سے دوٹوک فیصلوں تک ''تریا ہٹ‘‘ کے بے شمار واقعات کوئے سیاست سے ایوانِ اقتدار تک عورت کی اہمیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ رہی بات ''راج ہٹ‘‘ کی‘ اس کا تو کوئی ''اَنت‘‘ ہی نہیں ہے۔ یہ سارے کام ہر دور میں ہوتے رہے ہیں۔
کنفیوژن کا عالم یہ ہے کہ دو سال سے زائد عرصہ بیت چکا لیکن یہ تعین تاحال نہیں ہوسکا ہے کہ نئے پاکستان میں کون سا ماڈل اور کیسا طرز حکمرانی ہو گا۔ ریاست مدینہ کا ماڈل لے کر برسر اقتدار آنے والے بات کرتے ہیں چین کی تو کبھی ایران کی۔ انصاف سرکار میں ذاتی رفقاء اور معاونین کی بہتات ہے۔ جن کی اہلیت نامعلوم اور کارکردگی معمہ ہے۔ اسی طرح انقلاب کی بات کرنے والوں کے ریکارڈ کی درستی کے لیے بتاتا چلوں کہ عوام سے بدعہدی اور بے وفائی کے مرتکب حکمرانوں کے انجام سے کون واقف نہیں‘ نا موافق اور غیر مقبول فیصلوں کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ رہی بات چین جیسے نظام کی تو یہ ضرور معلوم کرلینا چاہئے کہ چین میں نہ تو احتساب کو مطلوب کوئی Near & Dear ایوان اقتدار میں پناہ گزین ہے اور نہ ہی کابینہ احتساب سے بچنے کے لئے محفوظ پناہ گاہ ہے۔ 
اور ہاں اشیائے خورونوش سے لے کر ادویات تک کسی چیز میں ملاوٹ کا تصور بھی ممکن نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ چینی حکمرانوں کے احکامات 100 فیصد خالص ہوتے ہیں‘ ملاوٹ یا بناوٹ میں لتھڑے ہوئے ہرگز نہیں ہوتے۔ اطلاق تو درکنار‘ ان ماڈلز کی پرچھائی بھی پڑ جائے تو بخدا کرموں جلے عوام کی نہ صرف سیاہ بختی دور ہو سکتی ہے بلکہ ان کے دن بھی یقینا پھر سکتے ہیں۔ اگر یہ سب ممکن نہیں تو خدارا وطن عزیز کو کسی کا استعارہ بنانے میں مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے اسے کم از کم پاکستان تو رہنے دیں۔ تحریک انصاف کے قیام کے اوائل دنوں میں برادرم حسن نثار کی تخلیق اور فخریہ منشور بھی یاد کرواتا چلوں جسے تحریک انصاف نے بڑی کوشش اور جدوجہد کے بعد خود ہی کہیں گم کردیا ہے۔ حکم اللہ کا‘ قانون قرآن کا‘ اور رستہ رسولﷺ کا۔ انصاف سرکاراپنا چوبیس سال پرانا یہ سلوگن کہیں سے بازیاب کر لائے تو شاید کسی بیرونی ماڈل کی ضروری ہی پیش نہ آئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved