ہمارا منشور کسی کے اشارے پر نہیں بنا: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ہمارا منشور کسی کے اشارے پر نہیں بنا‘‘ بلکہ خود بخود ہی بن گیا ہے، اسی لیے اس کے کچھ نکات ہماری سمجھ میں بھی نہیں آتے، مثلاً روٹی، کپڑا اور مکان، کیونکہ غریب عوام کو یہ چیزیں مہیا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور اگر یہ ساری چیزیں انہیں ہم نے ہی مہیا کرنی ہیں تو وہ خود کس مرض کی دوا ہیں، بلکہ ایسی امید دلانا ہی انہیں سست الوجود اور بیکار بنانے کیلئے کافی ہے۔ انہیں اپنے پائوں پر خود کھڑا ہونا چاہیے جیسا کہ ہم اپنی ضروریات کی چیزیں حاصل کرنے کے لیے خود جدوجہد کر رہے ہیں اور پوری کامیابی ہمیں بھی حاصل نہیں ہو رہی۔آپ اگلے روز غذر میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
معلوم نہیں کیوں وزارت سے ہٹایا گیا: فیاض چوہان
پنجاب کے صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''معلوم نہیں کیوں اطلاعات کی وزارت سے ہٹایا گیا‘‘ حالانکہ جو خدمات میں سر انجام دے رہا تھا وہ کسی کے بس کی بات ہی نہیں تھی اور ساری اپوزیشن اس کی گواہ ہے ، البتہ وزارت سے ہٹنے کے بعد بھی میں وہی کام کرتا رہوں گا کیونکہ اس کی عادت پڑ چکی ہے اور ایسا کیے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ اور‘ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ میں ہاضمے کے لیے پھکیاں تلاش کرتا پھروں، اور پھر پھکی بھی خالص اب کہاں دستیاب ہوتی ہیں جبکہ ناقص پھکیوں سے معدے کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ بھی ہے جبکہ اپوزیشن کے لیے آج کا بیان میں الگ سے دے رہا ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت گرانے نہیں ‘ گرتی حکومت
کو گھر بھیجنے آئے ہیں: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''حکومت گرانے نہیں، گرتی حکومت کو گھر بھیجنے آئے ہیں‘‘ کیونکہ حکومت کو جلسوں سے گرانا کوئی آسان کام نہیں ہے‘ ورنہ اب تک اسے گرا چکے ہوتے، البتہ گرتی ہوئی حکومت کو گھر بھیجنا نسبتاً آسان معلوم ہوتا ہے، اگرچہ گرنے کے بعد حکومت خود ہی گھر چلی جاتی ہے اور اسے بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑتی جیسا کہ حکومت ختم ہونے کے بعد بڑے آرام آرام سے چل کر ہم گھر چلے گئے تھے حالانکہ اُس وقت تک ہم اس قدر نحیف و نزار ہو چکے تھے کہ اپنے آپ گھر جانے کے بھی قابل نہیں تھے لیکن بقول شخصے ہمت کرے انسان تو کیا نہیں ہو سکتا اور سب نے دیکھا کہ ہم گرتے پڑتے گھر پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے تھے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن جس شاخ پر بیٹھی ہے اُسی کو کاٹ رہی ہے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن جس شاخ پر بیٹھی ہے اُسی کو کاٹ رہی ہے‘‘ حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ اس شاخ کو کاٹنے سے در گزر کرتی اور اگر اس شاخ کو کاٹنا ضروری تھا تو پہلے کسی اور شاخ پر بیٹھ جاتی اور اس کے بعد بڑے آرام سے مذکورہ شاخ کو کاٹ لیتی کیونکہ اگر شاخ کٹ جائے تو اتنی جلدی دوسری شاخ پر جا کر بیٹھنا اتنا آسان نہیں ہوتا؛ اگرچہ اس کی تو کلہاڑی بھی ٹھیک نہیں ہے اور اسے وہ اپنے پائوں پر مار رہی ہے، اس لیے مطلوبہ مقصد حاصل کرنے کے لیے کسی آری وغیرہ کا بندوبست کرنا پڑے گا کیونکہ اس طرح قیمتی وقت بھی ضائع نہ ہوگا اور یہ نیک مقصد بھی حاصل ہو سکے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایم پی اے اظہر عباس چانڈیاسے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت نے ملک کو اندھے کنویں میں دھکیل دیا : سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت نے ملک کو اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے‘‘ اور یہ بیچارہ اِدھر اُدھر دھکے کھاتا پھرتا ہے اور خود اس کنویں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کرے حالانکہ ملک میں اندھے کنوئوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، معلوم نہیں حکومت نے یہ اندھا کنواں کہاں سے دریافت کیا ہے، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کسی اچھے بھلے کنویں کو حکومت نے خود اندھا کیا ہے حالانکہ اس قدر تردد کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور کسی عام کنویں میں پھینک کر بھی اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے۔ اس لیے اسے چاہیے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے خاکسار سے مشورہ کر لیا کرے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں مولانا سمیع الحق کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ایاز صادق کا معاملہ پس منظر میں نہیں جائے گا: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے ''ایاز صادق کا معاملہ پس منظر میں نہیں جائے گا‘‘ بلکہ پیش منظر ہی میں رہے گا بشرطیکہ اپوزیشن اسے پس منظر میں لے جانے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ آج کل ہر غلط کام اپوزیشن ہی انجام دے رہی ہے حالانکہ اپنے حصے کے ایسے کام ہم خود ہی کر رہے ہیں جو کہ فرض شناسی کا تقاضا بھی ہے، اس لیے اپوزیشن کو چاہیے کہ اس میں دخل نہ دے اور اسے اس کشٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ یہ معاملہ اگر پیش منظر میں بھی رہتا ہے تو اس سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں پی بی اے کے نو منتخب عہدیداروں کو مبارکبادی پیغام بھیج ر ہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں فیصل ہاشمی کی یہ نظم:
تم کیا جانو
کسے خبر ہے‘ آنے والے اگلے پَل کی
زندگیوں میں کیا ہونا ہے
جھوٹی سچّی دُنیا کے بہروپ میں
غٹ پٹ تقدیروں کی
ہانپتی یکسوئی کے اندر
کیسی کیسی پسپائی کے تھکے
جہانوں کی وسعت ہے!
لیکن کتنے وثوق سے وہ مجھ سے کہتا ہے
تم کیا جانو... تم نے یہ دیکھا ہی کب ہے!
کتنے افق ہیں، جن کی حقیقت صرف خیال میں
آنے تک کی اِک دُوری ہے!
اور اس بے تسخیر مسافت کے
مواج سمندر کے سینے میں
کیسے کیسے طوفانوں کے
گہرے، کڑے مسائل ہیں
جن کے گردابوں سے اُبھر کر
کتنے زمانے، اپنے اپنے وقت میں آ کر
چکراتے ہیں، کھو جاتے ہیں!
کون سی قدروں کی میزانیں
باقی رہ جاتی ہیں،
دل میں کسی کی یاد پھسل کر
آنکھوں کی دہلیز سے آ ٹکراتی ہے
کون سی راحت
کون سے دُکھ آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں!
تم کیا جانو... تم نے یہ سب
اور اِس جیسی دھیان میں آنے والی
ساری بے مصرف سی باتیں، سوچی کب ہیں!!
آج کا مطلع
ماحول ہے کچھ اور‘ فضا اور ہی کچھ ہے
یک طرفہ محبت کا مزا اور ہی کچھ ہے