تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-11-2020

انتقالِ علم و فن

پروفیسر ٹامس ڈیلانگ 1997ء سے ہارورڈ بزنس سکول میں ایم بی ایز اور ایگزیکٹوز کو پڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے ہارورڈ سمیت دنیا بھر میں کم و بیش 20 ہزار ایم بی ایز اور ایگزیکٹوز کو بہتر کاروباری نظم و نسق کی تعلیم دی ہے۔ انسانی سرمائے کی تشکیل و تہذیب، بہتر کاروباری نظم و نسق اور قائدانہ صلاحیت کو پروان چڑھانے کا عمل اُن کا دائرۂ تعلیم و تدریس ہے۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ معلم قائد ہوتا ہے اور قائد معلم۔ تعلیم و تدریس اور قیادت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں، دونوں ہی معاملات میں جنون شرطِ اول ہے۔ حقیقی مفہوم میں سیکھنے والوں کو سکھائے بغیر چین نہیں آتا اور کوئی کچھ سیکھ لے مگر سکھانے کی خواہش محسوس نہ کرے تو سمجھ لیا جائے کہ اُس کے سیکھنے میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔ کسی نے سیکھا ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کسی نے سکھایا ہے۔ انسان اپنے طور پر کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ دوسروں کی عشروں بلکہ صدیوں کی محنت کا نچوڑ ہمارے سامنے ہو تو ہم کچھ سیکھ پاتے ہیں۔ اگر شخصی سطح پر علم حاصل نہ بھی کیا جائے تو کتب کی شکل میں دوسروں کی دانش بھی ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے۔
پروفیسر ٹامس ڈیلانگ کہتے ہیں کہ سیکھنے کا عمل انسان کو سکھانے کی تحریک بھی دیتا ہے۔ سکھانے کی مشق سیکھے ہوئے کو مزید پختہ کرتی ہے۔ جو لوگ دوسروں کو سکھانے پر مائل رہتے ہیں اُن کے علم کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرتا جاتا ہے۔ سکھانے کے معاملے میں جنون لازم ہے۔ معلم میں وہی بے تابی ہونی چاہیے جو فطری علوم و فنون کے ماہرین میں پائی جاتی ہے۔ فطری علوم کے ماہر کو جب کوئی بڑی بات سُوجھتی ہے تو وہ اُسے دوسروں تک پہنچائے بغیر قرار نہیں پاتا۔ یونانی ریاضی دان ارشمیدس (Archimedes) اُس وقت ٹب میں نہا رہا تھا جب اُسے سمندر میں جہازوں کے نہ ڈوبنے اور تیرتے رہنے کا اُصول سُوجھا۔ اُس پر ایسی سرخوشی سوار ہوئی کہ یہ بات دنیا کو بتانے کی شدید بے تابی کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ باتھ ٹب سے برہنہ حالت ہی میں ''یوریکا، یوریکا‘‘ (مل گیا، مل گیا) چلّاتا ہوا نکل بھاگا! سکھانے کے معاملے میں معلم کے اندر بھی ایسا ہی جنون ہونا چاہیے۔ جب سکھانے والے میں ایسا جنون ہوگا تو کلاس روس میں موجود ہر طالبعلم محض اُس کے سامنے بیٹھا نہیں ہوگا بلکہ ذہنی طور پر حاضر بھی ہوگا۔ پروفیسر ٹامس ڈیلانگ کہتے ہیں کہ قائدانہ صلاحیت کو کماحقہٗ پروان چڑھانے کے لیے لازم ہے کہ انسان سیکھنے اور سکھانے کے معاملے میں جنونی کیفیت کا حامل ہو۔ قیادت کا وصف پروان چڑھانے کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے۔ عمیق مطالعہ ہی انسان کو تمام متعلقہ معاملات کے سمجھنے کی اہلیت پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ہارورڈ پریس نے حال ہی میں پروفیسر ٹامس ڈیلانگ کی کتاب ''ٹیچنگ بائی ہارٹ : ون پروفیسرز جرنی ٹو انسپائر‘‘ شائع کی ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر ٹامس ڈیلانگ نے زندگی بھر کا تجربہ نچوڑ دیا ہے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں فاضل مصنف کا کہنا ہے کہ ٹیچنگ دراصل لیڈنگ ہے۔ پڑھانے والے قائدین ہوتے ہیں، وہ نئی نسل کو کامیابی اور استحکامِ فکر و نظر کی راہ دکھاتے ہیں۔ جب تک وہ اپنے آپ کو قائدین کے مقام پر نہیں دیکھتے تب تک وہ حقیقی جذبہ پیدا نہیں ہو پاتا جو تعلیم و تدریس کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے اُسی وقت ترقی کر پاتے ہیں جب کسی بھی شعبے میں غیر معمولی مہارت کے حامل افراد اپنا علم و فن دوسروں تک پہنچانے کی لگن محسوس کرتے ہیں۔ یہ معاملہ ذاتی سطح پر تحریک و تحرّک کا ہے۔ پروفیسر ٹامس ڈیلانگ کا تعلق کاروبار کے لیے موزوں افرادی قوت تیار کرنے کے شعبے سے ہے اس لیے وہ سیکھنے کی منزل سے کامیابی کے ساتھ گزرنے پر سکھانے کے عمل کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ کاروباری دنیا میں منیجر کا اہم مقام ہے۔ یہی وہ شخص ہے جو کاروباری سرگرمیوں پر کسی نہ کسی طور تصرّف پاکر انہیں ادارے کے لیے مفید بناتا ہے۔ منیجر ہی افرادی قوت کو بطریقِ احسن بروئے کار لانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اُسے پڑھنا بھی بہت پڑتا ہے اور عمل کے معاملے میں بھی پیچھے رہنے کی گنجائش بھی نہیں ہوتی۔ منیجر اگر سکھانے پر مائل ہو تو اپنے ہر ماتحت کو عملی زندگی کے بہترین اسباق دے سکتا ہے۔ عملی زندگی کی مشکلات سے بخوبی نمٹنے کی صلاحیت اور لگن پیدا کرنے میں منیجرز کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ فی زمانہ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ منیجرز اور ایگزیکٹوز سکھانے کے عمل میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ایک طرف تو اُن میں ایسا کرنے کی خواہش و لگن کم ہے اور دوسری طرف وہ متعلقہ تربیت کے حامل بھی نہیں۔ کاروباری نظم و نسق کی تعلیم کے حصول کے دوران انہیں بتایا ہی نہیں گیا کہ اپنا تجربہ دوسروں تک کیسے پہنچانا ہے، انہیں بہتر کاروباری نظم و نسق کے لیے تیار کیسے کرنا ہے۔ سکھانے کا رجحان کمزور پڑچکا ہے۔ آج کے بیشتر منیجرز اپنی اہلیت اور اس کی بنیاد پر حاصل ہونے والا تجربہ دوسروں تک منتقل کرنے کا جذبہ کم ہی محسوس کرتے ہیں۔ سکھانے کا جذبہ مفقود ہونے کی صورت میں اُن میں قائدانہ صلاحیت بھی کماحقہٗ پروان نہیں چڑھ پاتی۔ جو سکھانے پر مائل ہوتے ہیں اُنہی کو قائد کے روپ میں دیکھا جاتا ہے۔ سیکھنے والے عملی زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے ادارے میں اپنے سینئرز کی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر سینئرز انہیں کچھ نہ دے پائیں تو وہ محض اعلیٰ افسر ہوتے ہیں‘ بس! ایسے منیجرز محض منیجرز اور ایگزیکٹوز صرف ایگزیکٹوز ہوتے ہیں، اِس سطح سے بلند نہیں ہو پاتے۔
کوئی بھی کاروباری ادارہ اُسی وقت حقیقی ترقی سے ہم کنار ہوتا ہے جب کسی بھی اعلیٰ منصب پر بیٹھی ہوئی شخصیت سکھانے پر مائل ہو۔ سکھانے کا عمل قائد کی حیثیت سے اس کے اعتماد کا گراف بلند کرتا ہے۔ وہ شخصیت جب کچھ سکھانے میں مصروف ہوتی ہے یعنی شعوری کوشش کرتی ہے تب اسے محض اعلیٰ افسر نہیں بلکہ قائد تصور کیا جاتا ہے اورلوگ اس سے بہت کچھ سیکھنے کے لیے اپنے ذہن کو مکمل تیاری کی حالت میں پاتے ہیں۔ علم و فن اور تجربہ ایک نسل سے دوسری نسل میں اِسی طور منتقل ہوتا ہے۔ کائنات کے خالق نے جنہیں باصلاحیت خلق کیا ہے اُنہیں اپنے تجربے سے دوسروں کو مستفید کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی زندگی کا معیار بلند کرنے کی تحریک محسوس کریں اور سیکھنے پر مائل ہوں۔ جنہیں پوری شعوری کوشش کے ساتھ سکھایا گیا ہو وہ سکھانے پر بھی مائل ہوتے ہیں۔ کسی بھی شعبے کا علم و فن اِسی طور نسل در نسل سفر کرتا اور پروان چڑھتا ہے۔ تعلیمی ادارے جو کچھ سکھاتے ہیں وہ بھی اپنی جگہ اہم ہے مگر اِس سے ایک قدم آگے جاکر صاحبانِ علم و فن کو اپنا تجربہ منتقل کرنے میں دلچسپی لینی چاہیے تاکہ لوگ نجی سطح پر اپنائیت محسوس کریں، ڈھنگ سے جینے اور سلیقے سے کام کرنے میں زیادہ دلچسپی لیں۔ ہر زندہ معاشرے میں اہلِ علم و فن کا ایک خاص وصف اپنا عملی تجربہ نئی نسل تک منتقل کرنا بھی ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے سے وابستہ نمایاں افراد کی ایک اہم قومی ذمہ داری نئی نسل کو آنے والے زمانے کے چیلنجز کیلئے تیار کرنا ہے۔ اس ذمہ داری سے بطریقِ احسن عہدہ برآ ہونے کی صورت ہی میں علم و فن کے دریا کی روانی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ جنہیں قدرت نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے اُنہیں دوسروں کو بھی زیادہ باصلاحیت بنانے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ ہر دور اپنے ساتھ بہت سے چیلنجز لاتا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے علم و فن اور تجربے کا نسل در نسل منتقل کیا جانا ناگزیر ہے۔ جو عمل کی دنیا میں کامیاب ہوچکے ہیں اُنہیں اپنے تجربے کو نئی نسل تک منتقل کرنا ہی چاہیے تاکہ وہ بدلتے ہوئے زمانے کے چیلنجز سے اچھی طرح نمٹنے کے قابل ہوسکیں۔ ہر باصلاحیت انسان کو اپنی ذاتی علمی میراث اور عملی تجربہ منتقل کرنے کے معاملے میں مثالی نوعیت کے جنون کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ معاملہ تاخیر اور تن آسانی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved