تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     04-11-2020

تہذیبوں کا تصادم روکنا ہوگا!

آسٹریا کا شمار دنیا کے پُرامن اور امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ تقریباً 84 ہزار مربع کلومیٹر رقبے اور 86 لاکھ آبادی پر مشتمل یہ ملک یورپ کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ 1971ء میں مسلمان اِس ملک کی آبادی کا صرف 0.3 فیصد تھے لیکن آج یہاں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 5 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ہمیں تو ابھی تک یہاں جانے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن کہتے ہیں کہ یورپ کے اکثر ممالک کے مقابلے میں یہاں مذہبی منافرت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک دوسرے کے جذبات کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے‘ اِس کی بابت ایک واقعہ اللہ بخشے ہمارے ایک دوست محمد حفیظ نے سنایا تھا۔ کافی عرصہ پہلے محمد حفیظ بھی دوسرے بے شمار پاکستانیوں کی طرح غیر قانونی طریقے سے آسٹریا پہنچا اور پھر وہاں جا کر سیاسی پناہ کی درخواست دے دی۔ غلط طریقے سے وہاں پہنچنے کے باوجود اُسے وہاں پر نہ صرف درخواست کا فیصلہ ہونے تک پناہ دی گئی بلکہ ملازمت کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔
اِس سے آگے کی تفصیل محمد حفیظ کی زبانی: ''آسٹریا پہنچنے کے کچھ عرصے کے بعد مجھے گھر کی یاد ستانے لگی، اِسی اُداسی میں ایک روز میں اپنے فلیٹ کے سامنے پارک میں جا بیٹھا، وہاں جو درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھیں موندیں تو نجانے کب پاکستان پہنچ گیا، مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے پاکستان میں اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا ہوں۔ اِسی کیفیت میں اچانک پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ سے میری آنکھ کھل گئی، دیکھا تو ایک خاتون پارک میں موجود پرندوں کو دانہ ڈال رہی تھی، اُس خاتون نے جب یہ دیکھا کہ اُس کے پرندوں کو دانے ڈالنے کے باعث میں ڈسٹرب ہوا ہوں تو وہ میرے پاس آئی اور کئی بار معذرت کی، پھر اپنا واک مین مجھے دے کر کہنے لگی کہ آپ میوزک سنیں‘ تب تک میں پرندوں کو دانہ ڈال لوں۔ میں واک مین لگا کر دوباہ آنکھیں بند کر کے درخت سے ٹیک لگا لی اور پاکستان کی یادیں تازہ کرنے لگا، کچھ دیر بعد جب میں نے دیکھا تو وہ خاتون جا چکی تھی۔ کیوں؟ اُس نے یہ گوارا نہیں کیا کہ اب وہ اپنے واک مین کے لیے کسی کے آرام میں مخل ہو‘‘۔ محمد حفیظ نے یہ واقعہ کئی بار ہمیں سنایا، جسے سن کر ہر بار اپنے رویوں پر کچھ شرم سی محسوس ہوئی۔ 
اِس طرح کا طرزِ عمل رکھنے والوں کے ملک میں اب خدشہ پیدا ہو چلا ہے کہ فرانس کی طرح یہاں بھی مسلمانوں کے لیے مشکل وقت شروع ہونے والا ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو لیکن آسٹریا کے دارالحکومت میں پیش آنے والے فائرنگ کے حالیہ واقعے کے بعد یہ خدشات پوری طرح سے پیدا ہو چکے ہیں۔ اِس واقعہ میں تین شہری ہلاک اور ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، پولیس کی جوابی کارروائی میں حملہ آور بھی مارا گیا۔ خدشات کے عین مطابق پولیس حکام کی طرف سے قرار دیا گیا کہ ہلاک ہونے والا مسلم تھا۔اِس بات کو یہیں روکتے ہیں اور پہلے دیکھتے ہیں کہ اِس پر فرانس کی طرف سے کیا رد عمل آیا۔ فرانس نے کہا کہ یورپ کو اِس طرح کے حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ بلاشبہ اِس واقعہ سے فرانسیسی صدر کو کمک میسر آئی ہے۔ وہی فرانسیسی صدر‘ جس کے حکم پر فرانس میں گستاخانہ خاکے سرکاری سطح پر دکھانے کا اہتمام کیا گیا۔ یہ شاید پہلا موقع ہے جب فرانس میں گستاخانہ خاکے سرکاری سرپرستی میں دکھائے گئے۔ سب جانتے ہیں کہ مسلمان کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں لیکن نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی کسی بھی صورت قابل برداشت نہیں ہو سکتی۔ اِس کے باوجود فرانس میں سرکاری سطح پر پیدا کردہ صورتحال مسلمانوں کے غصے میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ بلاشبہ یہ حالات دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی دل آزاری کا باعث بن رہے ہیں لیکن فرانسیسی صدر اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حکومت کی اپنی مجبوریاں ہو سکتی ہیں لیکن یہ امر قابل حیرت ہے کہ کھلے دل کے مالک فرانسیسی بھی اِس معاملے میں تنگ نظر دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر آج کے فرانس کی بات کی جائے تو یہاں اِس وقت تقریباً 60 لاکھ مسلمان بس رہے ہیں۔ یہ مسلمان دنیا بھر سے یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ اِن مسلمانوں کے ساتھ کبھی کبھار نسلی تعصب برتے جانے کی شکایات تو سامنے آتی رہی ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ وہاں پُرامن زندگی گزارتے رہے ہیں۔ اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں بھی اُنہیں کبھی کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اب رواداری اور برداشت کی یہ باتیں کافی حد تک پس پردہ چلی گئی ہیں۔ صورتحال بگڑتے بگڑتے اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ بہت سے مسلمان فرانس چھوڑنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اسلام‘ فرانس کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے اور مغربی یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد فرانس میں ہی بستی ہے۔ یہاں مسلمانوں کے لیے جس طرح کے بھی حالات تھے‘ اکتوبر میں پیش آنے والے واقعات نے سب کچھ یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ گویا چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال تسلسل سے آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ اِن واقعات کے بعد سے فرانس میں انتہا پسندی، اسلام اور مسلمانوں کے فرانسیسی معاشرے میں انضمام کے بارے میں سوالات اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں جن کا حتمی نتیجہ کیا نکل سکتا ہے‘ یہ سمجھنا زیادہ دشوار نہیں ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ چاہے کتنی بھی بڑی قربانی کیوں نہ دینا پڑے‘ مسلمان اپنے نبی کریمﷺ کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اِس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے ہم ہمیشہ تیار رہتے ہیں اور ان شاء اللہ تیار رہیں گے۔ اپنے معاشروں کو افراتفری سے بچانے کے لیے مغربی ممالک کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔ اُنہیں ایسے افراد کو روکنا ہوگا جو حضور اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہو کر ہمارے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ ابھی تک فرانس میں 1905ء میں متعارف کرائے جانے والے 'ستے‘ کے قانون پر عمل کیا جا رہا ہے جس کے مطابق ریاست کو مذہب سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا تھا۔ اب اِس قانون پر بھی سوالات اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس قانون میں تبدیلی کی جاتی ہے تو پھر فرانس میں بسنے والی اقلیتوں‘ خصوصاً مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہی صورتحال اب آسٹریا میں پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہو چلے ہیں‘ جہاں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حکومت سے سخت اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔آسٹریا کے دارالحکومت میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعہ کے بعد حکام نے ایک پریس کانفرنس کے دوران واضح طور پر یہ کہا کہ مرنے والا شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا رکن تھا جس کے فلیٹ سے قابل اعتراض مواد بھی برآمد ہوا ہے۔ حکام کے اِس بیان سے ہی اندازہ لگا لیجئے کہ آنے والے دنوں کے دوران اِس ملک میں بسنے والے غیر ملکیوں کو کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ او آئی سی سمیت اُمت ِمسلمہ کے اہم ادارے اپنا فعال کردار ادا کریں۔ مغربی ممالک کو آگاہ کیا جائے کہ مسلمانوں کے نزدیک نبی پاکﷺ کی حرمت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے ورنہ پھر تہذیبوں کے مابین تصادم کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں رہے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved